دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ دن جب ڈیم ٹوٹ گیا۔۔۔ گلزار احمد

عجیب ہیبت ناک صورتحال تھی۔ پورے امریکہ میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۔ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے ۔ کچھ چیخ چلا رہے تھے ۔

میرے کالج کے زمانے میں ہم انگریزی کی کتاب میں James Groves Thurbar
کا لکھا ایک قصہ پڑھتے تھے جس کا عنوان انگریزی میں اوپر لکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے۔۔ وہ دن جب ڈیم ٹوٹ گیا۔ وہ لکھتے ہیں 12 مارچ
1913ء کی دوپہر امریکہ میں ان کے ٹاون میں یہ خبر پھیل گئی کہ اوہایو دریا کا ڈیم ٹوٹ گیا ہے اور پانی شھر داخل ہونے کو ہے۔اس وقت کاروبار اپنے زوروں پر تھا اور کافی لوگ بازار میں مصروف تھے۔ یہ پتہ تو نہیں چلا کہ یہ خبر کہاں سے آئی مگر دس منٹ کے اندر سارے لوگ شھر سے دور بھاگنے لگے۔تھربر کا خیال ہے بازار میں جاتے ایک رن مرید شخص کو اچانک اپنے بیوی سے ملنے کا وقت یاد آ گیا اور وہ خوف کے مارے بیوی سے ملنے شھر کے مشرقی جانب یکدم دوڑ پڑا۔ اس کے پیچھے اخبار کا ہاکر اپنی عادت کے مطابق ویسے تیزی میں دوڑنے لگا ۔ جب کسی اور شخص نے یہ دوڑ دیکھی تو خوفزدہ ہو کے چیخا ۔۔مشرق کی طرف بھاگو۔۔

اور وہ بھی دوڑ پڑا۔جونہی افراتفری پھیلی پولیس والے۔فائیر بریگیڈ والے اور کچھ سپاہیوں نے بغیر سوچے یا پوچھے ان کے پیچھے دوڑ لگا دی۔تھربر کی ماں بھی ایک درجن انڈے اور ڈبل روٹی گھر سے اٹھا کر دوڑ میں شامل ہو گئی۔ ایک سینما میں شو چل رہا تھا اور کافی لوگ شو دیکھ رہے تھے جس میں تھربر کی آنٹی بھی شامل تھی اس نے جب سڑک سے دوڑ کا شور سنا تو بچاو بچاو کا شور مچا دیا اور سب ہجوم کے پیچھے دوڑنے لگے۔کسی نے نعرہ لگا دیا ڈیم ٹوٹ گیا دوڑو دوڑو۔ تھربر نے ایک دوڑتے ڈاکٹر میلاری کا قصہ لکھا ہے جسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دریا کی سفاک لہریں ایک شور کے ساتھ اس کا پیچھا کر رہی ہیں لیکن جب دوڑتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لڑکا سکیٹنگ کرتا اس کے پیچھے دوڑا چلا آ رہا تھا۔ یہ ڈرامہ دو گھنٹے جاری رہا ۔پھر وہاں کی ملیشیا کے لوگ گاڑیوں پر آئے اور میگافون سے اعلان کیا کہ ڈیم نہیں ٹوٹا ۔تب سب لوگ سر جھکائے تھکے ماندے گھر واپس آئے۔ ہمارے ایک گروپ کے ایڈمن محمد فیاض صاحب

بڑے دلچسپ قصے سناتے رہتے ہیں۔انہوں نے بھی ایک حیرت ناک کہانی سنائی۔وہ لکھتے ہیں کہ 1938 کی ایک صبح امریکہ میں ریڈیو سے ایک نیوز بلیٹن نشر ہوا کہ مریخ سے ایک عجیب مخلوق نے سینٹرل نیو جرسی میں زمین پر مہلک حملہ کر دیا ہے۔ اس خبر کے نشر ہونے کیساتھ ہی امریکہ کے طول و عرض میں جس جس نے یہ سنا ۔ خوف و دہشت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ہزاروں لوگ خوف کے مارے اپنے گھروں سے نکل آئے اور گلیاں لوگوں سے بھر گئیں ۔ بہت سے اپنی کاروں میں بیٹھ کر اس نامعلوم مریخی مخلوق سے بچنے کیلئے نامعلوم منزلوں کی طرف بھاگ گئے ۔ پولیس سٹیشنز میں لوگوں کی کالوں کا تانتا بندھ گیا ۔ جو مریخ کے حملے کے بعد صورتحال جاننا چاہ رہے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی جاننا چاہ رہے تھے کہ اس عجیب اور خطرناک مخلوق سے کیسے بچا جائے۔ غرضیکہ

عجیب ہیبت ناک صورتحال تھی۔ پورے امریکہ میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۔ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے ۔ کچھ چیخ چلا رہے تھے ۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگ رہے تھے جبکہ کچھ اپنے پیاروں کو بچانے کیلئے نکل پڑے تھے ۔ ہا ہا کار مچی ہوئی تھی ۔ کہا جاتا ہے تقریباً چھ ملین لوگوں نے اس براڈ کاسٹ کو سنا ۔ اور اکثر خوف و دہشت کا شکار ہو گئے ۔ دراصل یہ کوئی نیوز بلیٹن نہیں تھا بلکہ ایک ڈرامہ تھا جس کو نیوز بلیٹن کی طرز پر نشر کیا گیا ۔ اور لوگوں نے اس کو حقیقت سمجھ لیا۔ اس ڈرامے کا مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ میڈیا کتنا طاقتور ذریعہ ہے اور لوگوں کے اوپر میڈیا کے اثرات کیا ہوتے ہیں ۔ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو نہ صرف سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتا ہے بلکہ بزدل قوم کو بہادر اور بہادر قوم کو بزدل تک بنا سکتا ہے۔ یہ واقعات مجھے احمد فراز کی غزل کے ایک شعر ۔۔۔یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آئے ۔ اس غزل کےکچھ اشعار پیش خدمت ہیں؎

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں۔
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں۔
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے۔کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے۔ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں۔جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے۔ شہر کا شہر ہوا داخل زِنداں جاناں۔ ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے۔۔ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں۔۔

About The Author