مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خیالی دنیا سے باہر نکلیں۔۔۔ عامر حسینی

اہلسنت کے برعکس جو شیعہ مسلمان ہیں ان کے نزدیک نیابت اور امارت یہ دونوں منصب مشاورت سے ملتے نہیں ہیں-

میں نے ابتک جتنا بھی مطالعہ کیا ہے ، اس نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچایا ہے کہ مذاہب اور ایک مذہب کے اندر موجود فرقوں کے درمیان جو بنیاد اختلاف اور ایک سے دوسرا فرقہ بننے کی ہے ، اسے یوٹوپیا میں تو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن وہ زمین پر وہ ہمیشہ موجود رہتی ہے اور جب بنیاد موجود رہتی ہے تو اس پر استوار مذہب یا فرقہ بھی موجود رہتا ہے- ہاں ایک فرد یا گروہ تبدیلی مذہب یا تبدیلی فرقہ کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں اور ایک یا ایک سے زائد فرد پہلے سے موجود مذاہب یا فرقوں سے ہٹ کر مذہب یا فرقہ بھی بنالیتے ہیں اگرچہ وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ کوئی پہلے سے موجود فرقہ یا مذہب یا پھر نیا فرقہ یا مذہب نہیں ہیں-

اسلام کی بات کیجیے تو آج جو سنّی اسلام ( بشمول تمام ذیلی فرقے) اور شیعہ اسلام ( بشمول تمام شیعہ فرقے) ان کی پروٹو اشکال پہلی صدی ہجری اور دوسری صدی ہھجری کے اوائل میں موجود ہیں-

سنّی اسلام اور شیعہ اسلام کی پہلی پروٹو اشکال وہ ہیں جو ثقیفہ بنو ساعدہ میں وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہونے والے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کے ایک اجتماع میں نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوال کے گرد ہوا- تاریخ میں یہ واضح ہے کہ پہلے انصار صحابہ کرام جمع ہوئے اور اس اجتماع کی خبر ملنے کے بعد مہاجر صحابہ کرام کی ایک جماعت وہاں پہنچی- اس اجتماع میں بنو ہاشم کے افراد نہیں تھے-

ثقیفہ بنوساعدہ میں انصار صحابہ کرام کے دو بڑے قبیلوں کی نمائندگی تھی یعنی اوس اور خزرج- جو انصار صحابہ کرام وہاں موجود تھے انہوں نے پہلے یہ خیال کیا کہ ان میں سے نائب ہونا چاہئیے- جب مہاجر صحابہ کرام کی جماعت وہاں پہنچی جس کی قیادت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کررہے تھے تو انہوں نے حدیث اور عام قبائلی روش دونوں کو بنیاد بناکر یہ دلیل پیش کی کہ لوگوں کی سرداری کا حق قریش کے لوگوں کو ہے اور انصار وزیر ہوسکتے ہیں، امیر نہیں- اس رائے سے انصار صحابہ کرام میں سے بنوساعد نے اختلاف کیا جن کے ثقیفہ / چوپال میں یہ اجلاس ہورہا تھا اور وہ اس سارے عمل سے الگ بھی ہوگئے- جبکہ باقی انصار اور مہاجر صحابہ جو موجود تھے انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر جن لیا- اس کے بعد اہلسنت کے ہاں عمومی اتفاق یہ ہے کہ بیعت عام ہوئی جو مسجد نبوی میں ہوئی اور وہاں بھی مدینہ کی اکثریت نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نائب رسول اللہ اور مسلمانوں کا امیر چن لیا- اہلسنت کے ہاں یہ بات ضرور تسلیم کی جاتی ہے کہ بنوہاشم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان سمیت کئی ایک بنوہاشم کے سرکردہ افراد نے کچھ عرصہ بعد بیعت کی- تاریخ میں چند ایک صحابہ کرام کے نام ملتے ہیں جن کا خیال یہ بتایا گیا ہے کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو امیر بننے کا سب سے زیادہ اہل سمجھتے تھے جن میں مقداد،صھیب، سلمان فارسی، عمار بن یاسر ، عبداللہ بن مسعود اور جابر بن عبداللہ انصاری کے نام ملتے ہیں- لیکن اہلسنت کے نزدیک ان صحابہ کرام نے بھی بیعت عام منعقد ہونے کے بعد بیعت کرلی تھی- تو اہلسنت کے نزدیک جمہور مدینہ و مکّہ میں موجود مہاجر اور انصار صحابہ کرام کی اکثریت نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اور امیر المومنین تسلیم کرلیا تھا اور اس سے جماعت کی بیعت مراد لی گئی اور جماعت کی بیعت پر اللہ کی رضامندی کا قیاس بھی قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں کیا گیا-

اہلسنت کا جمہور آج اس بات کا دعوے دار ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہ کرنے والا گمراہ اور چند ایک تو اس کے کفر تک چلے جاتے ہیں- اور جب حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو اہلسنت کے نزدیک ان دس صحابہ کرام میں سے ایک ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی کے اور ان کے ساتھیوں اور خانوادے کے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کی بیعت نہ کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ان کے شرف صحابیت کے سبب جمہور اہلسنت ان کے خلاف کوئی بھی بات کرنے کو بھی بے ادبی قرار دیتا ہے- اہلسنت نے اصول یہ بنالیا کہ صحابہ کرام کے ہاں گناہ صغیرہ و کبیرہ کا صدور ہو بھی جائے تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیا جائے گا، شرف صحابیت کے سبب ان پر حرف طعن نہیں کیا جائے گا- لیکن ان سے ہٹ کر چاہے تابعی کیوں نہ ہو اگر وہ خلفائے راشدین کو نہیں مانیں گے تو ان کی مذمت بھی ہوگی اور ان کو دائرہ جماعت سے بھی خارج خیال کیا جائے گا- صحابہ کرام کو کافر قرار دینا ان کے ہاں کفر ہے اور ان کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا حرام ہے-

اہلسنت کے برعکس جو شیعہ مسلمان ہیں ان کے نزدیک نیابت اور امارت یہ دونوں منصب مشاورت سے ملتے نہیں ہیں- ان کے نزدیک مسلمانوں کا امام بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی مشاورت سے نہیں بلکہ ‘نص’ سے بنتا ہے-اور یہ نص شیعہ مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے بعد مدینہ واپس لوٹتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے حق میں اعلان عام کی شکل میں دے ڈالی تھی- اس کے علاوہ بھی وہ کئی اور دلائل اور شواہد اپنے دعوے کے ثبوت میں لاتے ہیں اور ان کے نزدیک جمہور مدینہ و مکّہ کے مسلمانوں نے وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنی مشاورت سے امام و امیر المومنین کا انتخاب کرکے نص اور اپنے عہد سے انحراف کیا اور وہ اسی لیے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی اور امامت اور امارت کا سزاوار خیال نہیں کرتے-شیعہ مسلمانوں کے نزدیک جس جس نے بھی امامت کا انکار کیا وہ جماعت سے خارج ہوگیا- اور اس ماملے میں ان کے ہاں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے-

شیعہ مسلمانوں کے اس نظریہ نص پر اہلسنت کی جانب سے جہاں سینکڑوں اتراضات وارد کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر امامت و نیابت و خلافت منصوص من اللہ تھی حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نامزد مجلس شوری میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ حضرت علی المرتضی اور ان کا خاندان فتوحات کے نتیجے میں مال غنمیت سے حصّہ کیوں لیتا رہا؟ اور سب سے بڑا حضرت علی المرتضی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسی طریقے سے مسلمانوں کا خلیفہ بن جانا اور امیر المومنین بن جانا کیوں قبول کیا جس طریقے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر دیگر صحابہ کرام خلفاء بنے تھے؟ اہلسنت یہ سوال بھی اہل تشیع کے سامنے رکھتے ہیں کہ اگر خلفاء ثلاثہ کی خلافت نص کے انکار اور انحراف پر استوار ہوئی تھی تو حضرت عمار یاسر نے حضرت عمر کی طرف سے کوفہ کی گورنری کو کیوں قبول کیا تھا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانے میں بیت المال کی ذمہ داری کیوں قبول کی اور ایسے ہی حضرت سلمان فارسی اور حضرت عمار کوفہ شہر بسانے کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم پر عراق کیوں چلے آئے تھے؟ شیعہ مسلمان اسکالر ان سب اعتراضات اور سوالوں کے جوابات اپنی طرف سے دیتے آئے ہیں- ایک بڑا اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ‘نص’ یا ‘امام منصوص من اللہ ہوتا ہے’اس بات کا تذکرہ تواریخ میں پہلی صدی ھجری میں پہلی بار امام باقر یا پھر امام جعفر صادق کے زمانے میں سننے کو کیوں ملتا ہے؟ اس سوال پر بھی شیعہ مسلمانوں کے ہاں جوابات کا ایک انبار موجود ہے-

آگے چل کر خلافت کے حوالے سے خود اہلسنت کے اندر بھی اختلافات نے جنم لیا اور اگرچہ جمہور اہلسنت عقیدے کے اعتبار سے چار خلفاء کی حکومت کو خلافت علی منھاج النبوت اور ان چار کو خلفائے راشدین و مہدین قرار دیتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کے ہاں بعد ازاں زبردستی قابض ہونے والا بھی خلیفہ قرار پایا اور کراہتا ہی سہی اس کی بیعت کو بھی لازم قرار دے دیا گیا-

شیعہ مسلمانوں میں بھی نص کو لیکر اختلاف امام حسین کے بعد سے ہی پیدا ہوا- ایک گروہ نے نص محمد بن حنفیہ کے حق میں دیکھی اور پھر کئی ایک نے نص امام حسن کی اولاد میں دیکھی لیکن سب سے بڑا اختلاف جس نے شیعہ مسلمانوں کے دو بڑے مکاتب فکر کی آگے چل کر بنیاد رکھ دی وہ حضرت امام جعفر کے بعد امامت کا سزاوار کون ہے کے سوال پر ہوا- ایک بڑا گروہ حضرت اسماعیل کی امامت کا قائل ہوا تو دوسرا گروہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی امامتکا قائل ہوا اور یہ جمہور شیعہ مسلمانوں کے آج بھی دو بڑے گروہ ہیں جو اسماعیلیہ اور جعفریہ کے نام سے منسوب ہوئے-

جعفریہ مسلمانوں میں بھی نص بارھویں امام تک چلی جو امام مھدی علیہ السلام ہیں اور یہ امام زمانہ ہیں، ان کے بعد کوئی امام نہیں ہے اور اسی مناسبت سے جعفریہ اثناعشریہ بھی کہلاتے ہیں اور اسماعیلی و جعفری ان سب کو شیعہ امامیہ بھی کہا جاتا ہے-

غیبت امام کے زمانے میں اثناعشری کیسے اپنی سماجی زندگی کے نظم کو برقرار رکھیں گے ، اس سوال نے بھی اثناعشری مسلمانوں میں کافی اختلاف کو جنم دیا اور اسی تناظر میں ولایت فقیہ کا تصور بھی سامنے آیا-

میں نے اسلام کے دو بڑے دھاروں سنی اسلام اور شیعہ اسلام کا یہ مختصر سا تعارف اور ان میں موجود پیچیدگیوں کی طرف اشارہ اس لیے دلایا ہے کہ یہ بات واضح کرسکوں کہ ان کے درمیان تقریب کی یہ بنیاد تلاش کرنا کہ ان دونوں دھاروں میں سے کوئی ایک دھارا اپنی بنیاد سے دستبردار ہوجائے اور دوسرے دھارے کی مطابقت میں اظہار خیال کرے یہ ایک یوٹوپیا ہے جو کبھی بھی پورا نہیں ہوگا- یہ دونوں اپنے مختلف اظہار کے بغیر اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتے- اور یہ دونوں دھارے جب سے وجود میں آئے ہیں ان کو ختم کوئی نہ کرسکا ہے نہ کرسکے گا- پہلا دھارا خلافت اور اس کی تقدیس سے دست بردار نہیں ہوگا اور دوسرا دھارا امامت کی تفدیس سے دست بردار نہیں ہوگا- پہلے دھارے کی مقدس خلافت دوسرے دھارے کے نزدیک ‘نص’ سے انحراف پر مبنی ہے- اور وہ اسے کسی صورت مقدس نہیں تسلیم کریں گے- پہلا دھارا اس سے کبھی اتفاق نہیں کرے گا- تو ایسے میں ‘ جیو اور جینے دو’ کی پالیسی ہی بہترین پالیسی ہے۔ تقریب بین المذاہب یا تقریب بین المسالک کا یہ تصور کہ اختلاف کی بنیاد کو ہی نظر انداز کردیا جائے یہ منافقت کے ساتھ تو کہیں وقتی طور پر نافذ ہوجائے تو ہوجائے وگرنہ عملی طور پر یہ تصور ایک یوٹوپیا ہے جو قابل عمل نہیں ہے- اس کا مغربی دنیا نے تو یہ حل نکال لیا کہ ریاست کو مذہب کے کاروبار میں دخل دینے سے بالکل منع کردیا جائے- ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہ ہو- لیکن شیعہ اور سنّی اسلام کی مذہبی پیشوائیت کی اکثریت ریاست، حکومت اور سیاست سے مذہب کو الگ کر نے پر رضامند نہیں ہیں-

ہمارے ٹی وی چینلز پر جب کبھی مختلف مسالک کے علماء کو لیکر کوئی بھی مذہبی پروگرام کیا جاتا ہے جیسے رمضان میں سحری و افطار پروگرام تو اکثر و بیشتر تقریب کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتی ہے اور بہتری کی صورت اور خرابی کی شکل میں نکل آتی ہے- جیسے حال ہی میں ایک بار پھر ایکسپریس نیوز ٹی وی پر عامر لیاقت حسین کے ٹی وی پروگرام کے دوران دیکھنے میں آیا-

میں اگر سنّی اسلام کا پیرو ہوں تو مجھے یہ اندازہ ہونا چاہئیے کہ میں شیعہ اسلام کے پیرو سے یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ خلافت سے لیکر باغ فدک تک اور ایسے ہی عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تک باب میں ویسی گفتگو یا کلام کرے گا جو میرے نزدیک ٹھیک ہے کیونکہ اگر وہ میرے مطابق گفتگو کرے گا تو پھر وہ شیعہ اسلام کا پیرو کیوں کر کہلوائے گا؟ اور یہی بات اس کے الٹ بھی ہے۔

%d bloggers like this: