قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا خدا کے سیفد کالر بندوں کی اعلیٰ ظرفی کہ ملک کا وہ طبقہ جو حکومتی اداروں کو ٹیکسز بھر بھر کہ پیش کر رہا ہوتا ہے نہ صرف اپنے منافعے سے جبکہ ان کمپنیز میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ میں سے بھی انکم ٹیکس ادا کیا جاتا ہو وہ بھی تنخواہ دیے جانے سے پہلے ہی.
خواہ ملازم کی ٹیکس ادا کرنے کی خواہش ہو یا نہ یہ ٹیکس حکومت کو جانا ہی ہوتا ہے اور ایسا کمپنی اپنی ساکھ و کاروبار بحال رکھنے کے لیے خود ہی کر رہی ہوتی ہیں.
اس پوری صورتحال میں اگر کسی کا کوئی پرسان حال نہیں تو وہ صرف یہ طبقہ ہے جو کہ چھوٹی بڑی کمپنیز کے مالک ہیں جن میں لوکل اور انٹرنیشنل بزنس آپریشز دونوں ہی شامل ہیں جس کے لیے نہ کسی پیکیج کا کوئی تصور ہے نہ ہی ایسا کوئی امکان پر اخراجات ان کے بھی ویسے ہی ہیں ملامزمین کو تنخواہ انہوں نے بھی دینی ہے اور سب سے زیادہ تنخواہ ایسی پرائیویٹ کمپنیز ہی ادا کرتی ہیں۔ اخراجات میں صرف تنخواہیں نہیں اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔
صنعتی ادارے بھی اپنے کاروبار کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مطلوبہ چندہ ادا کر کے این او سی حاصل کر لیا جائے اور کام جاری ہو اور انہیں مشروط اجازت مل بھی رہی ہے۔
چھوٹے یا بڑے انفرادی یا اجتماعی تاجر حضرات جن کی دکانیں ریٹیل مارکیٹس میں آتی ہیں وہ بھی حکومت کے ساتھ دست و غریباں ہیں کہ ہمیں کاروبار کھولنے دیا جائے اور حکومت ان کی بات سن بھی رہی مان بھی رہی ہے جبکہ روزانہ لاکھوں کا کیش کاروبار کرنے والے یہ تاجر حضرات حکومت کو کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں یہ بھی سب کو معلوم ہے۔
اکثریت کا تو بزنس رجسٹرڈ ہی نہیں ہے آج تک۔
اس کے باوجود حکومت ان لوگوں کے لیے پریشان بھی دکھائی دیتی ہے پیکیجز کے اعلانات بھی ہورہے ہیں کرائے اور بجلی وغیرہ کے بلوں میں بھی رعایت دی جا رہی ہے اور ساتھ ہی کاروبار کو کھولنے کی اجازت بھی مل رہی ہے۔۔
یہ ہی معاملہ ہر اس انڈسٹری کا ہے جن کی کوئی نہ کوئی یونین ہے یا جن کے پاس افرادی قوت ہے. اس میں ٹرانسپورٹرز حضرات بھی ہیں اسکول مالکان بھی ہیں غرض کہ ہر وہ شعبہ ہائے زندگی حکومتی ایوانوں پہ دسکت دیتا پایا جارہا ہے جن کے پاس سڑک پہ مظاہرہ کرنے کے لیے افراد ہیں اور حکومت کو پریشرائز کرنے کے مطلوبہ طاقت۔
کھولی جانے والی صنعتوں میں پہلے سے ورکرز یونینز ہیں جو اپنے مزدور بھائیوں کے لیے مالکان سے جھگڑا مول لینے کے لیے تیار ہیں کہ کسی کی روزی روٹی کا معاملہ تنگ نہ ہو پھر بھی حالات اتنے اچھے ان کے بھی نہیں ہیں.
کاروبار میں کمی اور اخراجات میں اضافہ کوئی بھی سیٹھ برداشت نہیں کر سکتا اس لیے ملازمیں کو نکالنا ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔
تعلیمی میدان میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو کہ آفٹر مارکیٹ ایجوکیشن انڈسٹری میں شمار کیا جا سکتا ہے جس میں کوچنگ انسٹیٹیوز اور کمپیوٹر سمیت مخلتف اقسام کے اسکلڈ بیسڈ کورسز سکھانے والے ادارے شامل ہیں جو کہ ملک میں حقیقی جدت اور ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے ضامن ہیں. ان کا بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے!
کوئی حکمرانوں کو بتائے کہ ان کو بھی کرایہ، یوٹلٹیز کے بلز کے ساتھ اسٹاف کی تنخعاہیں بھی ادا کرنی ہیں خداراہ ان کی طرف بھی نظر کی جائے ان کے لیے بھی کچھ سوچا جائے کوئی پیکیج یا کسی طرح کام کرنے کی اجازت دی جائے یا طریقہ کار طئے کیا جائے.
آنلائن کا کلچر ہمارے ملک میں اتنی جلدی نہیں پنپ سکتا صاحب چہ جائیکہ ادارے پہلے سے ہی اس کے لیے عمل کوشاں ہیں۔
پرائیویٹ کمپنیز غیر ملکی برانڈز کے ساتھ کام کرتی ہیں کاروبار کو پھیلاتی ہیں اور لوگوں کو کوالٹی امپلائمینٹ مہیا کرتی ہیں۔
سب سے بھاری تنخواہیں بھی یہ ہی کپمنیز دیتی ہیں اور دہرہ ٹیکس بھی.
پر کسی بھی طرح ان کے بارے میں کسی بھی سطح پہ کہیں بات چیت نہیں ہورہی۔ ایسے میں جن کمپنیز نے اس ماہ تنخواہوں میں کٹوتی کی اگلے ماہ وہ سب لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے پہ مجبور ہوجائینگے جبکہ ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ انہی کمپنیز سے وابستہ ہیں۔
حکومتی ایوانوں کو اس طرف بھی ضرور دھیان دینا ہوگا. ضروری نہیں کہ ہر شعبے میں مسائل کے حل کے لیے تنظیم سازی ہویا یونینز بنائی جائیں۔
ایسا کرنا بعض اوقات کام کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے پر ان حالات میں لگ واقعی ایسا ہی رہا ہے کہ بلیک میلنگ اور طاقت کا استعمال ہی ایک واحد حل ہے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔ !
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی