میں جب پیدا ہوا تو ہو سکتا ھے میرے منہ میں سونے کا چمچہ ہو اور وہ میری دائی نے چھپا لیا ہو مگر سونے کا وہ چمچہ ابھی تک غائب ھے۔ میری دائی ہر سال میری ماں کے پاس پانچ ہار لے کر آتی تھی جو موبائینڑ پنڈ یاکھجور ۔ کھوپڑا یا گری کے ٹکڑے اور بڑی کشمش جسے ہم اندراخ کہتے ہیں کے پروے ہوتے تھے۔ ماں اس کو بٹھاتی ۔
سارا دن اس کی چاۓ کھانے سے خدمت کرتی اور دائی کو ایک بڑی رقم دے کر عزت سے رخصت کرتی۔ ہم بے صبرے بچے اس تاڑ میں رھتے کہ ہار کہاں رکھے ہیں اور چوہوں کی طرح آہستہ آہستہ اپنا کام جاری رکھتے۔ صندوقوں کو تالے تو لگتے نہیں تھے بس ہماری ذھانت اور ماں کی ہنر مندی کا مقابلہ ہوتا جس میں ہماری ذھانت ہمیشہ جیت جاتی۔
بہت بعد میں پتہ چلا کہ ماں در اصل ہار ہم سے چھپا کے نہیں رکھتی تھی یوں ہی کُڑی مُچی ہمارے ذھن کو ایک پزل حل کرنے کو دیتی تھی اور دل ہی دل میں خوش ہوتی تھی۔ جب تک دائی زندہ تھی یہ سلسلہ جاری رہا پھر ختم ہو گیا۔اس زمانے کے حالات کے مطابق ۔۔شاہ حسین کا گھٹا۔سردا بخش کا ککڑ۔دودھ کی مشک۔گھوگھے ۔کھیرنی کی پھیلیاں کی خیرات سب کچھ ہوتا رہا۔چیت یا بہار کے موسم میں موتیا کے ہار لے کر آنے والے رقم وصول کرتے۔
ایک عورت نیم اور موتیا کا بڑا سھرا بنا کر لاتی اور ہمارے کمرے کے دروازے پر لٹکا دیتی وہ بھی روپے لے جاتی۔ ۔ڈھول والے شرنا پر چام کلی راگ سنا کر اپنا رزق جمع کرتے۔ہیجڑے بھی بستی استرانہ میں آباد تھے وہ ہر بچے کی پیدائش پر اپنا حصہ وصول کرتے۔دم درود ۔نظر بد سے بچنے کے تعویز دینے والے علیحدہ تھے۔مولی صاحب نو مولود بچے کے کان میں اذان دیتا اور گڑ کی پلیٹ اور ایک روپیہ نقد پاتا۔رات کو ایک روٹی جسے وظیفہ کہتے مولوی کاحق تھا اس کے علاوہ گندم کی فصل اٹھاتے وقت پانچ پڑوپی دانے۔بڑی عید پر قربانی کی کھال اس کو ملتی۔۔
میری نانی کو شوق تھا کہ میرے بال گھنگھریالے ہوں۔ جب پہلی جَھنڈ اتری یعنی میں گنجا ہوا تو نانی نے کُوندر جلا کر کچھ فارمولا میرے سر پر لگا دیا۔
وہ دن اور آج کا دن میرے بال ایسے گھنگھریالے ہوۓ کہ استری سے سیدھے نہیں ہوتے۔نانی مجھے نہلا دھلا کر کپڑے پہناتی تو ماتھے یا گال پر کاجل کا ٹیکہchicken feet بنا دیتی تاکہ مجھے نظر نہ لگے پھر بھی تعویز پہناتی دم کرواتی اور توے پر پھٹکڑی کا بت بنا کر اس کا کو ئی حساب کرتی۔یہ میری نانی ہی تھی جو ہر جمعرات کو مجھے ساتھ لے کر شاہ سید منور۔شاہ عبدالطیف۔اور مسگراں بازار شھیدوں کی قبروں پر پہنچ جاتی اور وہاں چراغ جلا کر کچھ رقم خیرات کرتی۔
آج کل میں اپنے پوتوں کو جو کینیڈا میں تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ کہانیاں سناتا ہوں تو وہ حیران ہو کے ہسنے لگتے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں ایسے لوگ کہاں چلے گیے؟ ان پیار کی رسموں کا کیا بنا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر