سائیں رفعت عباس سے سوال:۔ آپ نے مقامیت کی بات کی ، آپ کے نزدیک قوم کا کیا مفہوم ہے ؟
جواب :- قوم مقامیت کا پھل پھول ہے
قوم دوسری قوم کی ہمسایہ ہے
اپنی اجتماعی گھبراہٹ سے باہر نکلنے کا نام قوم ہے۔ یہی وہ مکاں ہے جہاں زماں جڑتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے ایک قوم اپنے اونٹ یا کشتی پہ دوسری قوم کو ملنے یا تجارت کے لئے نکلتی ہے۔ جب اونٹوں کی جگہ گھوڑے اپنے تلوار بکف سواروں کےساتھ آگے بڑھیں یا کشتی کی جگہ تجارتی سامان کے پیچھے بندوق یا توپ لاد کر مسلح جتھوں کے ساتھ دخانی جہاز چلیں تو استعمار جنم لیتا ہے۔ یہی وہ بات جو بیشتر مغربی ناول نگاروں اور شاعروں کو سمجھ نہیں آئ۔ ان کے ساتھ ایک احساس جرم ہے جو چھپائے نہیں چھپتا – ان کے ہاں اپنی اساطیر میں ازلی گناہ کا احساس ابھرتا ہے لیکن ژاں پال سارتر کی ” متلی،، یا البرٹ کامیوکا”اجنبی،، بن جاتا ہے۔
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے بنجر پن کی بکل میں پہلی جنگ عظیم کی بربادی کے علاوہ کوئی، اور بھی چور ہے۔ وہ چور ایسی اقوام کا احساس جرم ہے جو انہوں نے استعمار کی شکل میں دنیا بھر کے مقامیوں پر روا رکھا۔ ایسی اقوام کو تحلیل نفسی کی ضرورت ہے جو انہیں استعمار زدہ قومیں مہیا کر سکتی ہیں۔
ان سامراجی اور استعماری اقوام کا گناہ آدم کے دانہ گندم کھا نے سے بڑھ کر ہے۔ انہیں نئے سرے سے اعتراف گناہ کی ضرورت ہے۔ لندن اور پیرس کی تعمیر کے پیچھے کرہ ارض کے قدیم اور عظیم شہروں کی بربادی شامل ہے۔ وہ تمام دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں کہ انہیں کسی بھی عالمی عدالت میں گھسیٹا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ایک نئے مکالمے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم معاف کر سکتے ہیں کہ آو زندگی کے نئے معنی متعین کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب