دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پُرالی، پَدمانین اور پروفیسر۔۔۔ رانا محبوب اختر

شب بسری کو حیدر آباد ٹھہرا۔دہن میں پلہ مچھلی کے رکھے ذائقے یاد آئے کہ پلہ دستیاب نہ تھی ۔ڈھاکہ میں ہرسہ مچھلی پکانے والی پدمانین کے ہاتھ کا ذائقہ اور آنکھ کا جادو یاد آیا۔

اڈیرو لال کی درگاہ سے باہر آیا تو دامن میں سوالوں کے کانٹے اور گلاب تھے ، اگر بتی کی خوشبو میرے سر پر سوار تھی۔دروازے کے باہر ایک مسافر خانے میں لنگر چلتا تھا۔ گندم کی تازہ روٹی کی باس آتی تھی! پرشاد کا انتظام کرنے والے جھولے لال کے ٹھاکر اور سیوک ہیں۔سامنے کمرے میں بیٹھے دو نوجوان فون کرتے تھے۔وہ فون سے فارغ ہوئے تو یاتری نے درگاہ، لنگر، جھولے لال ، دریا اورشِو جی کے بارے میں سوالوں کے کانٹے اور گلاب ان کی طرف اچھال دئیے ۔وہ بات کرنے سے ڈرتے تھے۔ کہ مندر اور درگاہ کے بارے میں ہندو اور مسلمانوں کے جھگڑے کی اک تلخ تاریخ ہے۔ انھیں بتایا کہ ملتان سے آیا ہوں تو وہ دلبری کرنے لگے۔ملتان کے نام سے مسافر کے کام نکلتے ہیں!ان میں سے ایک نوجوان مجھے مہمان خانہ دکھانے لے گیا۔ مناسب سے کمروں میں بیٹھے لوگ پرساد کھاتے تھے۔ان کے چہروں پہ غربت کی جھریاں تھیں۔جھریوں میں چھپی آنکھیں مگر امید سے پھٹی پڑتی تھیں۔وہ زیارت کو آئے تھے-زیارت کی عادت انسان کی فطرت_ ثانیہ ہے۔یوروشلم، مکہ، ہری دوار، ویٹی کن، بنارس، قم، ملتان اور سیہون، بھانت بھانت کے لوگوں کے لئے عقیدے اور عقیدت کے مراکز ہیں۔ ایک برکت اور اسرار ان جگہوں میں ہے کہ لوگ طواف کو بے چین رہتے ہیں ! سرائے کے ایک کمرے کا دروازہ بند تھا۔اسے کھولا تو وہاں شِو کا حجری نشان ایستادہ تھا، کسرِنفسی عریاں اور عیاں تھی۔(ایک سانپ کا خیال آیا جس کے بہکاوے میں آدم و حوا آئے تھے) ایک عورت تخلیق کی نشانی پہ ”گڈوی ”سے دودھ ڈالتی تھی۔کمرہ تنگ تھا، مسافر جلدی سے باہر آگیا! شِوسندھو کی طرح زرخیزی اور تباہی کی علامت ہے۔پانی زمین کا پہلا بیٹا تھا۔ سندھو کے اسطور فطرت کے مظاہر کو زندگی کی نمو سے جوڑتے ہیں۔ ہندو صنمیات میں تیتیس کروڑ دیوتا اور دیویوں کی مالا قدیم مقامی آدمی کی بے بسی کے ساتھ اس کے زرخیز ذہن کی دلیل بے کہ وہ ذہن کی بے شمار جہتوں سے واقف تھا۔بے شماری سے بے قراری اور بے عملی کو دوام ہے اس لئے argumentativ Indian فضول کے یدھ لڑتا ہے۔ جھگڑا کرتا ہے، کج بحث ہے۔ایسے آدمی کو وحدت الوجود کی ویکسین اسماعیلی پیر ، صوفی اور جھولے لال تیار لگاتے تھے!
زمین کے جنم بھومی ہونے سے پہلے سندھو اور گنگا ،کیلاش کے پہاڑ سے میدانوں میں زندگی کے لئے پانی لے کر اترے تھے! کیلاش کو ہندو مائتھالوجی میں وہ تقدس حاصل ہیجویہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ہاں یوروشلم کو ہے۔کیلاش کیشمال میں مانسروور
(Manasarovar) جھیل ہے۔ سنسکرت میں مانا ، من کی دنیا ہے اور سروور کا مطلب جھیل ہے۔یہ سندھو اور گنگا کی پیدائش کا مقام ہے۔گنگا پہلے آسمان پہ بہتی تھی پھر برہما نے پانی کو زمین پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔یہ جو کہکشاں ہے اس کے تاروں کی روشنی آسمان پر باقی گنگا کے پانیوں میں سے جھلکتی ہے۔ جل اور جیوتی آسمان پر بھی ساتھ ہیں!گنگا کی طاقت ایسی تھی کہ کرہ ارض کے ڈوب جانے کا خطرہ تھا۔ برہما کی مرضی سے شِو نے گنگا کے پانی کو اپنی زلفوں میں گرفتار کر لیا۔ دنیا کی تاریخ میں یہ زلفوں کی پہلی واردات تھی! پھر دھیرے دھیرے شِو نے کاکلوں کے بل کھولے، گنگا بہنے لگی ۔پانی زلفوں سے بل کھانا سیکھا ہے! نجیب الطرفین محقق اور مصنف، پروفیسر اسد اریب کا سنایا استاد ذوق کا اک شعر یاد آیا:
خط بڑھا، کاکل بڑھے، زلفیں بڑھیں، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
سندھ وادی میں قدم قدم جہانِ حیرت ہے کہ بر صغیر کی کہانی سندھو سے ہندو ہوئی ہے۔تہذیب نے جنوب سے شمال کو سفر کیا ہے۔ہندوستان کی پرانی تہذیبوں کے مراکز ٹھٹھہ، موہنجوڈارو، ملتان، ہڑپہ، ٹیکسلا، پشکلاوتی یا پشاور تھے۔ انڈس ویلی، لال اینٹ اور رنگین ظروف کی اولین گلوبل شہری( urban) تہذیب تھی۔گجرات سے کشمیر تک کوئی ایک ہزار شہر تھے۔سندھو کنارے آباد یہ شہر ایک روایت کے مطابق سندھو اور اس کے معاون دریاوں کی آوارگی سے برباد ہوئے۔شاید اسی لئے سندھوکو سندھی زبان میں ” پُرالی” کہا جاتا ہے۔یہ عجب ہے کہ سندھ وادی کی تہذیب شہری تھی اور اس کے بعد آنے والی رگ وید تہذیب دیہاتی تھی۔سندھ وادی سیکولر اور جمہوری تھی۔سندھ وادی میں مزار، ویہار، درگاہ اور تیرتھ، مسجد اور مندر سے الگ شناخت رکھتے ہیں ۔جھولے لال اور شہباز قلندر کی درگاہوں پہ ہندو مسلم سبھی جاتے ہیں اور شہباز قلندر کے دھمالی موالی اور ملنگ شِو کے پرانے متوالے ہیں!
شیخ طاہر اور جھولے لال کو سلام کر کے ، تشنہ کام مسافر اڈیرو لال سے روانہ ہوا تو شام راکھ ملے سڑک پہ بیٹھنے کو اتر رہی تھی اور یاتری کی گاڑی کے ساتھ اڈیرو لال کا جھولا چلتا تھا۔راستہ روشن تھا!تخیل نے ذہن کے افق پر شعرمارا:
ایک زنبیلِ طلسمات ہے اسبابِ سفر میں
ایک پیمانہ ہے مجھ پاس جو بھرتا ہی نہیں ہے
سندھ وادی میں چھوٹی بڑی درگاہوں کے ساتھ دیومالائی قصے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہانیاں عام طور پر زبانی ہیں، لوک یادداشت کا حصہ ہیں۔اسلام کی آمد سے پہلے یوگی، بیراگی ، سادھو، بدھ ، جین بھکشو،نقال، فنکار، گویے، اور شاعر عوامی زبانی روایت کے امین تھے کہ ہر زمانے میں سلطانوں کے کاتبین کی لکھی تاریخ کے مقابلے میں عوامی تاریخ کا معتبر حوالہ شعر رہا ہے! یوں سندھ وادی کا bardic period جو ویدک عہد سے ماڈرن زمانے تک سندھو کے کنارے پھیلا ہوا ہے، چشم کشا ہے۔تفصیل پھر سہی! سندھ دریا ان قصوں کا مرکزی کردار ہے۔کہانیوں کی مالا میں سندھو کا دھاگہ ہے۔ کہ دریا اور زمین، آدمی اور عورت کی طرح ملتے ہیں،دونوں کے وصل سے زندگی آگے چلتی ہے!
اسماعیلی پیر داعی بن کر دسویں صدی میں سندھ وادی آئے۔المقدسی (990 عیسوی)کی گواہی ہے۔ذہین اسماعیلی داعی مقامیت اور مسلم تصورات کو ملا کر دو آتشہ کرنے کا فن جانتے تھے۔ان کا ستم شوم سندرم ، حیدریم قلندرم مستم تھا اور صراطِ مستقیم، ست پنتھ ہوا ۔ وہ دریا کے لال کلٹ کو خواجہ خضر سے سبز کرتے تھے۔ کلچر بھی خواجہ خضر ہے۔ چولا بدل کر ہر زمانے میں زندہ رہتا ہے۔سکندر کی طرح بہکاوے میں نہیں آتا ،اس لئے زندہ ہے۔بدیسی سکندر کو ملتان کے ملہی نے مار دیا، مقامی کلچر زندہ ہے۔صدیوں کے سفر میں ثقافت کا بتِ طناز ہزار غمزوں، عشوں اور اداوں سے لوگوں کے دل لبھاتا ہے۔ مست رکھتا ہے۔ اور خلقت کا لاشعور سندھو کے دھارے کی صورت بہتا ہے۔کلچر بھانت بھانت کے انسانوں کو وحدت کے تصور سے جوڑتا ہے ۔ مقامی روایتیں شکلیں بدل کر زندہ رہتی ہیں۔ کلچر کے DNA کا جبر تہذیب کے حلیم میں گوشت ، دالوں اور مصالحوں کو نیا ذائقہ دے کر پرانی ایک تھالی میں پروس دیتا ہے۔دربار اور تلوار سے دور عام "گناہگار” لوکائی اور دریا پنتھی صوفیوں، قوالیوں، جھولے لال ، پنجیرا گیتوں، دھمال اور چھیج رقص سے catharsis یا تنقیحِ جذبات اور تفریح کا سامان کرتے ہیں۔ ایک اور سطح پر یہ acculturation یا ثقافتی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لئے محبت کے میلے ہیں۔بہار کا جشن ہے، چیت کا سواگت ہے! سنت اور صوفی لا کوفی ہوتے ہیں کہ وہ فرقے ، مذہبیت اور تعصب کی نفی کرتے ہیں اور انسانیت کا پرچار کرتے ہیں۔جسم کا پردہ اٹھنے پر وصل سوچتے ہیں!مولانا روم کہ وحدت الوجود کے امام ہیں، خود کو وجود سے خالی اور محبوب کو خیال سے ماورا دیکھتے ہیں:
می روم سوئے نہایت الوصال
من ز تن خالی شدم، او از خیال
شب بسری کو حیدر آباد ٹھہرا۔دہن میں پلہ مچھلی کے رکھے ذائقے یاد آئے کہ پلہ دستیاب نہ تھی ۔ڈھاکہ میں ہرسہ مچھلی پکانے والی پدمانین کے ہاتھ کا ذائقہ اور آنکھ کا جادو یاد آیا۔پدما نین کا مطلب لوٹس آنکھوں والی ہے!آج شام مسافر نے جھولے لال کو لوٹس کے ساتھ دیکھا تھا! رات کے دوش پہ سر رکھ سندھو کی زلف کے سائے میں سونے کی کوشس کی تو نیند نے نینوں سے آنکھ مچولی کھیلی۔صبح ہوئی تو اک طرح کی بے کیفی تھی، تھکاوٹ نہ تھی! مولانا حالی کا ایک ماڈرن شعر ” پُرالی” کی بے وفائی یاد کرانے آیا:
دریا کو اپنی موج کی طغانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو درمیاں رہے
سفر نصیب کو جھولے لال کے ماننے والے ایک نانک پنتھی پروفیسر کی تلاش تھی جس کے سفید بالوں میں سندھو کے پانی سی چمک تھی!

About The Author