میں ایک دن اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے گرل کیمپس میں لیکچر دے رہا تھا کہ سوال جواب کے سیشن میں ڈسکشن شروع ہو گئی ۔۔
حقیقی خوشی کیا ھے اور یہ کیسے حاصل کی جا سکتی ھے؟ اسلامی یونیورسٹی میں لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ کیمپس ہیں اور اس میں سارے مسلمان ملکوں سے طلباء و طالبات داخلہ لیتے ہیں۔کلاسوں کی تعداد کافی بڑی ہوتی ھے اور کبھی کبھی ایک پیریڈ تین تین گھنٹے کا بھی ہوتا ھے۔
اس لیے لیکچر۔سوال جواب۔ڈسکشن۔پریزینٹیشن ۔سب ایک پیریڈ میں سیمینار کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس ڈسکشن میں دولت۔کاریں۔بنگلے۔عہدے۔ڈگریاں۔سب باتوں پر بحث ہو رہی تھی۔
اسٹوڈنٹس کو پتہ تھا کہ میں گاوں کی جھونپڑیوں سے لے کر محلات تک رہنے کا تجربہ رکھتا ہوں تو آخر میں مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔
میں ہمیشہ خوشی کے بنیادی اجزا میں قدرتی ماحول۔اتفاق و محبت۔پرخلوص دوست و فیملی اور مصنوعی زندگی کی بجاے حقیقت پسندانہ رویوں کو ٹاپ پر رکھتا ہوں۔ لیکن جو بچے اسلام آباد یا کسی بڑے شھر میں پل کر جوان ہوۓ ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آتی تھی۔
بہت سی طالبات ایسی تھیں جب وہ صبح یونیورسٹی بس کے لیے نکلتیں تو انکے گھر والے سو رہے ہوتے تھے۔وہ بس سے اتر کر سیدھا کینٹین جاتیں اور ناشتہ کرتیں ۔ ان کے مقابلے میں ہماری مائیں بہت سویرے بیدار ہوتیں۔تہجد ۔نماز کے بعد ہمیں مسجد نماز کے لیے بھیجتیں۔
قران کی تلاوت کے بعد چکی پر آٹا پیس کے تازہ مکھن کے ساتھ مسجد سے واپسی پر ہمارا ناشتہ تیار ہوتا۔ خیر مجھے یہ ساری باتیں اس لیے یاد آئیں کہ آج میں دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی ہاورڈ کی ایک ریسرچ رپورٹ پڑھ رہا تھا جو اسی موضوع پر تھی۔یہ رپورٹ 1938ء سے شروع ہوئی اور 80 سال میں 34 لاکھ لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا۔اس تحقیق کا نچوڑ یہ نکلا کہ آپکی خوشگوار زندگی کا انحصار نہ دولت ھے نہ عہدے بلکہ
The quality of your relationship
ہے۔ یعنی آپکے اپنے خاندان۔پڑوسیوں ۔گاوں یا شھر والوں ۔دوستوں۔کولیگز۔اردگرد کے سماج کے لوگوں سے جتنے بہتر پر خلوص تعلقات ہونگے اتنے زیادہ آپ خوش ہونگے۔
اکیلے پن سے دور رہیں یہ زندگی اور خوشی کا دشمن ھے۔ یاد رکھیں اس معاملے میں فیس بک فرینڈز کا کوئی رول نہیں ھے یہ ایک ڈھونگ ھے جس میں صبح سویرے مصنوعی پھولوں کے گلدستوں کی تصویریں بھیج کر گڈ مارننگ کی جاتی ھے۔نہ ان پھولوں میں کوئی خوشبو ھے نہ اس کا کوئی فاعدہ۔ کوئی لڑکی ایک بیکری کےکیک کی تصویر لگا کے کہتی ھے میں نے بنایا ھے اس پر ایک ھزار کمنٹس اس بات کے ہوتے ہیں کہ بڑا Tasty ھے گویا انہوں نے کھایا ھے ۔ یار انٹرنیٹ پر ہر آدمی کی تعلیم کے لیے وڈیو موجود ہیں ۔کورس کراے جارہے ہیں۔سرٹیفکیٹ مل رہے ہیں۔ ملازمتیں کی جا رہی ہیں۔
ہماری قوم ہر برائی کو اپنانے میں پہل کرتی ہے لیکن کسی مثبت چیز سے فاعدہ نہیں اٹھا سکتی۔ شادیوں پر کلاشنکوف کی فائیرنگ۔پٹاخے۔لاوڈسپیکر کا شور وغُل ۔سڑکوں پر گند پھینکنا۔سگریٹ۔نشہ سب کر لے گی لیکن اگر اللہ تعالے سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس سے فاعدہ نہیں اٹھا سکتی۔آپس کی لڑاییوں کا یہ حال کہ شام کو TV پر تیسری جنگ عظیم کا منظر سامنے ہوتا ھے ۔ آج کل ڈالر مہنگا ہوا تو میڈیا تجزیہ نگار بتا رہے ہیں کہ یہ دو سو تک پہنچے گا مطلب یہ ھے کہ دکاندار بلیک مارکیٹنگ کر لیں ذخیرہ اندوزی کر لیں ڈالر خرید لیں اس طرح ملک اور غریب کا بیڑہ غرق کر دیں۔ ڈالر کو مہنگا بھی ارب پتی کرپٹ مافیا نے کیا کیونکہ پاکستان نے IMF کے قرض کی قسط دینی تھی اس لیے مارکیٹ سے ڈالر اٹھا لیے تاکہ موجودہ حکومت کی سبکی ہو اور پاکستان مشکلات میں گھر جاے۔
ملک مہنگائی۔دھشت گردی۔غربت میں ڈوب رہا ھےلیکن الزام تراشیاں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں ۔ سوچو ۔۔کہ یہ زمانے میں پنپنے کی باتیں ہیں ؟ اللہ کے بندو ہمارے پاس دنیا کے مسخر کرنے کے تمام فارمولے قران میں موجود ہیں۔فرقہ بندی نہ کرو۔آپس میں مل جلکر بھائی بن کے رہو۔ کاروبار ایمانداری سے کرو۔ملاوٹ نہ کرو جھوٹ نہ بولو۔
اس وقت تک فلاح نہیں پا سکتے جب تک دوسروں پر خرچ نہ کرو گے۔ آج کرونا وائرس کے لاک ڈاون کی وجہ سے کتنے بچے عید منانے سے قاصر ہیں ؟ ان کی دلجوئی کے لیے نکلو اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کرو بس خوشی حاصل کرنے کا یہی ایک طریقہ ھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر