دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کہیں نہ پھر دیر ہوجائے۔۔۔محمد عمران

ان کے مقابلے میں جتنے بھی ہوٹل کُھلے وہاں گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے ٹی وی کے ساتھ پہلے وی سی آر پھر سی ڈی پلیئر لازمی ہوتے تھے

آج پھر چاچا حبیب ہوٹل والے کی یاد آرہی ہے،ان کے بیٹے مقبول بھی بھلے انسان تھے۔ اپنے والد صاحب اور دیگر بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ گوگڑاں کے نواح میں موجود تمام چھوٹی بستیوں کے لوگ صبح کی نماز کے بعد پہلا پڑاو چاچے حبیب کے ہوٹل پر کرتے تھے اور پھر وہاں بیٹھ کر گزرے دن کی ساری باتوں پر تبادلہ خیال ہوا کرتاتھا، پڑھے لکھے اور حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے وہاں کارنامہ اور خبریں اخبار موجود ہوتا تھا، ٹی وی اور کیبل کے آنے کے بعد بھی انہوں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

ان کے مقابلے میں جتنے بھی ہوٹل کُھلے وہاں گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے ٹی وی کے ساتھ پہلے وی سی آر پھر سی ڈی پلیئر لازمی ہوتے تھے بعد میں کیبل سروس نے ان کی جگہ لے لی، اس سب اہتمام کے باوجود کوئی چائے کا ہوٹل اپنا وہ نام نہیں بنا سکا جو چاچے حبیب نے بنایا۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے ابھی بیس سال پہلے جب گوگڑاں بازار میں ہماری جوتوں کی دکان تھی تب میں پانچویں سے چھٹی کلاس میں پرموٹ ہوا تھا، مجھے یاد ہے کہ فجر کی نماز کے بعد جب ہم دکان پر جاتے تھے تو چاچے حبیب کے ہوٹل پر کافی رونق ہوتی تھی۔اکثر اخبار پڑھنے کیلئے میں بھی ان کے ہوٹل پر جایا کرتاتھا۔

جہاں تک مجھے یاد ہے وہ چائے پکانے کیلئے مٹی کے تیل والا سٹوو استعمال کرتے تھے اور اس میں آگ کا پریشر بنانے کیلئے ہوا بھی بھری جاتی تھی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی جگہ اب ایل پی جی نے لے لی ہے۔دو ہزار پانچ کے بعد کی پیدائش والے بچوں کیلئے مٹی کے تیل والا سٹوو عجیب و غریب چیز ہی ہوگا۔

غالباً دو ہزار چودہ یا پندرہ میں ایک بار میں چھٹیوں پر تھا تو ارادہ بنایا کہ ان کے ہوٹل پر ڈاکیومنٹری بناوں، میں نے اس کا پلاٹ بھی تیار کیا کہ کیا کچھ ریکارڈ کرنا ہے اور اس کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن تب میں یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے نہیں کرسکا کہ لوگ کیا کہیں گے، ذہن میں یہ بات کٹھکٹھا رہی تھی کہ بازار میں موجود لوگ باتیں بنائیں گے کہ منظور کا بیٹا اپنے صحافی ہونے کا رعب جھاڑنے کیلئے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور اس طرح کی کئی اور باتیں میرے ارادے کے سامنے رکاوٹ بن گئیں۔
میں نے سوچا تھا کہ کم از کم آدھا دن ہوٹل پر گزاروں گا۔ صبح ہوٹل کھلنے کے ساتھ ہی میں وہاں ہونے والی ایکٹویٹی کو فلمانا شروع کردوں گا۔ پھر وہاں آنے والے لوگوں سے گپ شپ کروں گا کہ وہ کب سے اس ہوٹل کی چائے پی رہے ہیں اور صرف یہاں ہی کیوں آتے ہیں،یہ بھی سوچا تھا کہ چاچے حبیب سے پوچھوں گا کہ آج تک انہوں نے اپنے ہوٹل میں ٹی وی کیوں نہیں رکھا،ان کی چائے میں ایسا کیا تھا جو کوئی اور ہوٹل والا ویسی چائے نہیں بناسکتا،ایسا کون سا راز ہے کہ کئی کلومیٹر دور کی بستیوں کے لوگ فجر کے بعد یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

کئی اور باتیں جو میرے دل میں تھیں وہ آج میں اس صفحے پر اتار رہا ہوں۔مجھے افسوس ہورہا ہے کہ اس وقت صرف ایک وہم )لوگ کیا کہیں گے( کی وجہ سے میں نے اپنے علاقے کی ایک تاریخ کو محفوظ کیوں نہیں کیا۔اب نہ تو چچا حبیب اس دنیا میں نہ ان کا بیٹا مقبول ہمیں یہ کہانی سنانے کیلئے زندہ ہے، کئی اور لوگ جن کیلئے چچا حبیب کا ہوٹل ایسا ڈیرہ تھا جہاں بیٹھ کر وہ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ حال احوال کرتے تھے وہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

اب تو شہر کے اندر اور داخلی راستوں پر کئی چائے خانے کھل چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ ماحول جو چاچے حبیب کے ہوٹل پر ہوتا تھا وہ اب کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔

ان لفظوں سے میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور اپنے اوپر واجب ایک قرض اتارنے کی کوشش کررہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو کوئی بھی یہ تحریر پڑھ رہا ہے وہ چاچا حبیب اور ان کے بیٹے کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ پڑھے اور کوشش کریں کہ اپنے اردگر موجود ایسی تاریخ کو مٹنے سے پہلے محفوظ کرلیں، کوئی ایسی دکان جو دہائیوں سے چل رہی ہو اور اب تک اپنے روایتی انداز کے ساتھ موجود ہو تو وہاں جا کر ان کی کہانی سنیں، ویڈیو بنائیں یا پھر تحریر کی شکل میں اُسے محفوظ ضرور کریں، آپ کے آس اس کہیں اسی، نوے سال کے بزرگ موجود ہیں تو ان کے پاس بیٹھیں، ان سے اُن کی جوانیوں کے قصے سنیں اُس وقت کے مشہور واقعات جاننے کی کوشش کریں ،ایسا کرنے سے آپ وہ علم اورتجربہ حاصل کرسکتے ہیں جو کوئی بھی کتاب یا سکول آپ کو نہیں دے سکتا۔

About The Author