’’شاہ کا مصاحب‘‘ ہونا میرے نصیب میں نہیں۔بطور صحافی البتہ اس بات پر بہت اِتراتا رہا کہ نسبتاََ جواں سالی سے انگریزی میں ایک نئی طرز کا کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی اس کا موضوع ہوا کرتی تھی۔اسے اخبار کے صفحۂ اوّل پر View from the Press Gallery کے عنوان سے چھاپا جاتا۔
ہمارے شعبے کے چند جید بزرگ جن کا میں آج بھی دل سے احترام کرتا ہوں مذکورہ کالم کے صفحۂ اوّل پر چھاپنا صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی شمار کرتے تھے۔ان کا اصرار تھا کہ اخبارات کے پہلے اور آخری صفحات جنہیں ہم اپنے دھندے میں Outer Pagesپکارتے ہیں فقط خبروں کے لئے وقف ہوتے ہیں۔کالم کئی حوالوں سے مضمون نگاری ہی کی ایک صنف ہے۔ان کے ذریعے ہوئی یاوہ گوئی اندرونی صفحات کے کسی گوشے میں سمائی جائے۔مشاہد حسین سید میرے ایڈیٹر تھے۔اپنے مخصوص انداز میں ڈٹے رہے۔ناقدین کو یاد دلاتے رہے کہ میرا کالم مضمون نویسی نہیں۔ زبان وبیان کے کمالات بھی نہیں دکھاتا۔اس کی بدولت مگر قارئین کو بے شمار ایسی خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو ضیاء کے مارشل لاء کی متعارف کردہ سنسر شپ کی بدولت ’’خبر‘‘ لکھنے کے روایتی انداز میں بیان کی ہی نہیں جاسکتیں۔ بتدریج دیگر انگریزی اخبارات نے بھی ’’پریس گیلری‘‘ والے کالم لکھوانا شروع کردئیے۔ میں اِن دنوں بھی پارلیمان کے اجلاس کی بابت The Nationکے لئے یہ کالم لکھتا ہوں۔کرونا کی وجہ سے مسلط ہوئے لاک ڈائون نے پارلیمان کو بھی مفلوج بنادیا۔ اپنے گھر تک محدود ہوا محض یہ کالم لکھتا رہا۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تو جی بہت خوش ہوا۔ دل کو بہت تسلی ہوئی کہ اپنے ’’اصل میدان‘‘ میں کھیلنے کا موقعہ ملے گا۔
وباء کے موسم میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کے لئے احتیاطی اہتمام ہر صورت ضروری تھا۔ اس ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بے چینی سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ کرونا کے دنوں میں بلائے اجلاس کی کوریج کے لئے صحافیوں کے لئے کیا ضابطہ کار طے ہوا ہے۔ گزشتہ جمعرات کی شب بالآخر دریافت ہوا کہ پارلیمان کی انتظامیہ اور پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشنز کی باہمی مشاورت سے یہ طے ہوا ہے کہ 50سال سے زائد عمر والے صحافی پیر کے روز سے شروع ہونے والے اجلاس کی کوریج کے لئے پارلیمان کی عمارت میں آنے سے ’’گریز‘‘ کریں۔ اس لفظ کا استعمال واضح پیغام دے رہا تھا کہ مجھ جیسے صحافی کو جو ساٹھ سال سے تجاوز کرچکا ہے پارلیمان کی عمارت میں داخلے کو ممکن بنانے والا پریس کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔اس اطلاع نے دل دہلادیا۔ زندگی میں پہلی بار بڑھاپے کی بدولت اپنے ’’ناکارہ‘‘ ہونے کا احساس ہوا۔ کرونا جو نئی طرز حیات مسلط کررہا ہے اس کی سنگینی کا ذاتی حوالے سے حقیقی ادراک ہوگیا۔ اداس دل کے ساتھ ایک ٹویٹ لکھ دیا۔ عاجزی سے یہ حقیقت مان لی کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو وباء کے موسم میں شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ سوال اٹھانے سے مگر باز نہ رہا کہ قائد ایوان یعنی عمران خان صاحب کی عمر کیا ہے۔ بعدازاں خیال یہ بھی آیاکہ قائد حزب اختلاف یعنی شہباز شریف صاحب بھی ساٹھ سال پار کرچکے ہیں۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے بغیر قومی اسمبلی کا تصور ہی نہیں جمتا۔ ان کا ا یوان میں ہمہ وقت موجود رہنا ہرگز ضروری نہیں۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران کئی مراحل مگر ان کی موجودگی کے بغیر بے لگام ہوجاتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے 342اراکین ہیں۔ ان کی اکثریت 50سے 70سال کی درمیانی بریکٹ میں ہے۔ پچاس سال پار کئے اراکین اسمبلی اگر وباء کے موسم میں ایوان میں بیٹھنے کو آمادہ ہیں تو اس عمر کے صحافیوں کو پریس گیلری میں جانے سے ’’گریز‘‘ کا مشورہ کیوں دیا جارہا ہے۔دُکھی دل سے لکھے اس ٹویٹ سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر چھائے محبانِ وطن بہت خفا ہوگئے۔ ان کی اکثریت نے اطمینان محسوس کیا کہ ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کو پارلیمان سے دور رکھنے کا بندوبست ہوگیا۔ قائد ایوان کی عمر پوچھنے والے سوال پر وہ بہت ہی ناراض ہوئے۔ اس امر پر ناگوار حیرت کا اظہار کیا کہ دو ٹکے کے صحافی خود کو وزیر اعظم کے برابر دکھانے کی جرأت کررہے ہیں۔خان صاحب کے Staminaاور سپورٹس مین والی اولعزمی کا ذکر بھی ہوا۔ چند ایک کو ان کی ایمان داری بھی یاد دلانا پڑی جو کرونا سے حفاظت کو ربّ کریم کے فضل سے یقینی بنادے گی۔ وطنِ عزیز کو ’’بکائوصحافت‘‘ سے پاک کرنے کو بے چین باصفا اپنے قائد کی عقیدت میں یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ وزیر اعظم سے تقابل ہرگز مقصودنہیں تھا۔ رپورٹنگ کے چند بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔ Groundپر موجود ہونا ان کا پہلا اصول ہے۔ ٹی وی متعارف ہوجانے کے بعد قومی اسمبلی کی بیشتر کارروائی اکثر Liveبھی دکھائی جاتی ہے۔ اس کارروائی کو رپورٹ کرنے کے لئے جواں سال Beat Reporter ہمہ وقت متحرک ہوتے ہیں۔ پریس گیلری لکھنے والا صحافی اپنے کالم کا مواد مگر اسمبلی میں جاری کارروائی ہی سے جمع نہیں کرتا۔ اسے یہ جاننے کی ترغیب ہوتی ہے کہ کارروائی کے دوران جن موضوعات کو بھرپور توجہ ملی ان موضوعات کی حکومت یا اپوزیشن کی نظر میں اتنی اہمیت کیوں تھی۔ اسمبلی میں جو ہوتا نظر آیا اس کے پیچھے اصل کھیل کیا ہے۔ حکومت کیا بتانا اور کیا چھپانا چاہ رہی ہے۔ وہ کونسے سوالات تھے جنہیں اپوزیشن کی جانب سے ہرصورت اٹھانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ کارروائی کے دوران اگر ان سوالات پر زور نہیں دیا گیا تو حکومت نے اپنے کن وزیروں کے ذریعے کس نوعیت کے وعدے کرتے ہوئے اپوزیشن کو خاموش یا نرم روی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ پارلیمان کی عمارت میں داخل ہوئے بغیر آپ اجلاس کی کارروائی کے پیچھے موجود محرکات کو جان ہی نہیں سکتے۔ قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھتے ہوئے رپورٹر کے ذہن میں فوری طورپر جو سوالات امڈتے ہیں ان کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنے کے لئے پارلیمان کی راہداریوں میں کھڑے ہوکر متحرک وزیروں یا اپوزیشن کے اہم رہ نمائوں کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ آپ سے جند چھڑانا چاہ رہے ہوں ان کا ڈھٹائی سے تعاقب کرنا ہوتا ہے۔ ڈھٹائی والی یہ اذیت ومشقت ہی آپ کو ’’حقیقی خبروں‘‘ کی بابت چند اشارے فراہم کرتی ہے۔ اسمبلی کارروائی ٹی وی پر Liveدکھائی جارہی ہو تو کیمروں کا فوکس تقریر کرنے والے پرمرکوز رہتا ہے۔پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے مگر آپ خاموش بیٹھے وزراء اور اہم اپوزیشن رہ نمائوں کی بدن بولی پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومتی صفوں کے آخری بنچوں پر اکثر چند ’’ناراض‘‘ اراکین جمگٹھا لگائے سرگوشیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہ جمگٹھا آپ کو یہ معلوم کرنے پر اُکساتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کیا ’’کھچڑی‘‘ پک رہی ہے۔
اپوزیشن کی صفوں میں سے اکثر چند اراکین اپنی نشستوں سے اُٹھ کر چند وزراء کی دلجوئی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کا رویہ آپ کو یہ جاننے میں مدد دیتا ہے کہ مذکورہ رکن کی ’’گوٹ‘‘ کہیں پھنسی ہوئی ہے۔ اسے کسی مشکل کے حل کے لئے حکومتی توجہ درکار ہے اور مطلوبہ توجہ یک طرفہ فراہم نہیں ہوتی۔ اس کالم کے ذریعے میرے لئے ممکن ہی نہیں کہ تفصیلات سمیت وہ تمام باتیں بیان کروں جو خبر کی تلاش کے لئے ایک صحافی کو بنفس نفیس پارلیمان کی عمارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران موجود ہونے کو مجبور کرتی ہیں۔ کئی حوالوں سے شاید بہت تلخ مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کرونا کے بعد زندگی کے تمام ترشعبوں کے اطوار ویسے نہیں رہیں گے جیسے اس وباء کے مسلط ہونے سے قبل شاید صدیوں سے موجود تھے۔ بات فقط ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز تک ہی محدود نہیں رہی۔Stay at Home کا دور آگیا ہے۔ لوگوں سے رابطے کے لئے Smart Phones ہیں۔ کانفرنس کالز ہیں۔ Zoomایک Appتھی۔ اب انگریزی زبان کا Verbہوگئی ہے۔ خبرکے متلاشی صحافی کے لئے مگر یہ Digital Appsسہولت کار نہیں پائوں کی بیڑیاں ہیں۔ گوگل،ایپل، فیس بک اور ٹویٹر آپ کو اظہار کے بے پناہ مواقع دیتے ہیں۔
ان تمام Appsکا استعمال مگر آپ کو رازداری اور Privacyسے قطعاََ محروم کردیتا ہے۔ آپ کی جیب میں موجود سمارٹ فون دورِ حاضر کا سب سے خوفناک ’’مخبر‘‘ ہے۔ اس کے ذریعے یہ چھپانا ممکن ہی نہیں رہا کہ ’’خبر‘‘ وغیرہ جاننے کے لئے آپ نے کن لوگوں سے رابطہ کیا۔ ان سے ملاقات کے لئے کس وقت اپنے گھر سے نکلے اور کس مقام پر کونسے شخص سے ملاقات کی۔ کرونا کی زد میں آئے لوگوں کی جس انداز میں “Tracing”ہوئی اسے جاننے کے بعد آپ کو دورِ حاضر کے رپورٹر کی مجبوریاں بخوبی سمجھ میں آجانا چاہئیں۔ 60سال پار کرنے کے باوجود میں دستانے چڑھاکر منہ پرماسک لگائے پارلیمان کی عمارت میں داخل ہونے کو بے چین ہوں۔ میری جان بچانے کے نیک ارادے سے مجھے پیر کے روز سے جاری ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھنے سے گریز کا مشورہ نہ دیا جائے۔ پارلیمان کی عمارت سے گریز کرتے ہوئے جان بچا بھی لی تو ’’خبر‘‘ ڈھونڈ نہیں پائوں گا اور میرے رزق کا واحد ذریعہ خبر کی تلاش ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر