کچھ عرصہ قبل تاریخ دانوں کے بارے میں ایک مضمون لکھا‘ تو وعدہ کیا تھا کہ ایک گم شدہ کتاب کے بارے میں کبھی ضرور لکھوں گا۔ میں کسی عام کتاب کی بات نہیں کر رہا‘ یہ سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھوائی گئی تھی۔ میں نے باقاعدہ نوکری بطور ریسرچ فیلو ‘ نیشنل کمیشن آن ہسٹریکل اینڈ کلچرل ریسرچ میں 1974کے اوئل میں شروع کی تھی۔ صرف چند ماہ پہلے‘ یا اس سے کچھ زیادہ‘ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اصرار پر کے کے عزیز صاحب خرطوم یونیورسٹی سوڈان میں اپنی دیرینہ درس و تدریس کا سلسلہ ختم کرکے ‘ ہسٹری کمیشن کی سربراہی کا عہدہ قبول کر چکے تھے۔ وہ محنت اور ریاضت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ بطور تاریخ دان‘ محقق اور مصنف وہ اپنا لوہا جنوبی ایشیا کے مؤرخین میں منوا چکے تھے۔ بھٹو صاحب خود پڑھنے لکھنے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے کا شوق رکھتے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سیاست کے میدان میں کم ہی لوگ تھے‘ جو دنیا بھر سے کتابیں اکٹھی کرنے اور انہیں پڑھنے کا قصد کرتے ہوں۔ میرے نزدیک پیر پگاڑا صاحب مرحوم کو بھی کتابیں اکٹھی کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کے آبائی گوٹھ میں کئی بار جانے کا شرف حاصل ہوا۔ مزارات کے ساتھ انہوں نے لائبریری قائم کر رکھی ہے۔ کچھ وقت وہاں گزارا تو بہت ہی نایاب کتابیں دیکھیں اور کچھ کلاسکس بھی نظر سے گزریں‘ جو صرف ایک صاحبِ شوق ہی خرید سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کی کتب بینی کے بارے میں کئی شواہد ہیں‘ جو ان کے بارے میں لکھی گئی کتب میں محفوظ ہیں‘ اور یہ بھی شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ تاریخ عالم پر ان کی گرفت خاصی زیادہ تھی۔
کمیشن بنانے کی ضرورت کیوں پڑی‘ جبکہ کئی ادارے پہلے ہی سے موجود تھے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا میرے پاس کوئی واضح جواب تو نہیں‘ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ادارہ سازی میں جو بھٹو صاحب نے کردار ادا کیا‘ اس کی مثال ہماری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ چند برسوں میں بہت سے ادارے بنائے اور جواز یہ تھا کہ پاکستان کو نہ دنیا سمجھتی ہے اورنہ ہم اس کے مختلف معاشروں کی انفرادی تاریخ کو اجاگر کر پائے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ وہ پاکستانی علاقوں کی ثقافت کی ترقی و ترویج چاہتے تھے اور خواہش مند تھے کہ اسے دستاویزی صورت میں بھی ڈھالا جائے۔ میرے ساتھ دس پندرہ دوسرے فیلوز اور بھی تھے‘ جو اپنی پسند کے مختلف موضوعات پر تحقیق میں مصروف ہو گئے تھے۔
اس وقت ہمارا کمیشن قائدِ اعظم یونیورسٹی کے اندر ایک عمارت میں قائم تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت نے سب فنڈز اور سہولتیں موثر طریقے سے فراہم کیں۔ جو بات کے کے عزیز صاحب کے منہ سے نکلتی ‘ پوری کی جاتی تھی۔ ان کا براہ راست تعلق بھٹو صاحب سے بھی تھا‘ لیکن تر پیغام رسانی ان کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر امتیاز علی صاحب کے ذریعے ہوتی تھی۔ بعد ازاں امتیاز علی میجر جنرل بن کر ریٹائر ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ہم نے محسوس کیا کہ اچانک فوٹو سٹیٹ مشینیں آ گئی ہیں‘ جو اس وقت تک یونیورسٹی کے پاس بھی نہیں تھیں۔ چند ریسرچ فیلوز کو ایک ”سپیشل‘‘ پروجیکٹ کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ یہ خاکسار ان میں شامل نہ تھا‘ لیکن جیسا کہ پاکستانی اداروں میں ہوتا ہے‘ کوئی چیز ایک دوسرے سے چھپی نہیں رہتی اور نہ چھپائی جا سکتی ہے۔ یہ سطور میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میں اپنی گواہی ریکارڈ کرا سکوں۔ آپ جو بھی اندازے لگائیں‘ نتیجے نکالنا چاہیں‘ ضرور نکالتے رہیں‘ اور کوئی اس کی تصحیح کرنا چاہے یا اس کی تردید کرنا چاہے تو بندہ حاضر ہے۔ کمیشن کی نوکری کے زمانے سے میرے ایک قریبی دوست ہیں‘ کئی بار ان کے بارے میں بات کر چکا ہوں۔ مسعود قائم صاحب بھی اس سپیشل پروجیکٹ پر کام کرنے والوں میں سے تھے۔ وزیر اعظم ہائوس سے بذریعہ ملٹری سیکرٹری فائلوں کے انبار آتے اور تہہ در تہہ کے کے عزیز کی میز پر رکھ دئیے جاتے۔ وہ سب کو پڑھتے‘ کچھ نوٹس لیتے اور صفحوں کے درمیان کاغذ رکھ کر با اعتماد ریسرچ فیلوز یا اپنے سیکرٹری کو کاپیاں بنوانے کے لئے دیتے جاتے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ ”سپیشل‘‘ ریسرچ پروجیکٹ اس معاملے کے بارے میں ہے۔ وقت گزرتا گیا‘ بہت سی تبدیلیاں قومی سیاست میں رونما ہوئیں ‘ بلکہ انقلاب آئے تو سپیشل ”پروجیکٹ‘‘ کے بارے میں یہ خاکسار جانکاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ شروع سے ایک تجسس تھا اور کچھ بے چینی بھی کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہے کہ ہم سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سرکاری نوکری کے آداب سے کچھ زیادہ واقفیت بھی نہ تھی‘ تازہ تازہ پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری لے کر آئے تھے اور دیہی رنگ ‘ جس میں بے باکی کا عنصر غالب تھا‘ غلط ملط سوال ہر ایک سے کر گزرتے۔
جس وقت ”سپیشل پروجیکٹ‘‘شروع ہوا‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمودالرحمن کمیشن رپورٹ سرکار کے حوالے کی جا چکی تھی۔ بھٹو صاحب اس کو پڑھ چکے تھے۔ مطالبہ زوروں پر رہا کہ رپورٹ کو قوم کے سامنے لایا جائے‘ مگر بھٹو صاحب نے صاف انکار کر دیا کہ اس میں ایسے راز ہیں ‘ جو کھل گئے تو نہ جانے کون سی قیامت آ جائے گی۔ آج بھی جو رپورٹ کتابی صورت میں کئی دہائیوں بعد ہمارے سامنے ہے‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ”ادھوری‘‘ ہے اور اس کے کچھ حصے مخفی رکھے گئے ہیں۔ شفافیت نہ ہو تو ایسی بد گمانیاں فطری طور پر پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں جو معلوم ہے‘ اور بہت سے لوگ جوسیاست میں تھے یا اس وقت اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے‘ جانتے ہیں کہ بھٹو صاحب کا سانحہ مشرقی پاکستان میں کلیدی کردار تھا۔ انتخابات کے بعد انہوں نے سیاسی لحاظ سے جو موقف اختیار کیا‘ اس کا نتیجہ وہی ہونا تھا‘ جو ہوا ہے‘ مگر ساری ذمہ داری ان پہ نہیں ڈالی جا سکتی‘ اس لئے کہ اصل طاقت تو مارشل لا حکومت اور یحییٰ خان کے پاس تھی۔
بھٹو صاحب سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمودالرحمن کمیشن سے مختلف تاریخ لکھوانا چاہتے تھے اور یہ ذمہ داری کے کے عزیز نے قبول کر لی تھی۔ چونکہ جو کچھ انہوں نے لکھا‘ وہی ابھی تک عام نہیں‘ اس لئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اس سانحے کی تاریخ اسی طرح لکھی‘ جو معروضی تاریخ لکھنے کا تقاضا ہے‘ یا فرمائشی تاریخ لکھی۔ جو دستاویز انہوں نے تیار کی‘ اس کی ضخامت تقریباً پندرہ سولہ سو صفحات پر مشتمل تھی۔ بھٹو صاحب نے جب پڑھی تو لوٹا دی‘ اس تاکید کے ساتھ کہ اسے مختصر کیا جائے۔ کے کے عزیز نے اسے گیارہ بارہ سو صفحات میں دوبارہ لکھا۔ آٹھ کاپیاں بنوائی گئیں۔ ان میں سے ایک کاپی کے کے عزیز صاحب کے پاس رہی‘ باقی بھٹو صاحب کے حوالے کی گئیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو نئی مارشل لا حکومت نے ہسٹری کمیشن کا بھی تختہ الٹ دیا۔ کے کے عزیز کو نہ صرف نوکری سے ہٹایا گیا بلکہ ان کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ ان کے خلاف انکوائری پہ انکوائری شروع ہو گئی‘ غالباً مقدمات بھی‘ جو بعد میں واپس لے لئے گئے۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے بارے میں جو وائٹ پیپر نکالا گیا‘ تو اس میں بھی کے کے عزیز کے بارے میں ”کرپشن‘‘ کے الزامات کا ذکر لازم ٹھہرا۔ سوائے نوکری کے ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزاری۔ ان کا اپنا کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ سنا ہے کہ گزر اوقات کے لئے انہوں نے وہ بھی بیچ ڈالا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز علی اور کے کے عزیز کو یاد رکھا۔ کے کے عزیز کچھ عرصہ کے لئے کیمبرج یونیورسٹی میں بطور پاکستانی فیلو تعینات کر دئیے گئے۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر وہ ”گمشدہ‘‘ کتاب کہاں گئی۔ ان کاپیوں میں سے کچھ ضرور کچھ اداروں کے ہاتھ لگی ہوں گی۔ کاش کبھی کے کے عزیز سے ملاقات ہو سکتی تو ان سے پوچھتے۔ مگر وہ اب ہم سے نہیں۔
اگلے سال سانحہ مشرقی پاکستان کو پچاس سال ہو جائیں گے۔ یہ دکھ کبھی بھولنا نہیں چاہئے۔ سازش تھی یا سیاسی حرکیات کا نتیجہ‘ آمریت نے المیے کا راستہ ہموار کیا یا خام جمہوریت کا کرشمہ تھا‘ سب کچھ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ”گم شدہ‘‘کتاب کہیں پڑی مستقبل کے مؤرخین کی منتظر ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر