کبھی سوچا ہے ہمیں بھوک کیوں لگتی ہے؟ اگر کھانے کا ٹائم ذرا اوپر نیچے ہوجائے تو بھوک سے چکر آنے لگتے ہیں تو سوچا ہے جب کسی کو فاقوں سے چکر آتے ہوں گے تو کیسا لگتا ہوگا؟
جب کسی کے پاس ایک وقت کا آٹا بھی نہ ہو اور اس نے کبھی اپنی خود داری کا سودا نہ کیا ہو مگر حالات نے اس کو کڑی دھوپ میں لاکر کھڑا کردیا ہو۔
اس کو کیا لگتا ہوگا؟ کیسے سمجھا سکتا ہے وہ ان کو جن کو اس ظالم بھوک کے معنی نہیں پتہ جن کے لیے اب بھی یہ ایک کھیل تماشا ہے جو گزر ہی جائے گا
لیکن جس پر گزر رہی ہے، اس کو پتہ ہے کہ یہ کتنا ظالم وقت ہے جو بس ٹھہر گیا ہے گزر ہی نہیں رہا بس تھم کر رہ گیا ہے۔
کبھی دیکھا ہے کسی کچرا چننے والے بچے کو کچرے پر سے روٹی اٹھا کر کھاتے ہوئے اس وقت رحم بھی جاگتا ہے اور دل کہتا ہے ایسی بھی کیا بھوک جو کچرے سے چن کر کھانا کیا ضروری ہے۔
آخر اتنے سارے فلاحی ادارے ہیں اللہ کے بندے ہیں دو وقت کی روٹی تو کھلا ہی دیتے ہیں۔ لیکن کس کو پتہ ہے جب بھوک سے پیٹ میں آگ لگی ہو تو کچرے پر پڑی روٹی بھی شیر مال لگتی ہے
اس بھوک کی خاطرانسان اپنی عز ت نفس گروی رکھ دیتا ہے کسی کی گالیاں بھی سن لیتا ہے ہاں اس بھوک کے واسطے چھوٹو بن کر مار بھی کھالیتا ہے اور گالیاں بھی۔
لیکن چلو اس کے بدلے اس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے۔ بھوک کا مطلب کوئی اس سفید پوش سے پوچھے جس کو اپنا بھرم بھی رکھنا ہے اور معصوم بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔
جبکہ ظالم زمانے کی نظروں میں سرخرو بھی ہونا ہے۔ ان کو بھوک کا کیا مطلب معلوم ان کا کیا لینا دینا جو ایک وقت ہزاروں کا کھانا منگوا کر کہتے ہیں
بالکل مزے کا نہیں اور ویٹر کو بل ٹپ دے کر نکل جاتے ہیں بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آسکتا ہے جنہوں نے کبھی گندے نالوں سے پانی بھرا ہو تو کبھی کوئی سوکھی روٹی گیلی کی ہو۔ کبھی کسی کتے سے روٹی کے لیے دھینگا مشتی کی ہو۔ یہ بھو ک ہی ہوتی ہے کوئی معصوم کہیں روٹی چرا کر بھاگتا ہے تو کہیں کوئی دہاڑی کے لیے ذلیل ہو تا ہے۔
بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آتا ہو جو لاکھوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور چھٹیاں منانے بس ذرا فارن ٹرپ پر چلے جاتے ہیں۔ ان کو بھوک کا مظلب کیسے سمجھ میں آسکتا ہے جب روز کی دہاڑی بھی بند ہو اور گھر میں کھانے کے لیے نہ ہو تو نظریں جھکا کر شرمندگی سے مدد طلب کرنا کیسا لگتا ہے۔
ان کو بھوک کا مطلب کیسے آسکتا ہے جن کو راشن کی لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر سننا پڑے کل آنا آج کا کوٹہ پورا ہوگیا ہے۔ ان کو تڑپتے ہوئے بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں پر کیسے رحم آسکتا ہے جن کے فارم ہاؤس میں اب بھی پارٹیاں ہورہی ہیں۔ ان کو اس بھوک سے کیا لینا دینا جو اپنے گھر کے نوکروں کو چھینک آنے پر بس کا ٹکٹ کٹا دیتے ہیں باقی رہے نام اللہ کا۔
بھوک کا مطلب سمجھنے کے لیے ان آس بھری آنکھوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جو خاموشی سے سوال کرتی ہیں کیا ہماری مدد ہوجائے گی کا سوال پوچھتی ہیں؟
بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آسکتا ہے جن کی شعبدہ بازیاں قوم دیکھ دیکھ کر عاجز آچکی اب جب ضرورت ہے تو ان میں سے کوئی فون اٹھا رہا ہے نہ نظر آرہا ہے کچھ یہاں قرنطینہ میں، کچھ باہر قرنطینہ میں
نظر آرہے ہیں تو بس خدا کے بندے جو نہ سیلفیاں چاہتے ہیں نہ کوئی صلہ چاہتے ہیں کسی کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس تک مدد پہنچا رہے ہیں اس کڑی دھوپ میں ایک ٹھنڈا شجر بن رہے ہیں۔
ہاں ٹھیک ہے لاک ڈاؤن ضروری ہے مجبوری ہے لیکن بھوک تو کوئی مجبوری نہیں مانتی اس کے آگے تو بس بے بسی ہی ہے
تو اگر اس وقت میں کسی کی مدد کردیں تو خدا کے لیے اس سے اس کا مذہب اور عقیدے مت پوچھیں کیونکہ بھوک اتنی ظالم ہوتی ہے اس کے آگے بڑے بڑے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔
بھوک کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ نظریہ نہ عقیدہ، اس کا یقین بس دو وقت کی روٹی ہوتی ہے تو صاحب آگے بڑھیں آس بھری آنکھیں منتظر ہیں مدد کر دیں، جزاک اللہ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر