دو ماہ کے طویل وقفے کے بعد بالآخر پیر کے روز سے قومی اسمبلی کاا جلاس شروع ہوگیا ہے۔عمران حکومت بحران کے دنوں میں پارلیمان سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ عوام کی نمائندگی کے بیشتر دعوے دار اس کی دانست میں سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔ ’’اجتماعی بصیرت‘‘ کے نام پر خود کو ’’باوقار‘‘ دکھانے کے ڈھونگ رچاتے ہیں۔
ہمارے ہاں مگر ’’آئین‘ ‘نام کی ایک کتاب بھی موجود ہے۔اس میں درج قواعد حکومت کو مجبور کردیتے ہیں کہ اگر اپوزیشن ارکان متحد ہوکر باقاعدہ تحریک کے ذریعے قومی اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کریں تو وہ مطلوبہ اجلاس کے انعقاد کا اہتمام کرے۔
گزشتہ ہفتے جب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا تو اس کالم کے ذریعے میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بڑھک لگادی تھی کہ پیر کے دن سے شروع ہوا اجلاس کرونا کے عنوان پر محض ایک تقریری مقابلہ ہوگا۔ وزراء اور اپوزیشن اراکین اس کے دوران ایک دوسرے پر گنداچھالیں گے۔ ’’عوامی نمائندوں‘‘ کے اجلاس سے اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
بہت دُکھ کے ساتھ پیر کی سہ پہر خود کو اس ضمن میں درست ثابت ہوا محسوس کیا۔ اس اجلاس کو پریس گیلری سے دیکھنے کی سہولت بہم پہنچانے والا کارڈ،پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ(PID)والوں نے کمال شفقت سے میرے گھر پیر کی دوپہر ایک بجے سے پہلے پہنچادیا تھا۔ گزشتہ جمعرات کی شب پارلیمانی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تنظیم سے مشاورت کے بعد 50سال سے زائد عمر والوں کو پیر کے روز پارلیمان کی عمارت سے دور رہنے کا مشورہ دیاگیا تھا۔ اس نیک نیت مشورے کا باعث یہ حقیقت تھی کہ کرونا وائرس بڑی عمر والوں کے لئے زیادہ جاں لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔اس حقیقت کو بہت دیانت داری سے تسلیم کرتے ہوئے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہ کرپایا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت 50سے 60برس کے درمیان والی عمر میں داخل ہوچکی ہے۔وہ اگر ایوان میں بیٹھنے کا رسک لینے کو تیار ہیں تو مجھ جیسے اپنے تئیں پاٹے خان بنے صحافی پریس گیلری سے دور کیوں رہیں۔ جنگوں اور دہشت گردی کو آفت زدہ مقامات تک پہنچنے کے بعد رپورٹنگ کرنے کے عادی رپورٹروں کو وباء کے موسم میں پریس گیلری سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔میری فریاد پر ہمدردی سے غور ہوا۔ پریس گیلری میں داخلے کی سہولت فراہم کردی گئی۔
پارلیمان میں داخل ہونے سے قبل صحافیوں کے لئے مگر یہ لازم ٹھہرادیا گیا کہ وہ کارپارکنگ میں خیمہ لگائے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے روبروپیش ہوں۔کروناکا ٹیسٹ کروائیں۔یہ ٹیسٹ آپ کے گلے میں Swabڈال کرلیاجاتا ہے۔یہ Swabبعدازاں کسی لیبارٹری کو بھیجے جاتے ہیں۔وہاں سے مثبت یا منفی نتیجہ آنے میں کم از کم تین دن درکار ہوتے ہیں۔
کرونا کا مفت میں میسر ٹیسٹ کروانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ربّ کے فضل سے گزشتہ تین ماہ سے ایک دن کے لئے بھی میرے بدن میں ایسی کوئی علامت نمودار نہیں ہوئی جو کرونا کے خوف میں مبتلا کردے۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر سے مسلسل مگر یہ خبریں آرہی ہیں کہ لوگوں کی بے پناہ اکثریت میں کرونا کی زدمیں ہونے کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ان کے ٹیسٹ ہوئے تو خون میں کرونا وائرس کی موجودگی ظاہر ہوئی۔ کرونا کی زد میں آئے ایسے افراد کو طبی زبان میں Asymptomaticکہا جاتا ہے۔ کئی حوالوں سے ایسا شخص وباء پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔کرونا کی علامات نظرنہ آنے کے سبب روزمرہّ زندگی میں متحرک رہتا ہے۔خود تو وباء سے محفوظ رہتا ہے مگر بہت سوں کو بحیثیت Carrierخطرے سے دو چار کردیتا ہے۔
طبی اصولوں کا تقاضہ ہے کہ کرونا کا ٹیسٹ دینے کے بعد اس کے نتیجے کا گھر میں بیٹھ کر انتظار کیا جائے۔ میں ہرگز سمجھ نہیں پایا کہ مطلوبہ ٹیسٹ دینے کے بعد میں اس کا نتیجہ دیکھے بغیر پارلیمان کی عمارت میں داخل کیوں ہوں۔فرض کیا میں بھی بہت سے لوگوں کی طرح Asymptomaticہوں تو میرا پارلیمان میں جانا کئی لوگوں کی مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔ اپنی پھنے خانی کو فراموش کرتے ہوئے لہذا سماجی اعتبار سے ذمہ داری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹھوس طبی اصولوں کی بنیاد پر اختیار کی یہ سماجی دوری میرے اندر موجود رپورٹر کے لئے بہت کوفت کا سبب ہوئی۔
مجھے گماں تھا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میرے کمرے میں نصب LEDکی وساطت سے براہِ راست دیکھی جاسکتی ہے۔ میرے اور آپ کے دئیے پیسوں سے چلایا پاکستان ٹیلی وژن تو ویسے بھی ’’سب پہ بالادست‘‘ ہونے کے دعوے دار ادارے یعنی قومی اسمبلی کی کارروائی براہِ راست دکھانا اپنی ذمہ داری تصور کرے گا۔
عمران حکومت کی جانب سے مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے کرونا پر بحث کا آغاز کیا۔ ان کی طولانی تقریر کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر ترین اور قدآور راہنما خواجہ آصف کو مائیک ملا تو پی ٹی وی نیوز ’’میراگھر-میری جنت‘‘ کے نام سے چلائے ایک ٹاک شو کو دکھانا شروع ہوگیا۔خواجہ آصف کی تقریر سننے کے لئے میں نے ریموٹ کے بٹن دبانا شروع کردئیے۔چند نجی چینلوں پر ان کی تقریر دکھائی جارہی تھی۔جیسے ہی مگر وہ عمران حکومت کے تلخ زبان میں لتے لینا شروع ہوئے تو ’’آزاد‘‘ چینل بھی ماہ رمضان کے لئے خصوصی طورپر تیار کئے پروگرام دکھانا شروع ہوگئے۔ کمرشل ادارے اشتہاروں کے ذریعے ایسے پروگرام تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔معاشی بحران کے موسم میں نجی سرماے سے چلائے چینلوں کے لئے شاید لازمی تھا کہ اپنی بقاء کے لئے اسمبلی کی کارروائی کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ پروگرام چلائے رکھیں۔
خواجہ آصف کو ان کی تقریر کے دوران یہ اطلاع مل گئی کہ پی ٹی وی پر ان کی تقریر دکھائی نہیں جارہی۔انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے گلہ کیا تو قاسم سوری نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی وی نے اسمبلی کی کارروائی دکھانے کے لئے ’’پارلیمان‘‘ کے عنوان سے ایک الگ چینل بنارکھا ہے۔وہاں خواجہ آصف کی تقریر دکھائی جارہی ہے۔میرے گھرجو کیبل لگی ہے اس کے ذریعے میسر چینلوں میں یہ چینل شامل نہیں۔میں ریموٹ کے بٹن دباتا اُکتاگیا۔ خفت مٹانے کو ایک ٹویٹ لکھی تو کسی مہربان نے ایک لنک بھیج دیا۔ پی ٹی وی کے مذکورہ چینل کی براہِ راست نشریات یوٹیوب کی بدولت اس لنک پر میسر تھیں۔ میں نے اپنے فون پر بقیہ تقاریر سنیں۔
اپنے کمرے میں تنہا بیٹھ کر قومی اسمبلی میں پیر کے روز ہوئی تقاریر کو بہت غور سے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عمران حکومت وباء سے نبردآزما ہونے کے لئے اپوزیشن کی ’’بصیرت‘‘ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔اس کا اصرار ہے کہ دُنیا کے امیر ترین ممالک کے مقابلے میں اس نے کرونا کو بے قابو ہونے سے روک لیاہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (NCOC)کے نام سے جو ادارہ قائم ہوا ہے وہ روزانہ کی بنیاد پر ٹھوس اعدادوشمار جمع کرتا ہے۔ان کی روشنی میں تمام صوبائی حکومتوں سے بھرپور مشاورت کے بعد متفقہ فیصلے ہوتے ہیں۔ان فیصلوں کی بدولت ہمارے ہاں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات عالمی اوسط کے مقابلے میں حیران کن حد تک کم تر رہیں۔ اموات کی اس شرح کے ہوتے ہوئے ملک بھر کو سخت ترین لاک ڈائون میں جکڑے رکھنے کا جواز باقی نہیں رہا۔اسی باعث اس میں نرمی لائی گئی ہے۔
عمران حکومت کا یہ اصرار بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کرونا کے بہانے اس کے خلاف بے بنیاد الزامات لگارہی ہیں۔اس بات کو بھلائے ہوئے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد فقط صوبائی حکومتیں ہی صحت عامہ کی بدولت نمودار ہوئے مسائل کی واحد ذمہ دار ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے اس ضمن میں سندھ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ بلاول بھٹو زداری سے گلہ کیا کہ اپنے نانا اور والدہ کے برعکس وہ وفاقِ پاکستان کو مضبوط تر بنانے کے بجائے ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیلناشروع ہوگئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر کے ذریعے چند ٹھوس واقعات کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ اصرار کیا کہ فقط سندھ حکومت ہی نہیں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی چلائی حکومتیں بھی اسلام آباد سے مناسب امداد میسر نہ ہونے کا شکوہ کررہی ہیں۔اپنی تقریر کے دوران کم از کم تین مرتبہ ہاتھ جوڑتے ہوئے پیپلز پارٹی کے جواں سال راہنما نے عاجزانہ انداز میں دہرایا کہ وہ وباء کے موسم میں کوئی سیاسی جنگ چھیڑنے کو تیار نہیں۔ وہ بہت خلوص سے خواہش مند ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب جو صحت کے وفاقی وزیر بھی ہیں بذاتِ خود وباء کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالیں۔ انہوں نے کمان سنبھال لی تو بلاول بھٹو زرداری انہیں غیر مشروط تعاون فراہم کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری کی دردبھری فریاد مگر رائیگاں کی مشق نظر آئی۔ ان کی تقریر کے فوری بعد مائیک مراد سعید صاحب کے حوالے کردیا گیا۔سوات سے منتخب ہوئے یہ جواں سال وزیر بلاول بھٹو زرداری کو بائونسر پھینکتے ہوئے شرمندہ کرنے کی مہارت کے حامل ہیں۔ اس مہارت نے انہیں وزیر اعظم صاحب کا چہیتا وزیر بنادیا ہے۔ ’’کپتان‘‘ کا وہ ’’بائونسر‘‘ جو اپنی وکٹ پر ڈٹے بیٹس مین کو میدان سے باہر جانے پر مجبور کردیتا ہے۔مراد سعید کے کھڑے ہوتے ہی اپوزیشن ایوان سے باہر چلی گئی۔ ’’اجتماعی بصیرت‘‘ کی تلاش کا سفر لہذا ٹائیں ٹائیں فش فش ہوگیا۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر