نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیب کی طرف سے شہباز شریف کی طلبی۔۔۔ ظہور دھریجہ

سرائیکی وسیب کے دو صحرا چولستان اور تھل کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو ان میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے
چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیس میں نیب نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو شامل تشویش کرتے ہوئے 18 مئی تک جواب طلب کر لیا ۔ نیب کے اعلامیہ کے مطابق چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران ، عہدیداران کے ساتھ ساتھ سابق رکن قومی اسمبلی میاں بلیغ الرحمن اور چوہدری عمر محمود کے خلاف بھی کاروائی کی جا رہی ہے ۔ اچھی بات ہے کہ نیب چولستان کی اراضی بارے تحقیقات کر رہا ہے ۔
اس سے پہلے قومی خزانہ لوٹنے کے حوالے سے تحقیقات ہوتی رہی ہیں ، ہم نے بارہا کہا کہ ناجائز الاٹمنٹیں بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہیں ، وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ تھل اور چولستان میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور مقامی لوگوں کو نظر انداز کر کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو ناجائز الاٹمنٹیں کی جاتی رہی ہیں ۔ نیب کی طرف سے میاں شہباز شریف کو جو سوال نامہ بھیجا گیا ہے ، اس میں 18 مئی 2020ء تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
واضح ہو کہ لال سونہارا نیشنل پارک کے فرضی متاثرین کو 14ہزار کنال زمین ناجائز طور پر الاٹ کی گئی ۔ بات صرف لال سونہارا نیشنل پارک متاثرین کی نہیں ، چولستان میں منگلا ڈیم ، تربیلا ڈیم ، اوکاڑہ چھاونی اور پٹ فیڈر متاثرین کے چکوک ہیں ۔
ان سب کی انکوائری ہونی چاہئے کہ چولستان کی زمینیں فرضی متاثرین کو الاٹ ہوتی آ رہی ہیں ۔ملتان ڈویژن کے علاقوں میں اسلام آباد کیپٹل متاثرین کو بھی رقبے دیئے گئے ۔ شکایات یہ ہیں کہ اکثر رقبے ان لوگوں کو ملے جو زمینوں کے مالک ہی نہ تھے ۔ یہ ستم بھی دیکھئے کہ سرائیکی خطے میں تھوک کے حساب سے رقبے نام نہاد متاثرین کو دیئے گئے ، جبکہ وسیب میں ہر سال لاکھوں ایکڑ رقبہ دریا برد ہو جاتا ہے اور لوگوں کو کھلے آسمان تلے پناہ حاصل کرنا پڑتی ہے مگر ان اصل متاثرین کو اسلام آباد ، لاہور تو کیا خود اپنے چولستان میں بھی رقبے الاٹ نہیں کئے جاتے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان کا رقبہ سرائیکی وسیب کی دکھتی رگ ہے کہ پہلے ہی چولستان میں ناجائز الاٹمنٹیں اس قدر ہوئی ہیں کہ اب الاٹمنٹ سکیم کا نام آتے ہی وسیب کے لوگوں کی چھرکی نکل جاتی ہے۔
میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں ‘ بہت عرصہ پہلے لاہور میں جھارا پہلوان اور انوکی کی کُشتی ہو رہی تھی ۔پورا ملک دعائیں مانگ رہا تھا کہ جھارا جیت جائے مگر ہمارے راجن پور کے سرائیکی شاعر نذیر فیض مگی دعا مانگ رہے تھے کہ جھارا ہار جائے ۔
لوگوں نے کہا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ پورا ملک پاکستانی پہلوان جھارا کیلئے دعا کر رہا ہے اور تم بد دعا دے رہے ہو۔ مرحوم نذیر فیض مگی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا تھا کہ میری جھارا سے کوئی دشمنی نہیں ‘ مجھے اپنی دھرتی کی فکر ہے کہ اگر جھارا جیت گیا تو حکمران اسے انعام کے طور پر چولستان میں دو مربع زمین دے دیں گے۔
چولستان بچاؤ تحریک کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ’’ چولستان میں عرب شیوخ کی شکار گاہوں کو نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے، وہاں جانے کیلئے اجازت کی ضرورت ہے ، یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟
چولستانیوں کا مال مویشی چولستان میں ہے جنہیں خوراک ، گھاس ، ادویات پہنچانے وغیرہ پہنچانے کیلئے روزانہ دن میں کئی بار آناجانا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ لکھا کہ چولستان میں مقامی لوگوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ زندگی کو اجیرن بنایا جا رہا ہے ۔ چولستان میں عرب شیوخ کو فارمنگ کے نام پر رقبے دے کر وہاں نو گو ایریا بنائے گئے ہیں لیکن مقامی افراد جنہوں نے صدیوں سے یہاں بھوک اور پیاس سے لڑتے ہوئے موت کو تو قبول کر لیامگر اپنے چولستان کو نہیں چھوڑا ، آج ان سے چولستان جانے کیلئے اجازت نامہ مانگا جا رہا ہے ،اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا؟
چولستان میں رقبوں کی الاٹمنٹ کی عجیب و غریب پیمانے ہیں، ان پیمانوں کا مقصد حقداروں کی محرومی اور لینڈ مافیا کی موج کے سوا کچھ نہیں کہ ہیراپھیری سے سب کچھ ہو جاتا ہے ۔
طریقہ کار یہ ہے کہ درخواست گزار کو ترقی ٹیکس کی رسید بھی درخواست کے ساتھ شامل کرنا ہوتی ہے۔ بظاہر یہ چند روپے کی رسید ہے اس رسید کا مقصد یہ ہے کہ رسید گزار چولستان کا اصل باشندہ ہے ۔
صورتحال یہ ہے کہ جو چولستان کے باشندے ہیں ان کو یہ رسید کبھی نہیں ملی ۔ اور اگر کسی کو ملی بھی ہے تو وہ اتنے سادہ لوگ ہیں کہ وہ سنبھال کر نہیں رکھ سکتے ۔
جب الاٹمنٹوں کا وقت آتا ہے تو چولستان کے اصل باشندے رسید کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں مگر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا شعبہ ریونیو ان لوگوں کو تو دھڑا دھڑ رسیدیں جاری کر دیتا ہے جن کے ساتھ ان کے معاملات طے ہوتے ہیں اور وہ ملی بھگت کے ذریعے یہ رقبے ہتھیانا چاہتے ہیں مگر چولستان کے جو اصل باشندے ہیں ان کو دھکوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
سرائیکی وسیب کے دو صحرا چولستان اور تھل کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو ان میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔
وزارت عظمیٰ پر میانوالی کے عمران خان اور وزارت خارجہ کے منصب پر ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی فائز ہیں ، یہی وقت ہے کہ وہ وسیب کے مسائل کی طرف توجہ دیں کہ چولستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ دریائے ستلج کی فروختگی کے بعد چولستان میں ایک اور چولستان وجود میں آرہا ہے۔
جیسا کہ میں نے بار ہا عرض کیا کہ پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے، دریا ہندوستان کو دیکر ظلم کیا گیا۔ ہندوستان سے پانی حاصل کر کے ستلج تہذیب کو نہ بچایا گیا تو بہاولنگر ، وہاڑی اور بہاولپور کے بیشتر علاقے صحرا میں تبدیل ہو جائیں گے اور چولستان کے بعد ایک نیا چولستان ہستی بستی آبادیوں کیلئے موت کا پیغام لے کر آئے گا۔
قدرت کے اجزاء ناقابل فروخت ہوتے ہیں ، اسی طرح ہوا، روشنی ، دریا اور پانی فروخت نہیں کئے جا سکتے ۔ اس حوالے سے پاکستانی دریاؤں کا سودا نظام قدرت کے خلاف بغاوت ہے۔
ہندوستان سے مذاکرات کرکے زیادہ نہیں تو اتنا تو پانی حاصل کر لیا جائے کہ علاقے کی تہذیب اور آبی حیات زندہ رہ سکے ۔ کائنات کا سب سے بڑا عذاب کورونا کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے۔ کورونا وائرس کی اصل حقیقت پر غور کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ دنیا میں ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہو چکی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کا جس طرح خون نچوڑا ، دولت اور اسلحے کے انبار لگائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کی دولت اور ان کا اسلحہ کورونا جنگ میں ان کے کام نہ آ سکا ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو خدارا ظلم اور نا انصاف سے توبہ کیجئے کہ کورونا کے بعد دنیا بدل رہی ہے اور ہم نے بدلتے ہوئے زمانے کے بارے میں سوچنا ہے۔

About The Author