تاریخ عالم کا بد ترین سانحہ کورونا ہماری آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے ۔ اس کی تباہ کاریاں یکطرفہ نہیں بلکہ شش جہات ہیں ۔ لوگ صرف کورونا سے نہیں مر رہے بلکہ اس کے اثرات شعبہ ہائے زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔
شیخو پورہ میں دل خراش واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے ، بچوں کے جھگڑے میں 8 آدمیوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ اگر نفسیاتی پہلو سے دیکھا جائے تو اس واقعے کی کڑیاں بھی کورونا کی ذہنی پریشانی سے جا ملیں گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوک کی موت کورونا سے بھی بد تر ہے۔ بھوک سے مرنے والوں کے واقعات پوری دنیا میں بکھرے پڑے ہیں ، مگر ایک واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ وہ واقعہ ہے بھارت کے شہر اورنگ آباد کا جہاں 16مزدوروں کو ریلوے ٹرین نے کچل کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ مودی سرکار کی بد ترین نا اہلی کا ثبوت کس طرح ہے ، اس بارے ہم آگے چل کر بات کرتے ہیں ۔ سرِ دست میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مزدوروں کا مسئلہ پوری دنیاکے ساتھ جڑا ہوا ہے، آج روٹی ، کپڑا ، مکان کے نعرے نے بھی اپنا مفہوم تبدیل کر لیا ہے ۔
اب فرد کی روٹی کی بجائے محروم خطے کے تمام لوگوں کیلئے غربت و پسماندگی کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں غربت و بے روزگاری کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے ۔
اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے کیا تھے ، ہوا کیا ہے؟ مہنگائی اور بد امنی نے ستیا ناس کر دیا ہے ، وسیب کا مزدور اور عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ اشیاء ضرورت کی قلت کا فائدہ ہمیشہ سرمایہ دار کو ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں اداروں سے ملازمین کی سب سے زیادہ بر طرفیاں ہوئیں ۔ مزدور اور دیہاڑی دار پہلے ہی تباہ تھے ،رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی ۔ علامہ اقبال نے خوب کہا : تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات یہ ٹھیک ہے کہ علامہ اقبال نے قادر مطلق سے بندہ مزدور کے حالات کی تنگدستی کا شکوہ کر دیا اور بتا دیا کہ ’’ ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات ‘‘ لیکن اب بات آگے کی سوچنی ہے کہ بندہ مزدور کی اوقات اور اس کے حالات کیسے تبدیل کئے جا سکتے ہیں؟
کورونا نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، اب غریب مزدوروں کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ غربت اور امارات کے درمیان جو فاصلے بڑ ھ رہے ہیں ، وہ اتنے بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں کہ شاید اس کا ادراک حکمرانوں کو بھی نہ ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غربت کے خاتمے کے حوالے سے باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں ، قبل اس کے غربت کے مارے لوگ خودکشیاں چھوڑ کر خود کش بن جائیں ۔
ہندوستان میں مودی سرکار نے بد ترین لاک ڈاؤن لگایا ہوا ہے ، سڑکوں پر لوگوں کو پیدل چلنے کی اجازت بھی نہیں۔ ہندوستان کے شہر اورنگ آباد کا واقعہ اس طرح ہے کہ اسٹیل کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور لاک ڈاؤن سے پریشان ہو کر اپنے گھر لوٹ رہے تھے ، خوف کے باعث انہوں نے سڑک کی بجائے ریلوے لائن پر رختِ سفر باندھا ۔ 36 کلومیٹر پیدل سفر کرنے کے بعد وہ تھکاوٹ سے چور ہو گئے اور ریلوے پٹری پر ہی آرام کرنے کیلئے لیٹ گئے ، علی الصبح ایک مال ٹرین تیزی سے آئی ، ڈرائیور نے ہارن دیئے ، ان میں سے ایک دو شخص جاگ گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جگانے کی بہت کوشش کی مگر تیز رفتار ٹرین نے سوئے ہوئے مزدوروں کو کچل کے رکھ دیا ۔
یہ حادثہ اورنگ آباد سے 30 کلومیٹر دور گرماڑ کے علاقے میں پیش آیا ۔ 16 مزدور کے اعضاء ٹکڑوں میں بکھر گئے اور ریلوے ٹریک لہور نگ ہو گیا ۔ جب خلقِ خدا موقع پر پہنچی تو ان کی چیخیں نکل گئیں کہ انسانی لوتھڑوں کے ساتھ ساتھ رومالوں میں بندھی ہوئی روٹیاں بھی ٹکڑے ہو گئیں جو کہ مزدوروں کی بے کسی اور بے چارگی کا قصہ بیان کر رہی تھیں کہ جو مزدور دو وقت کی روٹی کیلئے کارخانوں میں کام کرنے گئے تھے ، وہ روٹی بھی ان کو نصیب نہ ہو سکی ۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی عمریں 20 سے 35سال کے درمیان تھیں اور یہ لوگ مدھیہ پردیش سے تعلق رکھتے تھے ۔
اس واقعے نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، شگاگو میں مزدوروں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا ، یہ واقعہ بھی اس کا تسلسل ہے ، صرف حالات و واقعات مختلف ہیں ۔ اس واقعے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پھٹکار پڑ رہی ہے کہ وہ مسلم دشمنی میں اندھے ہو چکے ہیں ، باقی ان کو کچھ نظر نہیں آتا۔ایک ہندی شاعر نے اس واقعے کو نظم میں قلم بند کیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے ۔ حادثہ نہیں ہے/یہ تو خودکشی ہے صاحب اور جو کٹی پھٹی لاشیں پڑی ہیںنہ پٹڑی پر/خول ہیں کیول موت تو اسی دن آ گئی انہیں جب لوہے کی فیکٹری کے دروازے بند ہوئے تھے/جب کہا گیا تھا ان سے ابھی کام نہیں ہے/چاہو تو گاؤں لوٹ جاؤ …… یہ حادثہ نہیں ہے/یہ خودکشی ہے صاحب ورنہ مزدور/کہاں ایسی نیم بیہوشی کی نیند سوتے ہیں /کہاں ایسے ہوش کھوتے ہیں کہ مال گاڑی سے تھرتھراتی پٹریاں اور وہ جاگ بھی نہ پائے …… حادثہ نہیں /خودکشی ہے صاحب وہ جانتے تھے بھساول سے مل جائے گی ریل/یہ جانتے تھے کہ جلپور تک پہنچ بھی جائیںگے/لیکن گھر گاؤں پہنچنے کے بعد پھر پیٹ آڑے آئے گا یہ روٹی جو پٹریوں پر چھوڑ گئے اس کا سوال اب حل نہیں ہو پائے گا …… حادثہ نہیں /خودکشی ہے صاحب جب ریل تک پہنچنے پہنچتے دم پھول گیا /تو لاش بن کر ریل میں آئیں گے جیتے جی تو مٹی تھے/پھر مٹی ہو جائیں گے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر