ایک دفعہ میں حرم پاک مکہ میں باب عبدالعزیز کی جانب سےداخل ہونے کے لیے فائر بریگیڈ روڈ سے آ رہا تھا جونہی کبوتروں والی جگہ کراس کی وہاں ایک شٹل کاک برقعے میں ملبوس خاتون ایک چھوٹی کٹوی برابر برتن میں کچھ پکا کے بیٹھی خیرات تقسیم کر رہی تھی۔میں وہاں رکا مجھے اپنا گاٶں یاد آ گیا۔ سوچنے لگا حرم پاک کی بابرکت جگہ پر ایک روپیہ خرچ کرنے کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے یہ نیک بخت خاتون کتنی عقلمند ہے کہ اس کا ایک چمچہ خیرات ایک لاکھ کے برابر اور ایک کٹوی ایک لاکھ کٹوی خیرات کے برابر ہو گئی۔ ان سوچوں میں گم میں اپنی ماں اور ماسیوں کے جانب سے گاٶں میں تقسیم ہونے والی خیرات کا سوچنے لگا۔ اللہ تعالی تو ہمارے مال کی مقدار کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کی محبت اور تقوی کو دیکھتا ہے۔ گاٶں میں زیادہ تر ہماری مائیں گندم۔باجرے کی گھنگھڑیاں یا بھت پکا کر خیرات کرتی تھیں۔ یہ گھنگھڑیاں گڑ میں ابال کر پکائی جاتیں اب اگر آپ نے گندم۔ باجرہ۔ چنےکی کبھی گھنگھڑیاں کھائی ہوں تو اس کی لذت فائیو سٹار ہوٹل کے پکوان سے بھی بلند تھی۔ جب گھنگھڑیاں پک کر بٹنے کے لیے تیار ہو جاتیں تو ہم بچوں کو بلانے جاتے اور یہ ہوکا دیتے ۔۔ بال بلوڑے ۔مٹی دے روڑے۔ گھنگھڑیاں گھن ونجو۔ بچے جمع ہو جاتے اور دیگڑے سے مٹی کی پھیلیوں میں گھنگھڑیاں ڈال کر تقسیم شروع ہو جاتی۔ دوسری اہم خیرات بوڑ روٹی تھی۔ یہ گوشت آلووں سے ملا کر شوربا بنایا جاتا اور روٹی بھگو دی جاتی۔ اسی طرح گڑ اور آٹے گھی کے ڈھوڈے بھی خیرات ہوتے۔
اس پر بھی وہی ہوکا دیکر آخر میں بوڑ روٹی کھا ونجو کہتے ۔تیسری اہم خیرات بھنے ہوئے چنے اور لاچی دانے ملا کر تقسیم ہوتے۔ گڑ بھی اگر گاوں میں ویلنے پر تیار ہوتا تو خیرات کے لیے پیش ہوتا۔ اس زمانے غربت تو تھی مگر لوگوں کے دل کوہ ہمالیہ سے بھی بڑے تھے ۔خلوص ۔محبت ۔پیار کا یہ عالم تھا کہ مجھے بکری اور بھیڑ کے بچے پالنے کا شوق جنون کی طرح تھا۔
جب گاوں میں کسی ماسی کی بکری یا بھیڑ کا بچہ پیدا ہونے کے قریب ہوتا تو میں ان سے درخواست کرتا اور وہ مجھے مفت عنایت کر دیتیں۔ بکری یا بھیڑ کے بچے میرے پیچھے پیچھے گاوں کی گلیوں میں گھومتے اور سردی کی ٹھنڈی راتوں میں کمرے کی چوکور پتھاری پر آگ کے قریب میری جھولی میں سو جاتے۔
ان معصوم جانوروں کے ریشم جیسی جلد کو touch کرنے کا ایک عجیب مزہ ہے۔اسی طرح کبوتر ہاتھ میں پکڑ کر میں اپنے آپ کو جہانگیر بادشاہ محسوس کرتا ۔ گاوں میں جب گڑ بنانے کا بیلنا لگتا تو ہم کو ککو یعنی گنے کا رس جو شھد کی طرح ہوتا ہے مفت ملتا۔ جب کسی کی بھینس اور گائے کا بچہ پیدا ہوتا تو پہلا گھاٹا جما ہوا دودھ جسے بولی کہتے ہمارے گھر مفت پہنچ جاتا ۔اس دودھ سے کھویا نما ڈش بنتی تھی۔ لسی تو ہر گھر سے آپ فری میں لیتے اور اگر میں خود لینے جاتا تو ماسیاں مکھن کا پیڑا بھی ساتھ ڈال دیتیں۔
اگر گاوں کے کھیت میں کوئی سبزی یعنی گوبھی۔ٹنڈے۔بھنڈی۔توری۔کدو چن رہے ہوتے اور وہاں سے گزر ہوتا تو زبردستی چار پانچ کلو دے دیتے چونکہ لفافے نہیں تھے ہم جھولی بھر کے گھر لے آتے۔ اب تو جھولی بھرنے کا مطلب ہماری نئی نسل نہیں سمجھے گی مگر ہمارے زمانے اس پر شاعری اور گیت لکھے جاتے۔ غالبا” عزیز میاں قوال نے یہ قوالی سنائی تھی۔۔بھر دے جھولی میری یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔لوٹ کر نہ جاوں گا خالی۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو دعا دیتی کہ اللہ تیری جھولی سرسبز شاداب رکھے۔ جب کھجور پک کر تیار ہوتی اور کسان اس پر چڑھ کر اتار رہا ہوتا تو آنے جانے والوں پر مٹھیں بھر بھر پھینکتا۔
کھجور کے دس بارہ خوشے کاٹتا تو دو اوپر رہنے دیتا کیونکہ صبح تلیر۔چڑیاں۔لالیاں کھجور کھانے آئیں تو خالی نہ جائیں۔ رمضان کے ان دنوں ہر گھر سے کچھ پکا کر افطاری کے لیے مسجد ضرور بھیجا جاتا مبادا کوئی مسافر افطار کرے یا کوئی غریب جس کے پاس کھانا نہ ہو یہاں کھا کے چلا جائے۔مسافر کو سحری بھی گاٶں والے پہنچاتے۔ گاوں کے لڑکیاں میری ماں کو ہمارے لیے سویٹر بُن کے دیتیں اون میری ماں لے کر دیتی۔اس طرح کپڑا دے کر چادروں۔سرھانوں۔میزپوشوں پر کشیدہ کاری کروائی جاتی مقصد یہ تھا کہ لڑکیاں سینا پرونا سیکھ لیں اور کچھ رقم بھی حاصل کر لیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر