وقت کے ساتھ ساتھ سیاستدان یہ سیکھ جاتے ہیں کہ کیسے مشکل سوال یا کمنٹ پر بھی مسکراتے رہنا ہے۔ یہ جمہوریت کی خوبیوں میں سے ایک ہے کہ آپ ہر ایک کو جوابدہ ہوتے ہیں‘ لہٰذا تلخ سوالات کا سامنا کرتے کرتے آپ صبروتحمل سیکھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ عوام سے ووٹ لینا ہے تو پھر عوام سے عزت سے بھی پیش آنا پڑتا ہے؛ اگرچہ آج کل یہ رواج ختم ہوگیا ہے اور اب جو وزیر یا سیاستدان سب سے زیادہ کھلا ڈلا بول سکے‘ وہی اعلیٰ عہدوں اور ٹی وی چینلز کے شوز میں پر بیٹھنے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
ابھی ایک نئے وزیر کی جب وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تو انہیں یہی کہا گیا کہ میڈیا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے اور اگر ڈر گئے تو آپ کی خیر نہیں۔
وزیراعظم کے ایک اور سپیشل اسسٹنٹ نے بھی ترجمانوں کی محفل میں یہی شکایت کہ فلاں فلاں ترجمان یا وزیر ٹی وی چینلز پر پوزیشن نہیں لیتے۔ پوزیشن نہ لینے سے ان کی مراد ہے کہ وہ کھل کر مخالفوں پر زبانی کلامی حملہ آور نہیں ہوتے اور مہذب انداز میں بات کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ چینلز نے ہمیں بڑی حد تک بے صبرا کر دیا ہے۔
واہ واہ کے چکر میں ہماری زبانیں بگڑ گئی ہیں اور لہجے بھی۔ رہی سہی کسر پچھلے چند سالوں میں پوری ہوگئی اور اب ‘فری فار آل‘ ہے۔ جو بندہ ٹی وی پر بے ہنگم گفتگو نہیں کرسکتا وہ اب پروگرام میں شریک نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اسے پارٹی ٹی وی پر شو میں بھیجے گی۔ عوام نے شروع میں ان سیاسی مرغوں کی لڑائی کوخوب انجوائے کیا۔
خبریں غائب اور ٹی وی شوز کا موضوع صرف سیاست‘ سیاسی مرغے اور ان کے پارٹی لیڈرز ہی رہ گئے جن کی شان میں وہ ہر وقت قیصدے پڑھتے رہتے ہیں۔ دو تین پارٹیوں کے لوگوں کو شو میں بٹھا لیا اور پھر چاند ماری شروع۔اگلے روز پھر وہیں سے کام شروع۔ نہ اینکرز تھکتے ہیں‘ نہ سیاسی مرغے اور نہ ہی عوام۔چینلز نے ایک نیا ٹرینڈ دیا۔ جو بھی پارٹی کا ایم این اے یا کوئی اور بندہ شو میں شریک ہوتا ہے تو وہ ہر دوسرے فقرے میں اپنے پارٹی سربراہ کا نام لینا اور اس کی قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتا۔
یہ کام مہارت ساتھ ایم کیو ایم نے شروع کیا کہ ہر بات میں قائد کی عظمت اور قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر ہوتا کہ انہوں نے یہ فرمایا اور وہ فرمایا۔ اس سے پہلے مشرف دور میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا نام اور خراج تحسین ہر وزیر کی زبان پر ہوتا تھا۔ زرداری کے جیالوں نے روایت آگے بڑھائی۔
اب بھلا نواز شریف کے وزیر اور پارٹی لیڈران کیسے چپ رہتے۔ وہ ان کے نام کی مالا جپنے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب نے اس بات پر ان سیاستدانوں کا مذاق بھی اڑایا تھا کہ یہ سب ذہنی طور پر اتنے غلام ہیں کہ ہر بات میں یہ الطاف حسین‘ زرداری اور شریفوں کا نام پہلے لیتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان سب سیاسی بونوں نے خوشامد کی حد کر دی ہے اور یہ سب ان سیاسی پارٹیوں کے گھریلو ملازم بن گئے ہیں‘ جن کا کام ہر وقت ان کی تعریفیں اور خوشامد کرنا ہے۔ خان صاحب کہتے تھے کہ پارٹی کے ایم این ایز اور وزیروں کا کام اپنے لیڈروں کی خوشامدیں کرنا نہیں بلکہ ان کو راہ راستہ پر رکھنا‘ اور ان کے ہر غلط کام کو ایکسپوز کرنا ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر