دیہات اور غربت کی زندگی کی اپنی ۔۔چَس۔۔ یعنی لذت ھے ۔ہمارے پاس بڑی بڑی رقمیں تو تھی نہیں کہ کھلونوں ۔گاڑیوں کا سوچتے بس اتنے پیسے تھے جس میں گزارا ہو جاتا۔ اصل میں انسان خود نہیں مرتا اس کی سوچیں اور خواہشات اسے مار دیتی ہیں۔گاوں میں ٹوٹل دو تین بندوں کے پاس سایکل تھے جس میں ایک میرے بابا کا ریلے سائیکل اور دو اور بندوں کے ہرکولیس سائیکل تھے یہ شاید انگلینڈ کے بنے ہوے تھے۔ میں ابھی بمشکل سائیکل چلانے کے قابل ہوا تو بابا نے قینچی سے سایکل چلانا سکھا دیا۔
قینچی کا مطلب ھے میں گدی پر تو نہیں بیٹھ سکتا کہ پاوں پیڈل تک نہیں پہنچ سکتے البتہ سائیکل کے تین ڈنڈوں کی تکون کے اندر سے کراس کر کے ٹانگیں دونوں پیڈل پر پہنچ جاتی ہیں۔ گاوں کے کچے راستے تھے ٹریفک کا نام و نشان نہیں تھا بس ہم ہی ہم ویران روڈ پر ایسے سایکل چلاتے جیسے شھباز شریف کے لیے ٹریفک روٹ لگ جاتا تھا۔ ایک دفعہ میں فارن آفس اسلام آباد سے باھر نکل کر فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ وزیراعظم کا کانواے گزرنے لگا ۔
ٹریفک بند ہو گئی اور میں وہیں رک گیا۔ اچانک پولیس والے نے مجھ پر بندوق تان لی کہ میں اباوٹ ٹرن کر کے سڑک کی دوسری طرف دیکھوں اور کانواے کی طرف نہ دیکھوں۔میں گولی کے ڈر سے پیچھے منہ کر کے کھڑا تھا اور دل سے پولیس اور حکمرانوں کو۔۔۔دعائیں۔۔۔ کڈ رہا تھا کہ یہاں کا شھری کتنا بے عزت زندگی گزارتا ھے۔ حالانکہ اس سے ایک ہفتہ پہلے میں روم اٹلی گیا تھا اور اٹلی کے وزیراعظم ہاوس کے سامنے لوگ گھوم رھے تھے خود وزیراعظم صاحب بھی باہر ٹہلنے آ گیے۔
میں اس رہائش گاہ میں اندر بھی ایسے گیا جیسے ڈاکخانے جاتے ہیں۔معمولی ریسیپشن پر پتہ لکھوانا تھا۔ خیر بات میری سایکل سیکھنے سے دور چلی گئی۔ پھر مجھے گدی پر بیٹھ کا سائیکل چلانا آ گیا کیونکہ لاھور کے مسلم لیگ ہائی سکول جہاں میں پڑھتا تھا وہاں سائیکل پر ہی جاتا تھا اور اسی وجہ سے میرے باپ کو سائیکل سکھانے کی جلدی بھی تھی۔ گاوں چھٹیوں کے دنوں میں ۔۔تُو چھٹی لے کے آ جا بالما۔
کی طرح آنا پڑتا تھا۔ ایک روز گاوں کے کچے راستے پر سائیکل پر جا رہا تھا کہ کپڑے بیچنے والی ماسی نے مجھے دیکھتے ہی روک لیا۔سخت گرمی میں پسینے سے شرابور ۔شٹل کاک برقعہ۔ سر پر بیچنے والے کپڑوں کی پنڈ یعنی گٹھڑی۔ مجھے کہنے لگی میں اُن کو بستر بند پر بٹھا کر لے جاوں۔ اب گاوں کی تمام ماسیاں میری ماں کی طرح تھیں انکار تو ناممکن تھا۔ میں ان ماسیوں کے کمروں سے دودھ ۔لسی خود اپنے مگے میں ڈال کے چلتا بنتا کبھی کسی ماسی نے روکا تک نہیں۔ مگر میرا سائیکل پر کنٹرول بہت کمزور تھا۔
راستہ کچا اور کلر کی وجہ سے سلپری بھی تھا۔ خیر انکار کا تو یارا نہ تھا ماسی کو بٹھایا اور سایکل کھینچنے لگا ۔دو چار گام جاکر ہینڈل سلپ ہوا اور سایکل دائیں طرف ایسی گری کہ ۔۔ماسی دی کَنڈ بمع پَنڈ نہر اچ ونج لگی۔۔ شکر ھے نہر خشک تھی۔وہ بڑی مشکل سے اٹھی میں بھی کھڑا ہوا ۔ ماسی نے اپنی ہڈی پسلی کا جائیزہ لیا خدا کا شکر ھے سب سلامت تھا۔
اس نے گٹھڑی سر پر رکھی اور یہ کہ کر چل پڑی کہ۔۔تیکوں سایکل چلاونڑ دی ڈا نیں آندی۔۔مطلب مجھے سایکل چلانا نہیں آتا۔ یہ میری سایکل چلانے کا پہلا ایکسیڈنٹ تھا جس کے نتیجے میں ماسی کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ میں سایکل چلانے میں اناڑی ہوں۔ گرمیوں کی چھٹیاں ھوتیں تو گاوں میں ۔۔کُڑنگ ۔۔مرغیاں ڈھونڈتا اور انہیں انڈے سینے کے لئےبٹھا دیتا جب چوزے نکلنے کے قریب ہوتے تو بار بار جا کر دیکھتا حالانکہ ماں منع بھی کرتی ۔
پھر جب چوزے نکل آتے تو میرا خوشی سے دل باغ باغ ھو جاتا ۔چھوٹے چوزوں کو ہاتھ میں پکڑ کر بڑی تمانت محسوس ہوتی اگرچہ مرغی کے ٹھونگے بھی کھاتا۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ مرغی کے یہ بچے میرے آلسیشن ڈاگ سے بھی فری ھو جاتے اور ڈاگ کے اوپر بیٹھے رھتے۔
سردیوں کی چھٹیوں میں بکری یا بھیڑ کے دو چھوٹے بچے اپنے پاس رکھتا۔یہ بچے میرے ساتھ باہر خود پیچھے پیچھے چلتے اور رات کو کوئیلوں کی انگیٹھی کے قریب میرے دائیں بائیں پہلو پر سر رکھ کر سو جاتے۔ پھر انہیں وہیں چھوڑ کر میں اپنے کمرے چلا جاتا۔
جانوروں کی انسان سے محبت کا جذبہ صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ان کے قریب رہیں۔یہی وجہ ھے کہ میں پرندوں اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کوشش کرتا ہوں۔گھر میں جنگلی پرندوں کے بکس نصب کر رکھے ہیں جہاں وہ بریڈنگ کرتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ