جیویں وِچھڑی کونجھ قطارُوں : حضرت نظام الدین اولیاء،غالب کے مقبرے، اکیڈمی اور ہمایوں کا مقبرہ دیکھنے کے بعد انکل وجے کمار نے بتایا کہ اب ہم دونوں دلی کے جنوبی علاقے ”ساکت“ میں مقیم سرائیکی دانشور جگدیش چندر بترا کی طرف جا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جگدیش بترا 1938ءمیں ضلع مظفر گڑھ کے علاقے غضنفر گڑھ میں پیدا ہوئے، 1947ءمیں انہوں نے اپنے خاندان سمیت ہندوستان ہجرت کی لیکن ان کا دل کہیں غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ (جوہڑ)میں ہی پڑا رہ گیا۔ ہندوستان جا کرانہوں نے نامساعد حالات کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بیرسٹر بنے،قانون کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکلاءمیں شامل ہوئے ۔ سرائیکی زبان اور اپنے شہر سے محبت ان کے خون میں رچی ہوئی ہے، اسی زبان کی محبت انہیں کئی بار پاکستان کھینچ لائی۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی وہ سرائیکی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں، نہ صرف خود سرائیکی کے بہترین قلمکار اور شاعر ہیں بلکہ سرائیکی دنیا کے نام سے ایک میگزین بھی شائع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بترا کی قائم کردہ تنظیم سرائیکی انٹرنیشنل دنیا بھر میں پھیلے سرائیکیوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے۔ وہ پاک و ہند سمیت باقی ملکوں میں بسنے والے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔اگر کوئی پاکستانی دِلی جائے اور بترا صاحب سے ملاقات نہ ہو پائے تو یہ ویسا ہی ہے جیسے دلی آکر کوئی بندہ چاندنی چوک یا مزار ِغالب دیکھے بنا واپس لوٹ جائے۔ہم چونکہ میٹرو ٹرین کے ذریعے ساکت جارہے تھے اسی لئے بترا صاحب مسلسل ہمارے رابطے میں تھے۔ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی انہیں اپنی گاڑی میں محوِ انتظار پایا۔وہ سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر لے گئے، ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور پھر اپنی پتنی سے ملوایا، جن کا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور سے ہے اور وہ بڑی میٹھی سرائیکی بولتی ہیں۔ایک میز پر توشے کی تھالی کاجو اور کچھ فروٹ رکھے ہوئے تھے، بترا صاحب کا حکم تھا کہ پہلے توشہ کھایا جائے۔ہم سب نے ایک ایک دانہ توشے کاچکھا ، بترا صاحب نے ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ توشہ سرائیکی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے انعام، رِیوارڈ، کرموں کا پھل، کمائی کی اُجرت وغیرہ۔ وہ بتانے لگے کہ بچپن کے زمانے میں غضنفر گڑھ میںگڑ کا توشہ، کھنڈ کا توشہ ایک آنے فی سیر ( پکے وٹے) ملا کرتا تھا ، اُن دنوں کچے وٹے(کلو) کا رواج عام نہ تھا ۔اُس وقت کے زمیندار محنت کش مزدور کو بطورِ اُجرت گندم کے ساتھ توشہ بھی دیا کرتے تھے۔اپنی بات ختم کرنے کے بعد وہ اپنی پتنی سے کہنے لگے” بھلا تھیوی روٹی پانڑیں دا بندوبست کر، سرائیکی مزمان ساڈے گھر آئے“۔حکمنامہ جاری ہوتے ہی اُن کی پتنی اٹھ کر کسی نوکرانی کے ہمراہ کچن کے اندر چلی گئیں، اس طرح مجھے بترا صاحب سے بات چیت کرنے کا موقع مل گیا۔
میرا پہلا سوال اُن سے یہی تھا کہ کچھ اپنے بارے میں بتائیے ؟۔
بترا صاحب کا تعلق ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ کی ایک قریبی بستی غضنفر گڑھ سے ہے۔یہ غضنفر گڑھ کہاں واقع ہے؟میرے پوچھنے پر وہ تفصیلاً بتانے لگے کہ ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ سے علی پور کی طرف چند میل کے فاصلے پر ایک سٹاپ لوہار والا آتا ہے، وہاں سے بائیں جانب دریائے چناب کی سمت ایک آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک اونچا ٹیلہ دکھائی دیتا ہے، یہ ٹیلہ ماضی کا قلعہ غضنفر گڑھ ہے، جس کے اردگرد کی آبادی کو موضع غضنفر گڑھ کہاجاتا ہے، یہی میری جنم بھومی ہے۔انکل وِجے کمار تنیجا کی درخواست پر بترا صاحب نے اپنے بچپن کے قصے سنانا شروع کر دئیے۔میں غضنفر گڑھ کے ایک بااثر زمیندار دلیپ چندر بترا کے ہاں پیدا ہوا،چونکہ میں دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا تھا اسی لئے میری پیدائش پر غضنفر گڑھ کے ہندو مسلمانوں نے مل کر خوشیاں منائیں۔ مولوی ظہور الدین اعوان‘ کلو خان پٹھان‘ جال والے کے پیر سید شاہ اور ڈھیڈے لال کے پیر سائیں نے بھی دعائیں دیں، اس خوشی میں غضنفر گڑھ کی مشہور ڈھنڈ پر جوت جلائے گئے۔بستی کے مندر،گوردوارے اور مسجدپر بھی چراغاں کیا گیا۔ لڈو اور مٹھائی بانٹی گئی ، ڈھول تاشے والے بلائے گئے اور جھومریں ڈالی گئیں۔میرے دادا نارا ئن مل نے سب کو اپنی حیثیت کے مطابق خوش کیاجبکہ خان گڑھ کے نوابزادہ نصراللہ خان اور چودھری سادھو رام نے مبارکبادی کے پیغامات بھجوائے ۔جب میں سوا مہینے کا ہوا تو میرے دونوں ماموں گنیش داس اور نندلال ورمانی اونٹ کچاوا لے کر آگئے۔ حضرت سخی سرور سرکارکے مزار پر لے جاکر میری جھنڈ اتروائی گئی، مزار پر چادر چڑھائی گئی اور پھر مجھے اُچ شریف لے جایا گیا جہاں ہندو عقیدے کے مطابق پنجند وِساخی(بیساکھی) میلے میں مجھے دریا کے پانی میں ڈبکی لگوائی گئی اور اس طرح میرا بچپن غضنفر گڑھ میں اپنی گائیوں،گھوڑوں اور بھینسوں پر بیٹھ کر گزرنے لگا۔تھوڑا سا بڑا ہوا تو جوہڑ پر دوستوں کے ہمراہ کانہے اور سریں کی کشتی پر بیٹھ کر پانی کی سیر کرنا میرا محبوب مشغلہ تھا ۔ جوہڑ میں کھلتے ہوئے کنول کے پھول اور پبن ہی میری کل کائنات تھی ۔پانچ برس کا ہوتے ہی مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول غضنفر گڑھ میں داخل کروادیا گیا۔میرے روحانی باپ مولوی ظہور الدین نے مجھے الف ب پڑھنا سکھایا ۔اس وقت ہمارے سکول میں کل 22 طالبعلم تھے جن میں 12 مسلمان، 10 ہندو تھے۔ مولوی ظہور الدین اعوان اردو کے قابل استاد تھے جنہوں نے مجھے شعرو شاعری کی طرف راغب کیا۔وہ ہر بچے کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے ، مجھ سے تو بہت زیادہ پیار کرتے کیونکہ وہ میرے پتا جی کے کلاس فیلو اور دوست تھے۔ اُن کے دو بیٹے رشید اور منیر اعوان بھی میرے ساتھ پڑھتے تھے، اس کے علاوہ میرے ہم جماعتوں میں صادق خان پٹھان، جے دیو ، لدھا رام، چنی لال، ہری داس، اومی، گیان چند ،ستیش اور منوہر نمایاں تھے ۔میرے دادا نارائن مل کی لمبی سفید داڑھی تھی،وہ سفید چولا، پٹکا اور لنگی باندھا کرتے تھے اور سارے غضنفر گڑھ کے دادا سائیں مشہور تھے۔دادا سائیںنے اپنی زندگی میں رنگ، نسل اور مذہبی بھید بھاﺅ کے بارے کبھی سوچا بھی نہ تھا،وہ سب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کئی بار لوگوں کو یہ مغالطہ ہوتا کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان؟ ساری بستی کے لوگ اپنی خوشی غمی کے موقع پر اپنا بزرگ سمجھ کر بلاتے تھے۔ داد اکو بستی کے ریت رواج کا بخوبی علم تھا، ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ بہت سمجھ دار اور طاقتو ر انسان تھے ۔ایک بار چوروں نے ہماری بستی میں نقب لگائی ، تین چوروں کو دادا سائیں نے فوراً پکڑ لیا ایک چور بھاگ گیا۔ اسی طرح ایک چور ہماری بھینس کھول کر لے گیا ، دادا سائیں کُھروں کے نشانات کے سہارے دریائے سندھ کے پار اتر کر اپنی بھینس تک پہنچ گئے مگر یہ جان کرکہ چور ایک غریب مسلمان ہے اورچوری اس کی مجبوری ہے کیونکہ اس کے بچے بھوکے ہیں۔ دادا جی نے چور کو وہیں معاف کر دیا، اسے بھینس سمیت اپنی بستی میں لے کر آئے اور ایک بوری گندم دے کر روانہ کر دیا ۔میں اپنی دھرتی غضنفر گڑھ کو آج تک نہیں بھول سکا ۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں چاروں اطراف کھجور، آم اور اناروں کے باغ ہوا کرتے تھے۔ کنویں، نہریں،جھلاریں تھیں۔ بھینس کی دم پکڑ کر پانی میں تیرنا ، ڈیرہ غازی خان کے قریب دریائے سندھ کو بیڑے پر پار کرنا، ملتان کی سیر، پرہلاد مندر، نرسنگھ اوتار مندر، بہاﺅالدین زکریا کا مزار ، سورج کنڈ اور باغ لانگے خان لائبریری وغیرہ ابھی تک آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ہجرت کے حوالے سے باتیں کرتے ہی بترا صاحب کی آنکھیں بھر آئیں۔
تقسیم کی کہانی دس لاکھ بے قصور ہندو، سکھ، مسلمانوں کے قتل کی ایک ایسی داستان ہے جو درد ناک، وحشت ناک اور انسان کو حیوان و شیطان کے روپ میں بدلنے کی کہانی ہے۔ فرشتوں جیسے مولوی ظہور الدین نے پتا جی کو برادرانہ مشورہ دیا کہ اپنی جائیدادیں چھوڑو، دھرم اور زندگی بچاﺅ بلکہ غضنفر گڑھ کے ہندوﺅں کو صاف بتا دو کہ وہ فی الفور ہندو ستان چلے جائیں کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت آ گئی ہے وہ آپ لوگوں کو نئے ملک میں نہیں رہنے دیں گے۔ یوں قتل عام، اللہ اکبر کے نعرے، لوٹ مار، اغوائ، چوری، ڈاکے شروع ہو گئے ۔ ڈھیڈے لال میں میری خالہ کی جوان لڑکی اغواءکر لی گئی، خالو تھانے رپورٹ کروانے گئے تو ان کی لاش واپس آئی۔ ماموں کو دن دیہاڑے قتل کرکے لاش دریائے سندھ میں بہا دی گئی ، یوں ہم سب اپنے گھر بار چھوڑ کر جانوروں کو پٹھان والا کے کلو خان اور بطخوں کو جال والے کے پیر سید شاہ کے حوالے کرکے خان گڑھ آ گئے۔ اکتوبر 1947ءمیں مظفرگڑھ سے گاڑی پکڑ کر نومبر میں جالندھر پہنچے، چھوٹی بوا اور چھوٹے بھائی نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔
16 جنوری 1948ءکو مجھے کنج پورہ کے مڈل سکول میں چوتھی جماعت میں داخلہ ملا ، ابتداءمیں ہم نے بڑی مشکل زندگی گزاری۔ پتاجی نے ایک دکان جو کسی مسلمان پنساری کی تھی اپنے عزیزوں سے قرض لے کر اپنے نام کروائی‘ والد صاحب صرف کپڑے بجاج کا کام جانتے تھے، کپڑا اب راشن پر ملتا تھا، انہوں نے سرکاری پرمٹ لے کر کپڑے کی راشن والی دکان کھول لی، ادھار دے نہیں سکتے تھے، دکان گھاٹے میں چلی گئی، پھر انہوں نے ایک پرانی سائیکل خریدی اور بستیوں سے دودھ خرید کر حلوائیوں اور گھروں میں بیچنے لگے۔ میں سکول سے پڑھ کر آتا تو ایک لکڑی کے ٹال پر لکڑی کی چھال اتار کر اپنا خرچ چلاتا ۔اماں گوئے (اوپلے) بنا کر سکھاتی ،میں اوپلے اور جنگل سے لکڑیاں چن کر بازار جاکر بیچتا، اس کے ساتھ اماں چرغہ کاتتی تھیں اور چکی پیس کر گھر کا خرچ چلاتی تھیں۔ بڑی بہن نے کھڈی چلانا سیکھی ، ایسے حالات میں 1952ءمیں آٹھویں بورڈ کا امتحان پاس کرکے کرنال میں سناتن دھرم ہائی سکول میں میٹرک میں داخلہ لے لیا۔ نویں جماعت میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ دودھ بیچا ۔ 1954ءمیںاچھے نمبروں کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی شملہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گھر میں سرائیکی کا چلن عام تھا لیکن سکول کالج میں ہندی انگریزی اور پنجابی زبان کا رواج تھا۔اردگرد کا ماحول مکمل اجنبی محسوس ہوتا تھا۔مقامی ہندو ہمیں بن واسی شرنارتھی اورطنزاً پاکستانی شرنارتھی(مہاجر) کہہ کر بلاتے تھے ۔ وہ ہمیںہندو تو سمجھتے ہی نہ تھے اور نہ ہی ہم سے رشتے ناطے کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر