نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مال کس کا‘ نام کس کا ۔۔۔ رسول بخش رئیس

مخلصین تو وہ ہوتے ہیں‘ جو بس اپنا کام مکمل کرکے گزر جاتے ہیں۔ نام کمانا ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ باقی سب کچھ تاریخ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں دستور ہے کہ سکولوں کے نام ہوں یا جامعات کے‘ شفا خانے ہوں‘ بڑے منصوبے یا عسکری قوت سے متعلق ساز و سامان‘ اپنی اپنی قوم کے محسنوں اور ہیروز کے نام کئے جاتے ہیں‘ ان کی خدمات کے اعتراف اور احسان مندی کی علامت کے طور پر۔ اس لئے بھی کہ آنے والی نسلیں انہیں فراموش نہ کر دیں۔ ان کی خدمات کو یاد رکھیں۔ ان کے ذاتی کردار‘ شخصیت‘ علم و فضلیت‘ لگن و محنت‘ سلوکِ زندگی اور ہر ایک کے مخصوص شعبے کے بارے میں نہ صرف آگاہی حاصل ہوتی رہے بلکہ نوجوان نسل اثر پذیر ہو‘ ان کو چراغِ راہ بنائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔
ایسے محسن روشنی کی مثال ہوتے ہیں۔ وہ ایسی شمعیں جلا جاتے ہیں‘ جو نور کی شعائیں پھیلاتی رہتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ تاریخ میں ایثار‘ خدمت اور جدوجہد کی مثالیں قائم کیں‘ مگر اپنے نام پر کچھ نہ چھوڑا۔ سرِ دست میرے ذہن میں اپنے عظیم محسن سر سید احمد خان کا نام آ رہا ہے۔
انہوں نے انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایسی زبردست علمی‘ سائنسی اور فکری تحریک چلائی کہ اس کا ثمر ہم نے آزاد مملکت‘ پاکستان کی صورت میں پایا۔ پاکستان کے بنانے اور اس پر خوش ہونے والے‘ اور اس کے مخالفین بھی‘ چاہے وہ بھارت میں ہوں یا وطنِ عزیز میں‘ سب حیران ہوتے ہیں‘ اور سوچتے بھی رہتے ہیں کہ یہ ملک کیسے اور کیوں ”اتنی جلدی‘‘ بن گیا۔
وہ اپنے اپنے واہموں میں گم‘ جواز گھڑتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی قومی شناخت کی تاریخ کا مطالعہ کریں‘ جو بہت طویل اور گہری رہی ہے‘ تو سب واہمے دم توڑ دیتے ہیں۔ جو بات میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ وہ بعد میں‘ لیکن آپ کی اجازت سے سر سید احمد خان کے خلوص‘ ہمت اور جہدِ مسلسل کا ذکر چند سطور میں کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
برطانوی ہندوستان کا کوئی ایسا کونہ نہ تھا‘ جہاں وہ چندہ جمع کرنے نہ پہنچے ہوں۔ کوئی ایسا دروازہ نہ تھا‘ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خواب کی تعبیر کے لئے نہ کھٹکھٹایا ہو۔ نہ کبھی مایوس ہوئے‘ نہ ہمت ہاری۔ ثابت قدمی اور پکے ارادے کی ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ برِ صغیر میں مسلمانوں کے ادب‘ فکر‘ فلسفے اور سائنس کی جدت اور آبیاری میں جو کردار اس یونیورسٹی کا ہے‘ کسی اور کا نہیں۔
میرے استادِ محترم وزیر حسین زیدی مرحوم کا تعلق اتر پردیش سے تھا‘ اور وہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں تحریکِ پاکستان میں کردار ادا کیا تھا۔ تب ان کی جامعہ نے اساتذہ اور طالب علموں کو رخصت پر بھیج دیا تھا‘ اس تاکید کے ساتھ کہ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی مہم چلائیں۔ زیدی صاحب ان میں سے ایک تھے۔
آزادی کے بعد رحیم یار خان میں آباد ہو گئے۔ ایک نہیں‘ کئی سرکاری سکول چلائے اور متعدد نجی سکول قائم کر کے انہیں سرکاری تحویل میں دے دیا۔
مجھے فخر ہے کہ میں ان کے شاگردوں میں سے ہوں۔ جو کچھ آج ہوں اس میں ان کی رہنمائی‘ شفقت اور علی گڑھ کے بارے میں ان پُر تاثیر داستانوں کا بھی کردار ہے‘ جو ہر روز وہ کلاس پڑھاتے ہوئے سنایا کرتے تھے۔ یہ جامعہ دیکھنے اور وہاں کچھ وقت گزارنے کا خواب دو دہائیاں پہلے پورا ہوا۔ اس دورے کے بارے میں کبھی آئندہ تفصیل سے لکھوں گا۔ سر سید احمد خان کے مرقد پر حاضری دینا بھی میں اپنا فرض سمجھتا تھا‘ کہ ان کے درجات کی بلندی کے لئے وہاں کھڑے ہو کر دعا کی جائے۔
ایسے محسن کی قبر ایک عام سی قبر تھی‘ کوئی مقبرہ نہیں‘ کوئی غیر معمولی عمارت نہیں۔ نہ جانے یہ ان کی وصیت تھی یا ان کے جانشینوں کا فیصلہ‘ دفن البتہ ان کو جامعہ کے احاطے میں کیا گیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی‘ وہی علی گڑھ یونیورسٹی ہی رہی۔ کسی نے یہ جامعہ سر سید احمد خان کے نام نہیں کی۔ اگر کوئی ایسا کرتا بھی‘ تو سر سید صاحب اسے ہرگز منظور نہ کرتے۔
مخلصین تو وہ ہوتے ہیں‘ جو بس اپنا کام مکمل کرکے گزر جاتے ہیں۔ نام کمانا ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ باقی سب کچھ تاریخ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میرے دل میں یہ خواہش ضرور ہے کہ ہماری کسی بڑی جامعہ کا نام سر سید احمد خان کے نام پر ہوتا۔ ایک ادارہ ان کے نام پر ہے‘ لیکن وہ اتنا معروف نہیں۔ ان کے حوالے سے کوئی نئی جامعہ تشکیل دی جائے تو بہتر ہو گا۔
ہماری تہذیب ہو یا مغربی یا ایشیائی‘ خود ستائی اور سب کچھ اپنے نام کرنے کی روایت معیوب ہی نہیں بہت ہلکی لگتی ہے۔ ٹیکسوں اور قرضوں کی صورت میں پبلک فنڈز قوم اور عوام کی امانت خیال کئے جاتے ہیں۔
اس کے امین ہم نے اپنی سیاسی تاریخ میں دیکھے ہیں کہ کس بے دردی سے انہوں نے لوٹا اور ابھی تک دونوں ہاتھوں سے مصروف ہیں۔ اور جو لوٹ چکے‘ اس کے دفاع میں آئے روز بہانے تراشتے رہتے ہیں۔
بات کسی اور طرف چلی گئی‘ کہنا یہ تھا کہ سرکاری خزانے سے ہسپتال‘ جامعات‘ ہوائی اڈے‘ سڑکیں‘ پارکس یا کوئی اور منصوبہ اہلِ اقتدار اپنے نام پر کرتے جاتے ہیں۔ ایک نہیں‘ کئی منصوبے‘ اب تو گننا ہی چھوڑ دیا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کے نام کی تختی کہاں کہاں لگی ہوئی ہے۔
یہاں تک کہ انہوں نے اگر ایک چھوٹے سے پارک کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم کئے تو پارک ان کے نام ہو گیا۔ انہوں نے اپنی دوسری اور تیسری حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ لاہور کے درمیان بہتی نہر کے کنارے انڈر پاسز سیاسی خاندانوں کے سربراہوں کے نام پر ہیں۔ جو بھی اقتدار میں آیا‘ پہلے اپنے باپ دادا کو ہی یاد رکھا۔
دیگر خاندانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ اپنے آباؤاجداد کا نام روشن رکھنے کیلئے اگر ان کا طرزِ سیاست کافی نہیں‘ تو ان کے نام پر ادارے بنائیں‘ لیکن اس کے لئے رائج طریقہ یہ ہے کہ ایسے اداروں کے لئے سرمایہ ان کا خاندان فراہم کرتا ہے۔
فلاحی اداروں کی بات اور ہے کہ ایسے ادارے یا منصوبے کا نام چن لیا جاتا ہے‘ جس سے کہ سیاست یا کسی دوسرے پیشے میں مشہور فرد کا ذاتی جذبہ کارفرما رہا ہو۔
امریکہ میں دستور ہے کہ ہر صدر اپنے مخصوص علاقے میں ایک لائبریری قائم کرتا ہے‘ جس میں وہ اپنی سب نجی اور سرکاری دستاویزات مستقبل کے تاریخ دانوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے کسی سابق صدر یا وزیر اعظم نے کوئی عالی شان کتب خانہ تعمیر کرایا ہو کہ دانش ور‘ طلبہ اور نوجوان مستفید ہو سکیں۔
زیادہ تر توجہ‘ جو سامنے ہے‘ اسی پر ہے کہ چونکہ اقتدار ہے تو کچھ اپنے نام کر جائیں۔ خوشامدی بھی گھیر لیتے ہیں کہ سردار صاحب‘ خان صاحب یا چودھری صاحب یہ سب کچھ آپ ہی کا کمال ہے‘ بس اپنے نام کی تختی لگا کر آئندہ نسلوں تک روشن کر جائیں۔
ملتان میں جب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنا تو اس کا نام اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے اپنے نام کے ساتھ منسوب کر لیا۔ ایسی خود پرستانہ مثالیں کہیں اور کم ہی ملیں گی۔ چند روز قبل ایک اور وزیر اعلیٰ نے ڈیرہ غازی خان میں قائم کئے جانے والے ایسے ہی ایک انسٹی ٹیوٹ کا نام اپنے والد صاحب کے نام پر رکھ دیا۔
وہ کہتے ہیں‘ یہ ان کے مرحوم والد کا خواب تھا کہ ایسا ادارہ اس پس ماندہ علاقے میں قائم ہو۔ عجیب منطق ہے۔ تحریک انصاف والے بھی سرکاری مال سے اپنے آبائواجداد کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔ جناب‘ نام اس طرح روشن نہیں ہوتے‘ بس تختی پر ہی کندہ رہ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً سیاہی یا رنگ کی تازگی بھی انہیں زندہ نہیں رکھ سکتی۔ کیا ہماری قومی تاریخ میں سماجی خدمات‘ فکری تحریکوں اور قوم و ملت کے لئے جان کی قربانی دینے والوں کی کمی ہے کہ قرعہ فال اپنے یا اپنے والدین کے نام کا نکلتا ہے؟
کہاں ہماری تاریخ کی ہمیشہ زندہ رہنے والی ہستیوں کی ذاتی غرض و غایت سے بالا قابلِ تقلید مثالیں اور کہاں آج کے ہمارے حکمران۔ نہ صرف عوام کی خدمت میں کچھ لگانے کی بجائے‘ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں بلکہ بچا کھچا جو لگاتے ہیں‘ وہ بھی اپنے نام پر۔ مال کس کا‘ نام کس کا؟ واہ‘ یہ ہے وہ تبدیلی جس کا انتظار ہر نئی صبح رہتا ہے؟

About The Author