نومبر 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا طارق جمیل کی بھولی بسری یادیں ۔۔۔ ظہور دھریجہ

تاہم کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ انسانی حوالے سے مسلک تو کیا دوسرے مذہب کے لوگوں سے بھی رواداری رکھتے ہیں ۔
مولانا طارق جمیل بہت بڑی مذہبی شخصیت کا نام ہے ، وہ کس سوچ اور کس مزاج کے آدمی ہیں ؟ اس کا اظہار ان کی گفتگو اور ان کے عمل سے ہوتا ہے ۔ پچھلے دنوں مولانا طارق جمیل کو میڈیا پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا ۔
مولانا طارق جمیل کے حوالے سے جہاں چند میڈیا اینکر کا رویہ درست نہیں تھا ، وہاں سوشل میڈیا پر بعض حضرات نے انتہا کر دی اور وہ گالم گلوچ تک چلے گئے ، تجزیہ نگاروں نے اس سارے عمل کو اچھا نہیں جانا ۔ پاکستان میں ضیا الحق دور کے بعد مذہبی انتہا پسندی ، فرقہ واریت ، عدم برداشت اور دہشت گردی کے جو مذموم مظاہر دیکھنے میں آئے ، اس نے شرفِ انسانی کو پارا پارا کر کے رکھ دیا ، کلاشنکوف اور نام نہاد خودکش بموں کے نام پر ’’ اشاعت اسلام‘‘ کا کام کیا گیا ۔
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انسانی حوالے سے مسلک تو کیا دوسرے مذہب کے لوگوں سے بھی رواداری رکھتے ہیں ۔ مولانا طارق جمیل کی بھولی بسری یادیں قارئین سے شیئر کرتاہوں جو کہ انہوں نے ہندوستان کے ایک یوٹیوب چینل کیشو ملتانی فلمز سے گفتگو کے دوران کیں ۔
یہ باتیں امن اور رواداری کے حوالے سے ہیں اوران باتوں سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے وسیب ، اپنی مٹی اور اپنی ماں بولی سے کتنا پیار ہوتا ہے ؟ اس کا اظہار مولانا طارق جمیل کی گفتگو سے ہوتا ہے ، یہ گفتگو آپ بھی پڑھئے ۔
کیشو ملتانی :مولانا صاحب سلام
مولانا طارق جمیل : جی سلام جی
کیشو ملتانی : میں خوش آمدید کہتا ہوں اس پروگرام میں جس میں سننے والے کب سے راہ دیکھ رہے ہیں ، ہم ہندوستان کی طرف سے آپ کو ویلکم کرتے ہیں۔
مولانا صاحب : میں بھی شکر گزار ہوں کیشو بھائی کہ آپ نے مجھے موقع دیا ، اپنے ہندوستان کے بھائیوں سے ، خاص طور پر وہ لوگ جو ہمارے علاقے سے ہجرت کر کے گئے یہ باتیں ان سب تک پہنچیں اور وہ سنیں ، مجھے خوشی ہو گی ۔
کیشو ملتانی : پروگرام شروع کرنے سے پہلے میں پوچھ لوں کہ آپ کی جو زبان ہے سرائیکی اس میں بات کریں ؟کہ اس سے سننے والے بھی بہت خوش ہونگے ۔
مولانا صاحب : میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہم اپنی زبان میں بات کریں ۔
کیشو ملتانی : اپنی بولی سے مجھے ایسا لگے کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہوں۔
مولانا : میری اپنی بھی یہی خواہش تھی ۔مجھے وہ رام سروپ یاد آ گیا جو ٹرین میں ملا تھا ، اس نے کہا تھا کہ ہم اپنی بولی بولیں ۔ میرا دل کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان میں ہی بات کریں ۔
کیشو ملتانی : یاد کریں جب آپ نے ہوش سنبھالا ، آپ نے کیا محسوس کیا کہ جو آپ کے پڑوسی ہجرت کر کے ہندوستان آ گئے ، کیسے بندے تھے ؟
مولانا صاحب : میری 1953ء کی پیدائش ہے ، ہوش سنبھالا تو اپنے بزرگوں سے دو قوموں کے نام سنتے تھے ، چوغہ اور بھروتی ۔ وہ تلمبے کے بڑے بااثر اور امیر لوگ تھے ۔ علاقے کے اکثر زمیندار ان سے قرضہ لیتے تھے ۔ مجھے رام سروپ اور ان کی بڑی بہن شاید ان کا نام کرشنا ہے، نے اپنی حویلی بتائی تو ان کی حویلی میں آج کل کم و بیش بیس فیملیاں آباد ہیں ، اتنی بڑی حویلی تھی ۔ ہمارے علاقے میں جو بڑے لوگ تھے ان میں ہمارے خاندان کے علاوہ ایک ہراج ، قریشی اور سنپال خاندان ہیں۔ ہم راجپوت ہیں، سہو ہماری سب کاسٹ ہے ۔ ہمارے سارے بزرگوں نے ایکا کر کے جو بھی ہجرت کر کے جا رہے تھے ، چاہے وہ ہندو تھے یا سکھ، ان کو اپنی حفاظت میں ، کسی خون کا قطرہ گرائے بغیر خانیوال کیمپ میں پہنچایا اور وہ اللہ کے کرم سے بحفاظت بارڈر پار کر گئے ۔
کیشو ملتانی : جو حویلیاں دیکھیں ، کبھی ذہن میں آیا کہ وہ بندے ڈھونڈے جائیں ، کون ہیں اور کہاں پر آباد ہیں ؟
مولانا : میں نے آپ کو کیوں ڈھونڈا ہے ؟ صرف اسی مقصد کیلئے تو ڈھونڈا ہے ۔میں نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے رابطہ کر کے آپ کا نمبر ڈھونڈا۔الحمدللہ ایک قدرتی تعلق ہوتا ہے اپنے علاقے کے لوگوں سے ۔مذہب سے ہٹ کر ، زبان اپنی ہو ، علاقہ اپنا ہو تو محبت ہو ہی جاتی ہے۔ جو ہماری پرانی بستی تھی ، اس کا نام حسین پور آڑی والا تھا ۔ وہاں بھی ہندوئوں کے خاندان تھے ۔ ہمارے والد صاحب قصے سناتے تھے ۔ ہمارے والد کا ایک دوست اندر جیت تھا ،ایمرسن کالج ملتان میں اکٹھے پڑھتے تھے ، وہ بہت گہرے دوست تھے ، ان سے گھریلو مراسم ۔ اس نے میرے والد صاحب کو کہا کہ بھائی اللہ بخش گوشت کھلاؤ گھر میں کوئی کھانے نہیں دیتا۔ میں 1982ء میں انڈیا آیا ، ہم ان سے ملنے پہنچے ، ہمارے پاس جو ایڈریس تھا ، ہم وہاں پہنچے تو وہ گھر چھوڑ چکے تھے، ہم بہت اداس ہوئے ۔ وہاں سے ڈاکخانے چلے گئے ۔ ہم نے وہاں سے پوچھا کہ اندر جیت کے نام کا کوئی خط آتا ہے تو وہاں ایک ڈاکئے نے کہا کہ آتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں وہ گھر دیکھاؤ ، تو ڈاکیا لے گیا ، اسی محلے کی دوسری گلی میں تھا ۔ میں گیا تو ان کی بیگم بیٹھی تھیں ۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں میاں اللہ بخش کا بیٹا ہوں ، تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ تم تو ہمارے بیٹے ہو ۔تھوڑی دیر بعد اندر جیت بھی آفس سے آ گئے تو ان کی بیگم نے کہا کہ پہچانو کون ہے ؟ اندر جیت نے کہا پتہ نہیں کون ہے ؟ تو ان کی بیگم نے بتایا کہ بھائی اللہ بخش کا بیٹا ہے تو وہ خوشی سے اچھل پڑا اور بہت پیار کیا ۔ساری فیملی ملائی ، ان کی والدہ بھی اس وقت زندہ تھیں ، اپنی والدہ سے کہا کہ ماں جی یہ دیکھو کون آیا ہے ؟اس نے کہا کہ بتاؤ ، اندر جیت نے کہا کہ یہ میاں اللہ بخش کا بیٹا ہے ، تو 80 سال کی بوڑھی جمپ مار کر مجھے ملی ، مجھ سے لپٹ گئی اور بہت پیار کیا اور اپنی ٹھیٹھ زبان میں بات کی ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں تلمبے میں بیٹھا ہوں ، یہ خوشی اور یہ یادیں میں پوری زندگی نہیں بھول سکتا۔

About The Author