(یہ تحریر میں نے 8 سال پہلے ایک انگریزی بلاگ کی صورت میں لکھی تھی۔ آج اسے اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کی ہے)
۔
28 مئی 1998 میری زندگی کے یادگار دنوں میں سے ایک ہے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ اس کی وجہ پاکستان کے جوہری دھماکے نہیں ہیں۔ یہ دنیا ایٹم بموں کے بغیر زیادہ خوبصورت ہوتی۔
دراصل اتفاق سے اسی تاریخ کو کراچی میں چند صحافیوں نے ایک نئے ادارے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انھوں نے ایک اخبار شروع کیا جو اس قدر کامیاب ثابت ہوا کہ اب گیارہ شہروں سے بیک وقت نکلتا ہے۔ اس کا سرپرست ادارہ اب ایک معتبر انگریزی اخبار اور کئی ٹی وی چینل بھی چلاتا ہے اور ملک کا دوسرا بڑا میڈیا گروپ بن چکا ہے۔
میں ایکسپریس کا ذکر کررہا ہوں۔ میں اس ادارے کا بانی کارکن تھا۔ درحقیقت میں نے یہ ادارہ اس وقت جوائن کیا جب اس کا دفتر کراچی پریس کلب کے سامنے لیکسن بلڈنگ نمبر 3 میں تھا۔
اگرچہ ہم لوگوں کو مئی 1998 کے پہلے ہفتے میں طلب کرلیا گیا تھا لیکن سنچری پبلی کیشنز نے ہمیں اپائنٹمنٹ لیٹرز 28 مئی کو دیے تھے۔ کئی ماہ کی محنت کے بعد ایکسپریس کراچی کی ٹیم نے میری سالگرہ کے دن یعنی 2 ستمبر کو جو کام کیا، وہ اگلے دن 3 ستمبر کو پہلی بار شائع ہوکر بازار میں آیا۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس روز میری بائی لائن اسٹوری اس میں شامل تھی۔
میرا خیال ہے کہ ایکسپریس کا آغاز پاکستان کی تاریخ کی بہترین میڈیا ٹیم نے کیا۔ اگر یہ سب سے بہتر نہیں تو چند بہترین ٹیموں میں سے ایک تھی۔ اس سے پہلے حریت اور بعد میں جیونیوز میں بن جانے والی ٹیمیں ہی اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔
ایکسپریس کی اس ٹیم کے تمام سینئرز بڑے اداروں میں اہم پوزیشنز پر کام کرچکے تھے جبکہ جونئرز نے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بڑے اداروں میں اہم پوزیشنز پر کام کیا بلکہ اب بھی کررہے ہیں۔
میں نے ایکسپریس میں ساڑھے تین سال ملازمت کی۔ آج میں ان تمام لوگوں کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں جنھوں نے اس دور میں اس نئے اخبار میں کام کیا۔
ایڈیٹر: نیر علوی
(علوی صاحب کو 40 سال کی صحافت کا تجربہ تھا اور وہ نوائے وقت سے ایکسپریس آئے تھے۔ 11 ستمبر 2011 کی شام وہ دفتر میں موجود تھے اور ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی 40 سالہ صحافت میں سب سے بڑا واقعہ کیا ہوا تھا۔ انھوں نے نائن الیون کو سرفہرست قرار دیا۔ اس کے دو ہفتے بعد 26 ستمبر کو ان کا انتقال ہوگیا)
نیوز ایڈیٹر: طاہر نجمی
(نجمی صاحب امن میں اجمل دہلوی کے ساتھ کام کرچکے تھے جنھیں اپنے وقت کا بہترین صحافی سمجھا جاتا ہے۔ ایکسپریس میں آنے سے پہلے نجمی صاحب جنگ کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے عہدے دار رہے۔ علوی صاحب کے انتقال کے بعد سے اب تک وہی ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر ہیں)
شفٹ انچارج: سلیم عامر
(سلیم عامر صاحب بھی جنگ سے ایکسپریس میں آئے تھے۔ بعد میں انھوں نے جیونیوز میں شمولیت اختیار کی اور ہم دونوں ایک بار پھر ساتھ کام کرتے رہے۔ جیونیوز چھوڑ کر وہ کسی نئے اخبار میں چلے گئے تھے)
شفٹ انچارج: طاہر نور
(ایکسپریس کے ابتدائی دنوں میں طاہر نور صاحب خبریں تقسیم کرتے تھے اور سلیم عامر صاحب انھیں وصول کرتے تھے۔ لیکن وہ ایکسپریس بازار میں آنے سے پہلے الیاس شاکر کے اخبار ریاست کے ایڈیٹر بن کے چلے گئے۔ طاہر نور صاحب بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں اور مجھے ان کے جانے کا افسوس ہوا تھا۔ انھوں نے بھی بعد میں تسلیم کیا کہ ان سے غلط فیصلہ ہوا تھا۔ آج کل شاید کسی چینل میں کام کررہے ہیں)
نائٹ شفٹ کے ارکان: مبشر منصور، ذاکر نسیم، محمد اطیب، غلام مجتبیٰ، (بعد میں الطاف حسین، مبشر علی زیدی، حیات عزیز نقوی، محمد ناصر)
(مبشر منصور صاحب اور ذاکر نسیم صاحب امن سے ایکسپریس میں آئے تھے۔ مبشر صاحب سخت مزاج کے آدمی تھے اور ذرا سی بات پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھ سے محبت کرتے تھے۔ انھوں نے ایکسپریس میں شمولیت کے خواہش مند درجنوں افراد کا ٹیسٹ لیا اور انھیں فیل کیا لیکن مجھے پاس کردیا تھا۔ چند سال پہلے وہ کینسر میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔
ذاکر نسیم صاحب بے حد خوش مزاج اور دوست طبیعت آدمی تھے۔ شاعر تھے لیکن اپنے شعر نہیں پڑھتے تھے۔ رات دو ڈھائی بجے شفٹ ختم ہوتی اور ہم دفتر سے نکلتے تو وہ روزانہ ایک ہی مصرع پڑھتے تھے: چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔
ایک بار ان کے قریبی دوست مبشر منصور صاحب نے ان کا شعر سنایا: جس کی آنکھوں کا مر گیا پانی۔۔۔ اس کو ذاکر نسیم کہتے ہیں
ذاکر صاحب ایم کیو ایم کے خاموش کارکن تھے۔ انھوں نے ملک چھوڑنے والے درجنوں لڑکوں کی اس طرح مدد کی کہ ان کے گھر پر چھاپوں یا ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کی خبریں لگائیں۔ اس دور میں ایسی خبر شائع ہونے پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بیرون ملک سیاسی پناہ مل جاتی تھی۔
میں اطیب صاحب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا کیونکہ وہ بہت کم گو تھے۔ کسی نے بتایا تھا کہ انھوں نے کراچی کے کسی حلقے سے 2002 کا الیکشن لڑا تھا۔ خدا جانے بعد میں کیا کرتے رہے اور اب کہاں ہیں۔
غلام مجتبیٰ صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ نوجوانوں سے جلد دوستی کرلیتے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی جب وزیراعظم بنے تو انھیں اپنا اسپیچ رائٹر مقرر کیا۔ ان کے بھائی غلام محی الدین اپنے زمانے میں پاکستانی فلموں کے مشہور اداکار تھے۔ میں کئی بار ان کے گھر گیا اور دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کی۔ وہ بہت سال تک ایکسپریس میں کام کرتے رہے اور چند سال پہلے کسی اور اخبار میں چلے گئے۔
حیات عزیز نقوی شروع کی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ وہ روزنامہ عوام سے ایکسپریس آئے اور بعد میں میری طرح جنگ لندن چلے گئے۔ ریڈیو کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ محمد ناصر جنگ سے ایکسپریس آئے۔ کچھ عرصہ نائٹ شفٹ میں کام کیا۔ پھر مجھ سے ان کا تبادلہ کیا گیا۔ یعنی وہ اسپورٹس ڈیسک بھیجے گئے اور مجھے نائٹ شفٹ منتقل کیا گیا۔ آج کل ناصر صاحب جیو کے کری ایٹو ڈپارٹمنٹ کے رکن ہیں)
سٹی ڈیسک: انچارج الطاف حسین، ساتھی ندیم رضا، شعیب انصاف (بعد میں سرفراز سیال، محمد عامر، زاہد مظہر)
(الطاف حسین جنگ سے ایکسپریس آئے تھے۔ کام اچھا اور زیادہ کرتے تھے۔ جلد انھیں نائٹ شفٹ میں بھیج دیا گیا۔ جب علوی صاحب کا انتقال ہوا تو نجمی صاحب ایڈیٹر اور سلیم عامر صاحب نیوز ایڈیٹر بن گئے۔ تب الطاف صاحب کو شفٹ انچارج بنایا گیا۔ بعد میں وہ جیونیوز کے بلیٹن پروڈیوسر رہے اور وہاں سے ایکسپریس کے نیوز چینل چلے گئے۔
ندیم رضا پی پی آئی سے ایکسپریس آیا تھا۔ جوائن کرتے ہی شادی کی چھٹی پر چلا گیا۔ اتفاق سے چند ماہ بعد میری بھی شادی ہوگئی۔ ہم دونوں کی بیٹیوں میں ایک ہفتے کا فرق ہے۔
ندیم ایکسپریس سے جیو آیا۔ بہت عرصہ دبئی میں کام کیا۔ پھر سما، ایکسپریس، دنیا، ہم، سچ، بول، ہر چینل کا مطالعاتی دورہ کرچکا ہے۔ شاید اس سے زیادہ نیوز چینلوں کا تجربہ کسی کو نہیں۔
شعیب انصاف ایکسپریس سے جنگ لندن چلا گیا تھا۔ پھر واقعی لندن چلا گیا اور کچھ عرصہ پڑھ لکھ کر واپس آگیا۔ پہلے جیونیوز اور سما اور اب شاید ڈان میں کام کررہا ہے۔
الطاف حسین نائٹ شفٹ گئے تو سرفراز سیال کو سٹی ایڈیٹر بنایا گیا۔ علوی صاحب اسے نوائے وقت سے اپنے ساتھ لائے تھے اس لیے اس پر اعتماد کرتے تھے اور ٹھیک کرتے تھے۔ سرفراز میرا بہت پیارا دوست ہے۔ وہ بھی شعیب انصاف کی طرح یا شاید اسی کے ساتھ انگلینڈ چلا گیا تھا اور چند سال بعد بور ہوکر واپس آگیا۔ پہلے سما اور اب ڈان میں کام کررہا ہے۔
شعیب انصاف کے جنگ جانے کے بعد سرفراز سیال اپنے دوست زاہد مظہر کو ایکسپریس لایا تھا۔ بعد میں زاہد مظہر بھی جیو پہنچا اور برسوں دبئی اسٹیشن پر کام کیا۔ اسے بڑی گاڑی چلانے کا شوق تھا اور ایک پرانی لیکن بہت لمبی سی گاڑی لے کر گھومتا تھا۔ ندیم اسے اپنے ساتھ سما لے گیا۔ پھر ندیم کہیں اور گیا لیکن زاہد نے ڈان نیوز چینل جوائن کرلیا۔ بہت سال سے وہ ڈان کا ڈائریکٹر نیوز ہے۔
محمد عامر نے ایم بی بی ایس کیا۔ ہاؤس جاب کے دوران ایکسپریس میں بھی کام کررہا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ڈاکٹری کرکے چار ہزار ملتے ہیں اور صحافت کرکے پانچ ہزار۔ تب میں نے شکر ادا کیا کہ بابا کے کہنے پر ڈاکٹر نہیں بنا۔ عامر بعد میں امریکہ آگیا اور پہلے چچا کے اخبار میں کام کرتا رہا اور پھر شاید اپنا اخبار نکال کیا۔
ڈسٹرکٹ ڈیسک: انچارج نعیم کھوکھر، ساتھی سید کاشف رضا
(نعیم کھوکھر کشمیری ہے اور 8 اکتوبر کے زلزلے میں اس کے کئی رشتے دار جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس نے میرے بعد جنگ لندن جوائن کیا اور ترقی کرتے کرتے اس کا نیوز ایڈیٹر بن گیا۔ اب بھی وہیں کام کرتا ہے۔
سید کاشف رضا ایکسپریس سے پہلے پبلک میں کام کرچکا تھا۔ اس وقت بھی اچھے شعر کہتا تھا اور کتابوں میں گم رہتا تھا۔ ایکسپریس سے وہ جنگ گیا، پھر ڈان اخبار میں شمولیت اختیار کی، انڈس نیوز میں گیا، جیو میں آیا، آج ٹی وی گیا، نیوز ون میں چھلانگ ماری اور پھر جیونیوز آکر ٹک گیا۔ شعر، افسانہ، ترجمہ، ناول سب لکھتا ہے اور دنیا گھوم کر سفرنامہ بھی چھاپتا ہے)
اسپورٹس ڈیسک: انچارج سید محمد صوفی، ساتھی مبشر علی زیدی، نصرت علی (بعد میں منظر نقوی، نعیم الرحمان، رپورٹر عبدالرشید شکور، محمد علی انصاری اور سلیم خالق)
(صوفی صاحب میرے استاد اور گرو ہیں۔ 1969 میں ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد عملی صحافت میں آگئے۔ ان جیسے صحافی کم ہوں گے جنھوں نے جماعت اسلامی کے اخبار جسارت اور پیپلزپارٹی کے اخبار مساوات دونوں میں کام کیا ہو۔ وہ ضیا دور میں جیل گئے۔ واپس آکر ٹریک بدل لیا اور اسپورٹس میگزین اخبار وطن کے ایڈیٹر بن گئے۔ میں اسی وقت سے انھیں جانتا ہوں۔ کچھ عرصہ جنگ میں رہے اور ایکسپریس گئے تو مجھے بھی بلالیا۔ جیونیوز جوائن کیا تو مجھے وہاں بھی کھینچ لیا۔ اب بھی جیونیوز کے اسپورٹس ایڈیٹر ہیں۔
ایکسپریس کی کامیابی میں سب سے بڑا حصہ صوفی صاحب کا تھا۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس نے پورا صفحہ اسپورٹس کے لیے مختص کیا اور بعد میں دو صفحات کردیے۔ ورلڈکپ 1999 کی ایسی کوریج کی کہ ایکسسپریس نے فروخت کے ریکارڈ توڑ دیے اور جنگ کو پسینہ آگیا۔
نصرت علی اچھا کرکٹر تھا اور کراچی کی طرف سے پیٹرنز ٹرافی کھیل چکا تھا۔ ایم اے میں پوزیشن لے کر ایکسپریس جوائن کیا اور ایم بی اے کرنے کے لیے چند ماہ بعد ایکسپریس چھوڑ دیا۔ بعد میں جیو اور دوسرے اداروں کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا رہا۔ غالباً ناظم آباد کا انو بھائی پارک اس کے دادا یا نانا کے نام پر ہے۔
منظر نقوی کا کیا ذکر کروں؟ انچولی کے بزرگ ہیں۔ صدیوں سے انھیں جانتا ہوں۔ ان کا ذکر کرنے کے لیے پوری کتاب لکھنا پڑے گی۔ ایکسپریس سے پہلے ڈی سی پیجر میں کام کرتے تھے اور اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ بڑی مشکل سے میں نے اور صوفی صاحب نے انھیں سمجھایا۔ بعد میں جیونیوز جوائن کیا اور آج بھی صوفی صاحب کے ساتھ وہیں ہیں۔ کلب کرکٹ کھیلی اور ایک میچ میں پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ سب سے خفا رہتے ہیں اور زبان میں وہ قیامت کا اثر ہے کہ دنیا میں کوئی ان کا دوست نہیں۔
ہمارے پیارے دوست نعیم الرحمان کتابوں کے عاشق ہیں اور صرف خریدنے کے نہیں بلکہ مطالعے کے بھی۔ ایکسپریس سے پہلے جرنلزم سے تعلق نہیں تھا لیکن اچھا کام کرتے رہے۔ بعد میں اے آر وائی اسپورٹس کا حصہ بنے۔
عبدالرشید شکور کا نام پورا پاکستان جانتا ہے۔ وہ اس وقت بھی بی بی سی کے اسپورٹس رپورٹر تھے اور اب بھی ہیں۔ ایکسپریس کے اسپورٹس صفحے کی کامیابی میں ان کی خبروں کا اہم حصہ تھا۔
ایم اے انصاری میرے والد کی طرح نیشنل بینک کے ملازم تھے۔ اسپورٹس سے فقط اتنا تعلق تھا کہ وہ کراچی ریس کلب میں ہر گھوڑے کی رگ رگ سے واقف تھے۔ وہ ریس سے پہلے جو پیش گوئیاں کرتے، وہ حیران کن طور پر درست ثابت ہوتیں۔ مجھے بتاتے تھے کہ صبح چھ بجے وہ گھوڑوں کا معائنہ کرنے ریس کلب جاتے تھے۔ اس قدر معلومات کے باوجود انھوں نے کبھی ریس پر ایک پیسہ نہیں لگایا۔ میں نے ان کے ساتھ مل کر اس موضوع پر ایک مضمون لکھا جو سنڈے میگزین میں چھپا۔ وہ ایکسپریس کے لیے ایک ایونٹ کی کوریج کرنے لاہور گئے اور بیمار ہوکر ہوٹل کے کمرے میں انتقال کرگئے۔
سلیم خالق کو ایکسپریس کے ایک کرکٹ میگزین کے لیے رکھا گیا تھا۔ وہ پہلے اخبار وطن میں کام کرتا تھا۔ میگزین نہ چلا تو وہ اخبار میں کام کرنے لگا۔ صوفی صاحب اسے اپنے ساتھ جیو لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن اسے خیال آیا کہ صوفی صاحب کے جانے کے وہ ایکسپریس کا اسپورٹس ایڈیٹر بن سکتا ہے۔ چنانچہ آج تک وہیں ہے)
بزنس ڈیسک: انچارج عبدالغفار رحمانی، ساتھی لئیق احمد، عبدالوحید، رپورٹر آصف علی خان
(رحمانی صاحب ایکسپریس سے پہلے بھی سینئر صحافی تھے اور ان کا اپنے شعبے میں نام تھا۔ پھر سنا کہ ان کی امریکہ کی امیگریشن ہوگئی ہے اور وہ ایکسپریس چھوڑ کے چلے گئے۔ امریکہ راس نہیں آیا یا کوئی اور وجہ تھی، وہ واپس پاکستان آگئے۔ بعد میں ان سے انڈس نیوز میں ملاقات ہوئی جہاں کاشف رضا مجھے لے گیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اب وہ کہاں کام کررہے ہیں۔
لئیق بہت ہونہار بچہ تھا۔ ایکسپریس میں رہتے ہوئے ایم کام اور اللہ جانے کیا کیا کررہا تھا۔ ایکسپریس کے بعد میرے سامنے جیونیوز کی بزنس ڈیسک پر آیا اور وہاں سے اسٹیٹ بینک چلاگیا۔
عبدالوحید مجھ سے بھی چھوٹے قد کا شریف سا پشتون بچہ تھا۔ ایکسپریس میں کچھ عرصہ کام کیا اور پھر غالباً جنگ اور وہاں سے آج نیوز چلا گیا۔ بہت محنتی تھا۔ صبح میں اسکول میں پڑھاتا، شام کو نیوز چینل۔ زیادہ کام کرنے کا نتیجہ جسم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوا لیکن بچ گیا۔ بعد میں اس سے لاہور میں ایک ملاقات ہوئی جہاں وہ کسی نیوز چینل میں کام کررہا تھا۔
آصف علی خان نے لاہور سے کراچی آکر ایکسپریس جوائن کیا تھا۔ اس وقت بہت بھولا بھالا لڑکا تھا۔ ایک دن کہنے لگا، کراچی کے لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب بہت کھاتا ہے۔ یار ہم تو دوپہر تک کا کھانا نہیں کھاتے۔ میں اس پر بہت ہنسا اور اسے تسلی دی۔ بعد میں آصف نے جیونیوز میں کچھ دن کام کیا۔ شاید اب لاہور کے کسی چینل میں اچھی پوزیشن پر ہے)
ایڈیٹوریل پیج: شمیم نوید، ساتھی سلیم اذر
(ایکسپریس کا آغاز ہوا تو ایڈیٹوریل پیج نہیں تھا۔ صرف اداریہ کسی ایک صفحے کے اوپر چھپتا تھا۔ شمیم صاحب اسے بھی پورا دن لکھتے رہتے تھے اور بار بار پروف ریڈنگ کرتے تھے۔ ڈائجسٹ پڑھنے والے ان کے نام سے واقف ہوں گے۔ میں بھی انھیں پہلے سے جانتا تھا۔ انھوں نے ایک ڈائجسٹ جرم و سزا کے نام سے نکالا تھا جو نہیں چل سکا۔ وہ ایکسپریس کے ابتدائی برسوں میں ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے تھے۔
سلیم آذر صاحب نے شمیم نوید صاحب کی معاونت کی اور بعد میں ایڈیٹوریل صفحے کے انچارج رہے۔ شاید اب بھی وہیں کام کررہے ہیں)
انٹرنیشنل ڈیسک: انچارج سردار نازش
(سردار نازش صاحب بہت سادہ مزاج آدمی ہیں۔ ایکسپریس کے تیز طرار لونڈے انھیں اکثر بے وقوف بناتے تھے اور مجھے یقین ہے کہ انھیں آج بھی اس کا پتا نہیں ہوگا۔ ایکسپریس کے بعد انھوں نے سرکاری ملازمت مل گئی۔ پہلے واپڈا اور پھر پی سی ایس آئی آر میں کام کرتے رہے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں میں استاد بنے۔ جب میں نے بحریہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں آگئے تھے۔ اب بھی شاید وہاں کام کررہے ہیں۔
سردار نازش کے بھائی اقبال تابش نے ایکسپریس کے اسپورٹس ڈیسک پر کچھ عرصہ کام کیا، معلومات عامہ کی ایک کتاب مرتب کی اور پھر وفاق ایوانہائے صںعت و تجارت میں ملازم ہوگئے۔ بعد میں سارک چیمبر آف کامرس کے سیکریٹری بنے)
رپورٹنگ ٹیم: انچارج محمد علی، ساتھی فہیم صدیقی، اصفر امام، جی ایم جمالی، عمران احمد، ریحان ہاشمی، شاکر سلطان، طفیل احمد، عرفان اکرم، قاضی آصف
(محمد علی جنگ کے سابق کرائم رپورٹر اور ایکسپریس کے پہلے چیف رپورٹر تھے۔ بہت دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ یعنی رپورٹروں والی گفتگو۔ ایکسپریس کے بعد کہیں نہیں گئے اور وہیں انتقال ہوگیا۔
مجھے اور فہیم صدیقی کو ایک ساتھ ایکسپریس کا اپائنٹمنٹ لیٹر ملا تھا۔ فہیم پہلے ایجوکیشن رپورٹر تھا۔ ایک دن آئی بی اے کے سابق ڈائریکٹر اور کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر عبدالوہاب کے خلاف کسی درست خبر پر سزا ملی اور کرائم کی بیٹ دے دی گئی۔ آج پورا ملک اسے اسی حوالے سے جانتا ہے۔ فہیم ایکسپریس کے بعد جیونیوز کی لانچ ٹیم میں شامل ہوا اور آج کل اس کا کراچی کا بیورو چیف ہے۔
اصفر امام پرانے صحافی ہیں اور ایکسپریس کے بعد آج نیوز میں کام کرتے رہے۔ پھر امریکہ آگئے۔ چند سال نیویارک کے کسی پاکستانی میڈیا ادارے میں کام کرتے رہے۔ اب ہم دونوں وائس آف امریکہ میں ایک ساتھ ہیں۔
جی ایم جمالی ایکسپریس سے پہلے دی نیوز میں کام کرچکا تھا۔ ایکسپریس میں بہت زمانے تک کام کیا۔ بڑے لوگوں سے تعلقات تھے اس لیے ہر دوسرے دن بائی لائن اسٹوری دیتا تھا۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس کا سیکریٹری بھی رہا اور اب شاید جرنلزم چھوڑ چکا ہے۔
عمران احمد کے بڑے بھائی شعیب احمد کراچی کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے ورلڈکپ 1996 کے موقع پر پی ٹی وی پر ماسٹرمائنڈ کوئز جیتا۔ اتفاق سے میں اس ٹیم کا کپتان تھا۔ عمران بعد میں ایکسپریس نیوز چینل کا بیورو چیف بنا اور اب بھی کسی چینل کا بیورو سنبھالتا ہے۔
ریحان ہاشمی ایکسپریس کے کرائم رپورٹر تھے۔ وہ بھی روزانہ بائی لائن اسٹوری دیتے تھے۔ انھوں نے اتنی بائی لائن خبریں دیں کہ لوگوں نے انھیں ریحان ہاشمی کے بجائے رپورٹ ریحان ہاشمی کہنا شروع کردیا۔ وہ بھی کئی چینلوں کے کراچی کے بیورو چیف رہ چکے ہیں۔
عرفان اکرم بھائی سے میں پہلے سے واقف تھا کیونکہ وہ روزنامہ پبلک میں میرے اسپورٹس مضامین چھاپتے تھے۔ ایکسپریس میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد دبئی چلے گئے اور وہاں کسی سرمایہ کار کے ساتھ مل کر اخبار نکالا۔ اخبار بند ہونے کے بعد شاید پراپرٹی کا بزنس کرنے لگے۔
طفیل بھائی ہیلتھ کے نامور رپورٹر ہیں اور اکثر بہت اچھی خبریں دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اب بھی ایکسپریس سے وابستہ ہیں۔ اور شاکر سلطان بھی وہیں ہے۔ شاکر کا ایکسپریس سے پہلے صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایکسپریس میں وہ کورٹ رپورٹنگ کرتا تھا۔
قاضی آصف ایکسپریس کے دنوں میں کرائم رپورٹر تھے۔ بعد میں انھوں نے کئی میڈیا اداروں میں کام کیا اور موہن جو دڑو پر ایک کتاب لکھی۔ این جی اوز کے ساتھ مل کر صحافیوں کی تربیتی ورکشاپس کنڈکٹ کرتے رہے۔ تین سال پہلے حیدرآباد لٹریچر فیسٹول کے ایک سیشن میں ہم دونوں ایک ساتھ شریک ہوئے)
مانیٹرنگ ڈیسک: محمد سہیل، شرف عالم (بعد میں عارف عزیز پنہور، تصور حسنین، نسیم حیدر)
(سہیل صاحب لانڈھی میں رہتے تھے اور سلیم عامر صاحب کے جنگ کے زمانے کے دوست تھے۔ رات کو ڈھائی بجے اخبار چھپنے کے لیے چلا جاتا اور ہم وین میں جاکر بیٹھتے تو اکثر دیکھتے کہ دونوں سڑک پر کھڑے ہوئے باتیں کررہے ہیں۔ بعد میں ان دونوں نے جیونیوز جوائن کیا۔ سلیم عامر صاحب کسی اور ادارے میں چلے گئے جبکہ سہیل صاحب ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔
شرف عالم دبلا پتلا شریف بچہ تھا۔ کسی مشہور شاعر کا بیٹا۔ مجھے اب اس کے والد کا نام یاد نہیں آرہا۔ اس نے ایم اے میں گولڈ میڈل لیا اور بعد میں ایکسپریس چھوڑ کے کسی ایڈ ایجنسی میں چلا گیا۔
عارف عزیز پہنور میری ایکسپریس میں موجودگی کے دنوں میں اخبار جہاں چلے گئے تھے۔ جاوید رحمان صاحب کو خوش رکھنا مشکل تھا۔ انھوں نے بہانہ بنایا کہ میں گاؤں واپس جارہا ہوں اور کوئی دوسرا ادارہ جوائن کرلیا۔ پھر صوفی صاحب نے تین بندوں کو ایک ساتھ جیونیوز میں ملازم رکھوایا۔ مجھے، کامران منان کو اور عارف عزیز پنہور کو۔ ایک دن جاوید رحمان صاحب نے عارف صاحب کو دفتر آتے دیکھ لیا یا کسی نے انھیں بتادیا۔ جاوید صاحب نے انھیں نوکری سے نکلوادیا۔ دو مہینے گھر بیٹھے رہے۔ پھر جاوید صاحب نے فون کرکے بلایا اور اخبار جہاں میں ملازمت دے دی۔ پھر نکال دیا۔ پھر بلایا اور کار دے دی۔ پھر نکال دیا۔ پھر بلایا اور ایڈیٹر بنادیا۔ اب جاوید صاحب کا انتقال ہوچکا ہے اور عارف صاحب کسی اور ادارے میں کام کرتے ہیں۔
تصور حسنین میرے ماموں زاد بھائی ہیں۔ خوب پڑھائی کی۔ ایم کام کیا لیکن ملازمت نہ ملی۔ میں ایکسپریس میں لے گیا۔ قسمت نے یاوری کی اور امریکہ کی ویزا لاٹری میں ان کا نام نکل آیا۔ اب ہوسٹن میں رہتے ہیں اور اچھی ملازمت کرتے ہیں۔ اپنا گھر بنالیا ہے اور کئی میل لمبی گاڑی چلاتے ہیں۔
نسیم حیدر کا تعلق بھی میری طرح انچولی سے ہے۔ ایکسپریس سے پہلے پی اے ایف کالج میں پڑھاتا تھا اور دن اخبار میں کام کرتا تھا۔ میں نے نجمی صاحب سے اس کی ملاقات کروائی۔ اس کی زاہد مظہر اور ندیم رضا کے ساتھ ایسی گہری دوستی ہوئی کہ تینوں آج بھی ایک جان تین قالب ہیں۔ تینوں ایکسپریس سے جیونیوز ساتھ گئے۔ دبئی میں ایک شفٹ میں کام کرتے رہے اور ایک کمرے میں رہے۔ کراچی آکر یہ تگڑم ٹوٹی۔ نسیم حیدر اب بھی جیونیوز میں ہے اور انٹرنیشنل ڈیسک کا انچارج ہے۔
یہ سب قلم برداشتہ لکھا اور اسے لکھتے ہوئے خیال آیا کہ کبھی مشتاق یوسفی کی زرگزشت یا رضا عالی عابدی کی ریڈیو کے دن اور اخبار کی راتوں کی طرح اپنی ملازمتوں کے احوال کی کتاب لکھی تو یہ تحریر کام آئے گی۔ اگرچہ اس میں فقط لوگوں کے تعارف ہیں اور کوئی واقعہ نہیں لکھا۔
کبھی ایکسپریس کے دن یاد کرتا ہوں تو ذاکر نسیم صاحب کے ساتھ گزارا ہوا وقت یاد آتا ہے۔ میری ٹائپنگ اسپیڈ ہمیشہ سے تیز رہی ہے۔ نائٹ شفٹ میں بیس خبریں وہ بناتے تھے اور بیس میں بنادیتا تھا۔ دفتر کوئی اور نہ بھی آیا ہو تو ہم سارا کام نمٹادیتے تھے۔ اس کے بعد پیج میکنگ میں جتنا وقت صرف ہوتا، اس میں ہم شطرنج کی ایک بازی کھیلتے تھے۔
وہ تمباکوشی بہت کرتے تھے حالانکہ دمے کے مریض تھے۔ ان کا کی بورڈ ہمیشہ راکھ سے بھرا رہتا تھا۔ تمباکونوشی چھوڑنے کے بجائے وہ ایک دن دنیا چھوڑ گئے۔ اور اس دن کے بعد میں نے شطرنج کھیلنا چھوڑ دیا۔
میرا خیال ہے کہ ایکسپریس کا آغاز پاکستان کی تاریخ کی بہترین میڈیا ٹیم نے کیا۔ اگر یہ سب سے بہتر نہیں تو چند بہترین ٹیموں میں سے ایک تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر