چند سال قبل بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پہ ایک مضمون پڑھا تو جیسے ذہن پہ نقش ہوگیا۔ یہ نجف اشرف کا ایک مختصر سفرنامہ تھا جس میں شہر کی زیارتی سرگرمیوں کی تفصیل تھی۔
اختتامی جملے میں مصنفہ ماہ پارہ صفدر نے بتایا کہ باب العلم کا لقب پانے والے امام علی علیہ اسلام کے روضے کے اطراف انہیں بہت تلاش کے باوجود کوئی لائبریری نہیں ملی۔ ہم پہلے ہی مذہب کو علم وحکمت سے جدا کرنے کا خمیازہ سماجی رویوں میں شدت پسندی کی صورت بھگت رہے ہیں سو اس تحریر نے میرا تجسس دو چند کر دیا۔
گذشتہ سال بس اچانک محسوس ہوا کہ بلاوا آیا ہے سو میں تنہا ہی نجف جا پہنچی۔ نجف میں ہفتہ بھر جس ہوٹل میں رکی وہ حرم مولا علی سے قریب تھا یوں سونے کے گنبد پہ نظر پڑتی رہتی تھی۔ خوش بختی یہ ہوئی کہ ہمارے عزیز نجف علی رضوی بھی دینی تعلیم کے لیے عرصے سے یہیں مقیم ہیں۔ معرفت والوں کی زندگیوں میں عجوبے ہوتے رہتے ہیں اب بھائی نجف علی رضوی کو ہی لے لیجیے، یہ ان کے نام کا اعجاز ہے کہ کراچی چھوڑ کر شہر نجف اشرف کے مستقل باسی بن گئے ہیں۔
میں نے نجف بھائی سے ملتے ہی شکوہ کیا کہ امام علی تو شعور و آگہی، حکمت و عرفان والوں کے مولا ہیں، پھر کیا وجہ ہوئی کہ ان کے شہر نجف اشرف میں لائبریری نہیں، نہ قلم نہ قرطاس نہ ہی قاری؟ میں نے اس کالم کا حوالہ دیا اور موبائل کھول کر تحریر ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے جواباً کہا کہ کل ساتھ چلیں جواب خود مل جائے گا۔
ہمارے یہاں مصیبت یہ ہے کہ چاہے مکے مدینے، نجف، کربلا، مشہد کہیں چلے جائیں سفر کے ثمرات کو صرف ثواب و عبادات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ جانے والوں کی اکثریت حرم میں نفل و فرض نمازیں ادا کر کے جیسے قرض اتار آتی ہے۔ زائرین مذہبی مصروفیات کے باعث نہ ان شہروں کی خوشبو محسوس کر پاتے ہیں نہ یہاں سانس لیتی تاریخ کو چھونے کی مہلت ملتی ہے۔
خیر میں نے زیارت کے ساتھ صحافت کی تقدیس کا علم بھی اٹھائے رکھا اور شہر نجف کی گلیوں کو کھنگالنے کا فیصلہ کیا۔ سورج بھی جیسے ساری توانائی اسی شہر پر وارنے کو تیار بیٹھا تھا۔ نجف کی صبحیں بھی اتنی گرم ہوتی ہیں کہ دن چڑھنے کا انتظار تو فضول تھا۔ فجر کے فوری بعد عراقی نان، تازہ پنیر اور قہوے کا ناشتہ کیا اور نجف بھائی کی لیڈری میں انبیا کا شہر دیکھنے نکل گئی۔
سب سے پہلےنجف کے علاقے حویش گئے جہاں تنگ گلیوں میں کتابوں کی درجنوں دکانیں ہیں۔ یہ بازار ان گنت کتابوں سے لدا ہے۔ بعض دکانوں میں گنجائش کم اور کتابیں زیادہ ہونے کی وجہ سے کتابوں کا ڈھیر گلی میں زمین پر دھرا تھا۔
سرسری جائزہ لیا تو زیادہ تر کتابیں عربی یا فارسی زبان میں تھیں۔ بچوں کی کتابوں کی دکانیں الگ، کہانیوں کے پلندے الگ، افسانے، ناول، شاعری کی کتابوں کا ایک کے اوپر ایک رکھی کتاب کا ٹاور الگ۔ نئی پرانی کتابوں کے اژدہام میں غلبہ دینی کتب کا تھا۔ نجف بھائی نے مقامی عربی لہجے میں کتب فروش سے انگریزی کتب کا پوچھا تو پتا چلا وہ صرف ڈیمانڈ اور آرڈر لکھوانے کی صورت میں منگوائی جاتی ہیں۔
نجف شہر کی بےترتیبی میں بھی ترتیب ہے۔ روضہ امام علی اک قلب کی صورت مرکز میں ہے جس سے سڑکیں اور گلیاں چھوٹی بڑی شریانوں کی صورت نکلتی ہیں۔ ہم روضے سے ملحق چند ایک گلیوں سے گزرے کہ سامنے مکتبہ الامام الحکیم کی تین منزلہ عالیشان عمارت تھی۔ یہ عراقی شیعوں کی مذہبی و سیاسی قیادت کرنے والے الحکیم خانوادے کی قائم کردہ پبلک لائبریری ہے۔ اسی خاندان کے مراجع محسن الحکیم نے جدید دور میں نجف کے حوزہ علمیہ کو نئی شناخت دی۔
عراق میں لائبریری اور کتاب گھر کو مکتبہ کہتے ہیں۔ مکتبہ الامام الحکیم میں قدیم کتب کا خزانہ ہے تو علوم دین کی جدید ادوار کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ دور نہیں جانا پڑتا کہ مکتبہ الجواد العلمیہ الادبیہ آ جاتا ہے۔ کتابوں سے لبالب لائبریری کا تفصیلی دورہ تو نہیں ہوسکا لیکن یہاں کتابوں میں غرق طالب علم دیکھ کر مجھے اپنے دیس پاکستان میں ویران کتب خانے یاد آگئے۔
ایک قدیم عربی کہاوت ہے کہ مصر لکھتا ہے، لبنان چھاپتا ہے اور عراق پڑھتا ہے۔ مسلسل سیاسی شورشوں کے باعث یہ خطہ علم و ہنر میں اپنی حیثیت کھو بیٹھا ہے لیکن کتاب سے رشتہ ابھی مکمل طور پر ٹوٹا نہیں۔ اپنی انگلیوں کو زبان سے نم کر کے کتابوں کے ورق پلٹتا عراقی یہ یاد ضرور دلاتا ہے کہ اس کی میراث صرف میدان جنگ نہیں علم و حلم بھی ہے۔
ہم نجف کی گلیوں اور انہیں آپس میں جوڑتی چھوٹی بڑی سڑکوں سے یہاں وہاں گزرتے رہے جہاں قدیم اور جدید تعمیرات ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ کچھ قدم کے فاصلے پر کسی نہ کسی نجی یا پبلک لائبریری، مدرسے یا ہوسٹل کا بورڈ ضرور نظر آجاتا۔جامعہ نجف لائبریری،امام حسن لائبریری،العربیہ لائبریری، مکتبہ الام امیر المومنین، مکتبہ الامام سبزواری یہ ان چند بڑی لائبریریوں کے نام ہیں جو مجھے یاد رہے۔ اور بہت ہوں گی جو میں دیکھ نہیں پائی۔
مرا شرف کہ تو مجھے جواز ِافتخار دے
فقیِر شہِر علم ہوں زکوۃ اعتبار دے
مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ ہم سستانے کے لیے حرم کے پاس قائم ایک ریسٹورانٹ میں جا بیٹھے جسےدو شامی بھائی عرصے سے چلا رہے ہیں۔ اب باتیں سنانے کی باری نجف بھائی کی تھی۔ اسلامی تاریخ کی خونیں جنگوں، فرقہ واریت اور سیاسی رسہ کشی میں کیسے نجف و بغداد کے کتاب گھر جلائے گئے وہ منظر یاد کر کے گرم قہوے کے ہر گھونٹ کے ساتھ افسوس کا کڑوا گھونٹ پی رہے تھے۔
سب سے آخر میں ہم نے رخ کیا نجف کی سب سے بڑی لائبریری کا جسے ڈھونڈنے کے لیے روضے کے اطراف طواف کرنے اور تلاش میں یہاں وہاں پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ روضہ امام علی کے اندر قائم مکتبہ روضہ الحیدریہ ہے جو تاریخی اعتبار سے سب سے قدیم لائبریری ہے۔
وسیع رقبے پہ پھیلی پانچ منزلہ عمارت میں صرف کتابیں نہیں تعلیم و ترویج کے شعبے سے متعلق کافی کچھ ہے۔ یہاں مرکز دستاویزات نجف اشرف ہے۔ اسی عمارت میں قدیم وضعیف کتابوں اور قرآنی نسخوں کو محفوظ کرنے کا شعبہ ہے۔
لکڑی کے شیلف قطار در قطار کھڑے ہیں جن کے دہانوں پر کتابوں کی تفصیل درج ہے۔ ریاضی، فزکس، ٹیکنالوجی، کیمیا، طب، علم نحو، اصول فقہ، ادبیات، حدیث و تفسیر نجانے کیا کیا کچھ۔ اسی ہال میں جگہ جگہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز لگا کر سروس ایریا بنا ہوا تھا جسے شاید ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مجھے خواتین کے ہال میں جاتے ہی اندازہ ہوا کہ یہاں صرف دینی مدارس کی طالبات نہیں آتیں۔ بعض میزوں پہ رکھے لیپ ٹاپ پر کچھ گرافکس اور شاید سائنسی مضمون سے متعلق مواد کھلا تھا۔ عربی آتی نہیں، ورنہ کسی لڑکی سے دو چار باتیں تو کر ہی لیتی۔ بعد میں نجف بھائی نے ہی بتایا کہ علما و مراجع کی تحقیق و تصانیف کے علاوہ نجف کے جڑواں شہر کوفہ کی سب سے بڑی کوفہ یونیورسٹی میں ہونے والی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے بھی اس لائبریری کی زینت بنتے ہیں۔ یہ مقالے سائنس کے بھی ہیں ادب و دین کے بھی۔
ہم روضہ حیدریہ لائبریری سے باہر نکلے تو ڈھلتی شام کی روشنی روضے کے دروازوں اور محرابوں پر لگے طلائی اور کاشی کے کام سے ٹکرا کر نئے رنگ دے رہی تھی۔ مجھے لگا شہر علم کا دروازہ تو روز اول کی طرح کھلا ہے، ہاں مگر علم و شعور کے متلاشی اپنی طلب و حیثیت کے مطابق عرفان حاصل کر رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر