میرے پاس تم ہو کے” دانش” اور ” ارتغرل غازی”
ان فرضی کرداروں سے نوجوان نسل کو نہ روزگار ملے گا نہ پاکستان کی معیشت کو استحکام ملے گا
کچھ ایسا دکھائیں کہ نوجوان دنیا میں پاکستان کا نام روشن کریں آج کے دور میں بھی ہم پچاس سال پیچھے دیکھ رہے ہیں اور دنیا سو سال آگے کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے
ہماری تاریخ میں کوئی ایسا مسلم حکمران دکھا دیں کہ جس نے تلوار کی بجائے قلم ظلم کی بجائے محبت سے عوامی حمایت حاصل کی ہو۔ سرسید احمد خان کی شخصیت کو ہم نے کچھ کتابوں میں گم کر دیا ہے ہمیں انگریزوں نے کالجز، ہسپتال اور ریلوے جیسے سفری سہولیات فراہم کی کتنے مسلم حکمران ہیں جنہوں نے معیشت اور ثقافت پر توجہ دی تھی برصغیر میں ہم نے میر جعفر اور میر صادق کے کرداروں کو تو بہت برا بھلا کہا ہے کبھی اکبر بادشاہ اور اس دور کے حکمرانوں کے کرتوت بھی دیکھے ہیں
انگریزوں کی برصغیر پر حکومت کا طریقہ کار یہی تھا کہ انہوں نے چند جاگیر داروں کو اپنا ہم نوا بنایا ہوا تھا اور ان کے ذریعے حکومتیں کرتے رہے ہیں آج بھی تو ایسی صورت ہے پٹواری، نمبردار اور علاقے کا تھانہ دار ہی انگریزوں کی حکومت کے اہم ستون تھے آج بھی یہی اشرافیہ ہمارے اوپر مسلط ہے کنجری کھوہ، کراڑی کھوہ اور چڑہویی والا مربعہ وغیرہ ایسے نشانات آج بھی جاگیرداروں کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں
اگر ہم پاکستان بننے سے کر آج تک دیکھیں تو سیاستدانوں نے سوائے ہسپتالوں کے نام اپنے نام پر لکھنے کے اورکچھ نہیں کیا ہے ہماری آج بھی وردی والے ہی آئیڈیل حکمران رہے ہیں جمہوری نظام کو ہر سطح پر بدنام کیا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ بلدیاتی نظام جو کہ جمہوریت کا سب سے نیچلے درجے سے شروع ہوتا ہے وہ صرف ڈکٹیٹروں نے چلایا جہاں سے سیاسی قیادت کو اوپر آنے کا موقع ملتا ہے لیکن وہ بھی ڈکٹیٹرشپ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور موجودہ حکومت میں عمران خان نے بھی لوکل گورنمنٹ کے نظام کو عملی طور پر نافد نہیں کیا۔
پچھلے تین ادوار میں تمام سیاسی قیادت نے پہلے دو تین سال پچھلی حکومتوں پر تنز کے تیر چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا پھر کچھ کام شروع کرتے ہیں کہ آخری سال میں سیاسی مہم میں پھر ایک دوسرے کو گالی گلوج تک دکھتے ہیں کسی کو گالی دینے سے ترقی کبھی نہیں ہوتی۔
آج ملک میں تعلیمی ادارے بجٹ میں تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں صحت کا شعبہ کرونا وائرس کے دوران بے نقاب ہو چکا ہے ہماری ابادی 2030 میں 50 فیصد تک بڑھ جائے گی مستقبل میں صحت و تعلیم کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں ہو رہی اس آنے والے طوفان کو کیسے کنٹرول کرنا ہے کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے
ابھی بھی وقت ہے ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے مستقبلِ قریب میں پاکستان کو پیش آنے والی مشکلات پر توجہ دیں اور ان کے بہتر حل پر فوکس کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرے گی
آج بھی تو ایسی صورت ہے پٹواری، نمبردار اور علاقے کا تھانہ دار ہی انگریزوں کی حکومت کے اہم ستون تھے آج بھی یہی اشرافیہ ہمارے اوپر مسلط ہے
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی