نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارا فنکار ہی کیوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرتاہے؟۔۔۔ رانا ابرار خالد

موہن بھگت بے چارہ روز فیس بک پر ایک نیاسٹیٹس چڑھاتارہا کہ عظیم لوک فنکار کرشن لال بھیل کے گردے فیل ہوگئے ہیں۔

کہہ دی نا، میں نے عجیب بات۔۔۔۔یہ بات آپ کو عجیب لگنی بھی چاہیے بلکہ اٌن لوگوں کوایسی ہربات عجیب لگنی چاہیے جواس کرب سے نہیں گزرے جس کرب سے ہم گزررہے ہیں، جس کرب سے موہن بھگت گزررہاہے جس کرب کرشن لال بھِیل گزرا ہے۔

یقیناً آپ اٌس کرب سے نہیں گزرے ہیں اور آپ کوپورا حق حاصل ہے میرے زخموں پرنمک پاشی کرنے کا، موہن بھگت اورکرشن لال بھیل کے زخموں پرنمک پاشی کرنے کا، فنکارتو سب کاسانجھاہوتاہے فنکار تیرا اورمیرانہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں! آپ درست کہہ رہے ہیں فنکار کافن سب کاسانجھا ہوتاہے ۔۔۔۔مگرصاحب، فنکار کاجسم سب کاسانجھا نہیں ہوتا!

کیونکہ اگرفنکار کاجسم سب کاسانجھاہوتاتو عظیم سرائیکی لوک فنکارکرشن لال بھیل 55سال کی عمرمیں شیخ زیدہسپتال رحیم یرخاں میں ایک قابل علاج بیماری کی وجہ سے یوں ایڑیاں رگڑرگڑ کے بے بسی کی موت کیوں مرتا، کیا آپ کسی ادنی حکومتی ہرکارے کوشیخ زیدہسپتال جانے کی توفیق ہوئی؟۔۔۔۔اور صرف کرشن لال بھیل ہی کی بات کیوں، اس سے چند روزقبل لوک فنکار اور سرائیکی شاعر بشیردیوانہ کے ساتھ کیا ہوا جبکہ چندماہ پہلے استادآڈوبھگت کوبھی یہی موت نصیب ہوئی، کچھ برسوں کی بات ہے فقیرا بھگت کوبھی نوجوانی میں ایسی ہی بے بسی کی موت سے دوچارہوناپڑاتھا،

موہن بھگت بے چارہ روز فیس بک پر ایک نیاسٹیٹس چڑھاتارہا کہ عظیم لوک فنکار کرشن لال بھیل کے گردے فیل ہوگئے حکومت چاہے توہمارے اس فنکارکوبہترعلاج مہیا کرکے بچاسکتی ہے، مگرحکومت چاہتی تو؟

دور نہ جائیں منصورعلی ملنگی کے ساتھ کیاہوا، سرائیکی وسیب کے معروف ترین شاعر احمدخان طارق کو کون ساحکومتی خرچ پرعلاج معالجہ نصیب ہوا، استادنذیرفیض مگی سے لیکرپروفیسرشمیم عارف قریشی اور قیس فریدی سئیں تک ایک طویل فہرست ہے جہاں ہمیں یکسانیت کے ساتھ حکومتی بے حسی مجسم تصویربنی ملتی ہے اور ہماری آنکھوں میں پنپتا ہواسوال سن بلوغت کوپہنچ کر آنسو بن کے ٹپک پڑتاہے اورسیدھا دھرتی پہ جاگرتاہے۔

آپ اعتراض کادوسرا نشترچلانے کابھی پورا پورا حق رکھتے ہیں کہ جن فنکاروں کی دکھ سکھ میں حکومتی سطح پرمدد اور حوصلہ افزائی ہورہی ہے کیاوہ بھی نہیں ہونی چاہیے؟ ارے نہیں صاحب، ہم فقیرلوک ایسی بدفال کیسے منہ سے نکال سکتے ہیں، ہم کسی شاعر، لکھاری اورفنکارکا برا کیسے سوچ سکتے ہیں، آپ کے فنکارہمارے فنکارہیں بس ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے فنکاروں کواپنا فنکار کہہ دیں۔۔۔۔۔

لیکن آپ کی دھن دولت کے چشمے تو ہمارے فنکاروں پر صرف اٌس وقت نچھاور ہوتے جب وہ آپ کے (پلاک)کے سٹیج پر آکے خودکو سرائیکی کی بجائے پنجابی شاعر، لکھاری، فنکارڈیکلیئر کریں۔۔۔۔۔۔رفعت عباس کی سنت پرعمل پیرا نہ ہونے کا اعلان کریں تب وہ آپ عنایت کے حقدارٹھہرتے ہیں۔

ورنہ ان کی زندگی میں کوئی سکھ پہنچاناتودرکنار موت کے وقت بھی کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا!!

بس ہمارا آپ سے یہی شکوہ ہے یہی گلاہے۔۔۔۔۔یہ میں نے کیاکہہ دیا، ہم ہربار یہ بھول جاتے ہیں کہ شکوہ اورگلا تو اپنوں سے کیاجاتاہے، صاحب! کیا کریں ہربار ہم یہ بات بھول ہی جاتے ہیں کہ آپ توفاتح ہیں، دراصل واقعی یہ بات ہم بھولناچاہتے ہیں کہ کبھی آپ نے ہمیں فتح کیا تھا، بس آپ ہمیں آزادی دے دیں ہم واقعی بھول جائیں گے کہ کبھی آپ ہمارے قاتل کہلائے تھے۔۔۔۔

لیکن آپ بھی اب بھول جائیں اس بات کو کہ آپ نے ہمیں فتح کیاتھا ہمارا قتلام کیاتھا۔ معلوم نہیں آپ یہ بات بھولنے کیلئے کیوں تیار نہیں، شاید وہ ضرب الامثال آپ کے اوپر ہی صادق آتی ہے ”دوجگری یارتھے مگر کسی ناگہانی وجہ کے تحت ایک دوست کے ہاتھوں دوسرے دوست کابھائی قتل ہوگیا تھا، جس پرقاتل فرارہوگیا اورکئی سال تک روپوش رہنے کے بعد واپس گھرآیا۔۔۔۔

دوسری طرف جس کابھائی قتل ہواتھا اس نے سوچا کسی حدتک غلطی میرے بھائی کی بھی تھی اور دوست نے توغصے میں آکر قتل کیاہے کونسا سوچ سمجھ کرپلاننگ کے تحت قتل کیا، اب انتقام اورمقدمے بازی چلے گی تودوست کے بیوی بچوں کی زندگی بربادہوجائے گی اورویسے بھی دوست کوپھانسی کے تختے پرپہنچاکر کون سامیرابھائی زندہ واپس آنے والاہے لہذا اٌس نے دوست کومعاف ہی کردیا۔ قاتل اپنے دوست کی طرف سےمعاف کرنے کی خبرپاکر گھرتو واپس پہنچ گیا مگر دوست سے چھپ چھپ کرپھرنے لگا، دوست بھی عجیب شش وپنج میں مبتلاہوگیا کہ میں نے اس کوسگے بھائی کاقتل معاف کردیامگر پھربھی مجھ سےچھپتا پھررہاہے۔۔۔۔۔۔

ایک روز اس نے بیچ چوراہے میں دوست کوچھاپ لیا اور کہا جب میں نے تمھیں معاف کردیاہے اوریہ بات بھلادی کہ تم نے کبھی میرے بھائی کوماراتھا تو تم مجھ سے کیوں چھپتے پھررہے ہو، اس پر وہ گویاہوا، دیکھو! تم یہ بات بھلاسکتے ہوکہ میں نے تمھارے بھائی کوقتل کیاتھا لیکن میں یہ کیسے بھلاسکتاہوں کہ میں نے تمھارے بھائی کوقتل کیاتھا!!!

شاید یہی ہمارے دوستوں کی فطری مجبوری ہے کہ وہ یہ بات کبھی نہیں بھلاسکتے کہ انہوں نے ملتان کے چوراہوں کولاشوں سے آبادکیاتھااورگلیوں کو لہوسے بھر دیاتھا۔۔۔۔مگرہم پھربھی یہ بات بھلانے کوتیار ہیں کیونکہ ہم جینا چاہتے ہیں ہم انتقام اور نفرت کی فضامیں نہیں پیارمحبت کی فضامیں اپنے ڈھول، ہارمونیم، چپڑی، یکتارا اور اپنی جٌھمر کے ساتھ اپنے سندھو، چناب اور اجڑے پجڑے ستلج کے ساتھ اپنی مرضی سے جیناچاہتے ہیں، آپ کواپنا بھنگڑا مبارک ہولیکن ہماری جٌھمر ہم سے مت چھینو، ہم نے ہردور میں جی دکھلایا ہے ہمیں کوئی سکندریونانی، کوئی نوشیرواں، کوئی ابن قاسم، کوئی منگول، کوئی ترک، کوئی احمدشاہ درانی، لارڈکرزن یا رنجیت ہماری حیاتی (جٌھمر) ہم سے جدانہیں کرپایا، ہم سندھو کے بیٹے بیٹیاں ہیں ہم کوئی سرسوتی نہیں کہ ریت کے صحرامیں سرڈال کربن باس لے لیں گے!!!!

About The Author