نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طبل جنگ بج رہا ہے؟ ۔۔۔ حیدر جاوید سید

وفاق میں متحدہ اپوزیشن کو بھی چند ارکان کی ضرورت پڑے گی اس لئے کمزور وکٹ پر کھیل کر ہاتھ بندھوانے سے بہتر ہے کہ پنجاب کو فوکس کیاجائے۔

تلواریں نیاموں سے باہر (ویسے نیاموں میں تھیں کب؟) اور دہنوں سے گولہ باری جاری ہے۔میرے ملتانی مخدوم کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی بھی ترنم کے ساتھ جواب آں غزل پیش کر رہی ہے۔
منگل کو مرحوم جنرل ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین راجہ ظفرالحق نے سینیٹ میں ہلکی پھلکی ڈھولک بجائی۔
سرکار کے حاضر وموجود وزراء اور جعلی ترجمان سبھی سندھ فتح کرنے کے راستے پر ہیں۔
کیا جھگڑا یا حالیہ تلخی محض سیاسی اختلافات اور مروجہ سیاست کی دین ہے یا کورونا پر باہمی تعاون کے فقدان کا نتیجہ؟۔
جان کی امان رہے تو عرض کروں، دونوں باتیں نہیں ہیں۔ 18ویں ترمیم کی وہ شقیں جو مالیاتی اور انتظامی فیصلوں کے حوالے سے صوبوں کو خودمختار بناتی ہیں وجہ اختلاف ہیں۔
پیپلز پارٹی سے اپریل کے تیسرے عشرے میں رابطہ ہوا تھا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تک پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اپنی قیادت سے کہیں کہ وفاق پر مالیاتی دباؤ کم کرنے کیلئے تعاون کریں،
دفاعی بجٹ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
مراد علی شاہ نے پیغام اپنی قیادت تک پہنچا دیا۔
جواب اسلام آباد بھجوا دیا گیا۔
پیپلزپارٹی نے دو ٹوک الفاظ میں صوبوں کے مالیاتی حقوق اور حصہ سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔
جوابی پیغام کے بعد لشکری میدان میں اُتارے گئے۔ میدان دن بدن گرم ہوتا گیا، کورونا کے معاملے پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں گرما گرم تقاریر ہوئیں، اخباروں کی سرخیاں چیخ رہی ہیں، نجی ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں طرفین آستینیں اُلٹے چیتھڑے اُڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک واقف حال کا دعویٰ ہے کہ وفاق کے مالیاتی مسائل اور دفاعی بجٹ ایشوز تو ہیں برہمی کی ایک وجہ این ڈی ایم اے سمیت بعض اداروں میں ہونے والی تقرریوں نے تنازعہ پیدا کیا۔
واقف حال سے عرض کیا۔ یہ تقرریاں تو وفاق کا حق ہیں؟ جواب ملا سول بیوروکریسی میں عدم اطمینان بڑھ رہا ہے، غیرمتعلقہ لوگوں کو ان کے سروں پر لابٹھایا جارہا ہے وہ اس پر شاکی ہے۔
واقف حال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پیپلزپارٹی نے ابتدائی بیرونی امداد(کورونا کے حوالے سے ملی)کا بڑاحصہ براہ راست این ڈی ایم اے کو دینے کی شخصی فیصلے(یہ فیصلہ وزیراعظم کا تھا) پر اعتراض کیا ہے۔
مراد علی شاہ دو مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے اجلاسوں میں کہہ چکے ہیں کہ کورونا پر ملنے والی بیرونی امداد صوبوں کے نظام صحت کو بہتر بنانے کیلئے تقسیم کی جانی چاہئے تھی مگر وفاق نے زمینی حقائق نظرانداز کرتے ہوئے ”کسی کو خوش“ کرنے کیلئے من پسند فیصلہ کر لیا۔

دستیاب اطلاعات یہی ہیں کہ یہ جو طبل جنگ سنائی دے رہا ہے یہ مصنوعی ہرگز نہیں۔
طرفین جنگ کی تیاریاں کر چکے، پیپلزپارٹی کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ کارکنوں کو متحرک کرنے اور مزاحمت کیلئے تیار رہنے کو کہہ دیا گیا ہے،
اسی دوران ایک غیرمعروف نیوز ویب سائٹ نے خبر دی کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کو سندھ کا گورنر بنانے کیلئے سوچا جارہا ہے۔
اس خبر کو بعض علاقائی اخبارات نے بھی شائع کیا،کیا یہ خبر دھمکانے کیلئے تھی یا ایسا سوچا جارہا ہے؟
سنجیدہ فہم تجزیہ نگار اس خبر کو بے پر کی اُڑانے سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔
ان کا مؤقف ہے کہ کسی صوبے میں ایسے شخص کو گورنر نہیں لگایا جا سکتا جو اس صوبے کا شہری ناہو۔ یہی رائے درست ہے
مگر عجیب یہ ہے کہ غیرمعروف ویب سائٹس پر اس خبر کی اشاعت سے قبل سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے حوالے سے ہی پاشا والی کہانی شروع ہوئی۔
کہاجاتا ہے کہ ان دونوں افراد نے سندھ حکومت کے بعض ذمہ داروں تک یہ بات پہنچائی کہ اسلام آباد عدم تعاون کی صورت میں ایک سابق جنرل کو سندھ کا گورنر بنانے بارے غور کر رہا ہے۔
سابق جنرل مگر کون؟
جنرل شجاع پاشا کا نام فردوس شمیم نقوی نے لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد ایسا سوچ بھی رہا ہے تو اس امر سے لاعلم ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی موجودگی میں ایسا کیا جانا ممکن نہیں؟
یا پھر سندھ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے یہ خبر اُڑائی و
اُڑوائی گئی۔
جنرل پاشا کانام اسلئے مارکیٹ میں بطور نمونہ پیش کیا گیا کہ وہ تحریک انصاف کی نشاط ثانیہ کے خالق سمجھے جاتے ہیں۔
اس پر دو آراء نہیں کہ سیاسی تصادم کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
نون لیگ کا فیصلہ کیا ہوگا۔
کیا وہ پیپلزپارٹی کیساتھ جائے گی؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نون لیگ غیرجانبدار رہے گی۔ وہ ہلکی پھلکی ڈھولک بجاتی رہے گی تاکہ سیاسی ساکھ محفوظ رہے خطرہ مول نہیں لے گی،
وجہ یہ ہے کہ نون لیگ اب بھی پراُمید ہے کہ اگر معاملات تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلتے ہیں تو وہ پنجاب میں اپنے حق حکومت کا جواز گوانے نا پائے۔
پنجاب میں ہی نون لیگ اس پوزیشن میں ہے کہ ہلکی سی سرپرستی اس کے صوبائی اقتدار کی راہ ہموار کر سکتی ہے

وفاق میں متحدہ اپوزیشن کو بھی چند ارکان کی ضرورت پڑے گی اس لئے کمزور وکٹ پر کھیل کر ہاتھ بندھوانے سے بہتر ہے کہ پنجاب کو فوکس کیاجائے۔
ادھر ایک دلچسپ اطلاع برطانیہ کے دارالحکومت لندن سے ہے جہاں تحریک انصاف کی ایک اہم شخصیت کے صاحبزادے اور دو ہمدردوں نے پچھلے ہفتے جناب الطاف حسین سے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ محفل سجائی۔
کیا اسلام آباد سندھ حکومت کیخلاف کارروائی وہ کسی بھی طرح اور سطح کی ہو کیلئے جناب الطاف حسین سے عددی (یعنی عوامی) مدد کا طلبگار ہے؟
اس سوال میں بہت ساری خواہشیں، امکانات اور مستقبل کیلئے نشانیاں پوشیدہ ہیں۔
دعویداروں کا دعویٰ ہے کہ پچھلے ہفتہ بھر سے الطاف بھائی کے محبوں کا سوشل میڈیا پر پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کیلئے انصافیوں کا ہمنوا ہونا بلاوجہ نہیں اور تحریک انصاف کا سندھ کو ہدف بنا لینا بھی۔
حرف آخر یہ ہے کہ کیا یہ ساری خبریں، واقفان حال کی باتیں و دعویداروں کے دعوے فقط اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی مہمیں ہیں یا جنگ لگنے والی ہے لشکری صفیں درست کر رہے ہیں؟۔

About The Author