دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیب، 18ویں ترمیم اور لاک ڈائون۔۔۔ نصرت جاوید

اس ترمیم کے خاتمے کے لئے پارلیمان سے دوتہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی۔عمران حکومت کو یہ حمایت میسر نہیں۔

تحریک انصاف کے محب وطن اور ایمان دار نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر چلائی مہم کی عنایت سے یہ بات طے ہوچکی کہ ہمارا ’’بکائو میڈیا‘‘ خبر نہیں دیتا۔ ’’خبر‘‘ کے نام پر Fake News پھیلاتا ہے۔ جن ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے ان کے دس سالہ دور اقتدار کے دوران ’’لفافے‘‘ لیتا رہا ان کی اقتدار میں واپسی کے لئے بے بنیاد کہانیاں گھڑتا رہتا ہے۔عمران حکومت کے لئے اگرچہ ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے کی حقیقت اس ضمن میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔

اپنے گھر میں کئی مہینوں سے گوشہ نشین ہوا میں اکثر اس امر پر بہت اطمینان محسوس کرتا ہوں کہ صحافت سے عملاََ ریٹائر ہوچکا ہوں۔ذات کا رپورٹر رہا ہوں۔اب خبریں ڈھونڈنا چھوڑ دی ہیں۔ اس کالم کے ذریعے بقراطی بگھارنے کی کوشش کرتا ہوں۔قارئین کی مؤثر نہ سہی ایک معقول تعداد اسے سوشل میڈیا پر بھی پڑھ لیتی ہے۔میرے دال دلیہ کا بندوبست ہوجاتا ہے۔محض پیشہ ور صحافی ہی مگر ’’خبر‘‘ کے طلب گار نہیں ہوتے شہریوں کی بے پناہ تعداد نہایت سنجیدگی سے ہمیشہ یہ جاننا چاہ رہی ہوتی ہے کہ ہمارے مقدر کا فیصلہ کرنے والے دُنیاوی خدا کیا سوچ رہے ہیں۔

ریاست کی ترجیحات کیا ہیں۔حکومت نے عوام کو مطمئن رکھنے کے لئے کونسی پالیسیاں اپنائی ہیں۔ ان پالیسیوں پر حقیقی عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں۔اس حوالے سے دل ودماغ میں اُبھرتے تجسس کی تسکین کے لئے عمران خان صاحب نے یوٹیوب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔یوٹیوب کے ذریعے ہمیں سچی خبروں سے آگاہ رکھنے والے Influencersسے انہوں نے تفصیلی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔وزیر اعظم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں بھی ان دنوں اپنے گھر آئے اخبارات کے پلندے کو سرسری انداز میں دیکھنے کی عادت اپنارہا ہوں۔اپنے دن کے کم از کم تین گھنٹے یوٹیوب کی نذر کرتا ہوں۔جن افراد کو میں بہت غور سے سنتا ہوں ان کے Subscribersکی تعداد لاکھوں میں ہے۔

تین سے چار افراد کو اوسطاََ ایک لاکھ سے زیادہ افراد روزانہ کی بنیاد پر سنتے ہیں۔جس ’’صحافت‘‘ کا میں عادی رہا اس کے اصولوں کے مطابق میرے ایک محترم ساتھی طلعت حسین بھی اپنا چینل چلارہے ہیں۔ذاتی طورپر مجھے ان کا اختیار کردہ انداز بہت بھاتا ہے۔حق گو یوٹیوبر کی اکثریت مگر انہیں مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے رکھتی ہے۔ان کی دی خبروں کو اکثر غلط ثابت کرنے کی تڑپ میں مبتلا نظر آتی ہے۔یوٹیوب پر مقبول صحافیوں کی بدولت چند روز قبل یہ اطلاع آئی تھی کہ وفاقِ پاکستان کو مبینہ طورپر کمزور کرنے والی اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔

اس ترمیم کے خاتمے کے لئے پارلیمان سے دوتہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی۔عمران حکومت کو یہ حمایت میسر نہیں۔شہباز شریف کی قیادت میں چلائی پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کا تعاون درکار ہوگا۔اس تعاون کے حصول کے لئے ’’بیک ڈور‘‘ روابط کا سلسلہ شروع ہوا تو ان جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ نیب قوانین میں نرمی لائی جائے۔

سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کے عوض اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے عمران حکومت سے ویسے ہیNROکے طلب گار تھے جو جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو فراہم کیا تھا۔محترمہ اس NROکا بدقسمتی سے فائدہ نہ اٹھاپائیں۔راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب انہیں گولی کا نشانہ بنادیا گیا۔آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ ان کے قتل کا حقیقی ذمہ دار کون تھا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے راولپنڈی ہی میں قتل کی مانند یہ قتل بھی تاریخ کی پراسرار کہانیوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔وہ دُنیا سے رخصت ہوگئیں تو جنرل مشرف بھی NROکا فائدہ اٹھاپائے۔

استعفیٰ دے کر ایوان صدر سے رخصت ہوگئے۔ ان کی جگہ آصف علی زرداری اس ایوان میں براجمان ہوگئے۔بالآخر افتخار چودھری نے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹنے کے بعد NRO ہی کو خلافِ آئین وقانون ٹھہرا کر کالعدم قرار دے دیا۔المختصر مذکورہ NROاس کے کلیدی فریقین یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے لئے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔مذکورہ NROکے ہولناک انجام کے بعد عمران خان صاحب ایک اور NROدینے کو تیار کیوں ہوں گے؟ یہ سوال ہمیشہ میرے ذہن میں گردش کرتا رہا۔ یوٹیوب Influencersکی مہربانی سے بالآخر یہ خبر مل گئی کہ کپتان ڈٹ گیا ہے‘‘۔ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے عوض ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی جاں بخشی کو ہرگز آمادہ نہیں۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود رہا کہ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشانہ بنانے کے مصمم ارادے کے ساتھ اٹھارویں ترمیم کو ’’وفاق دوست‘‘ بنانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کیسے حاصل کی جائے گی۔

اس ضمن میں چند یوٹیوبرز نے میری معاونت فرمائی۔ ان کی اکثریت اصرار کررہی ہے کہ شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی ا جارہ داری سے تنگ آئے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ پارلیمان کی اکثریت بتدریج عمران حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہورہی ہے۔شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اٹھارویں ترمیم کو ’’وفاق دوست‘‘ بنانے پر رضامند نہ ہوئے تو ان کی جماعتوں میں بیٹھے محبانِ وطن سینہ تان کر ممکنہ آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے کو تیار ہوجائیں گے۔

اپنی جان کی امان پاتے ہوئے میں یہ فریاد کررہا ہوں کہ عمران حکومت کو اگر واقعتا اٹھارویں ترمیم کو ’’وفاق دوست‘‘ بنانے کے لئے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان کی حمایت درکار ہے تو شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ’’بغاوت‘‘ کا انتظار کیوں۔

چند ہی ماہ قبل ان دونوں رہ نمائوں نے ایک اہم ترین قانون کو تاریخی سرعت سے پاس کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ قانون 12-12منٹ کی عجلت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور نہ ہوتا تو ریاست کے ایک اہم ترین ادارے کے کلیدی منصب کی میعاد ِ ملازمت کے بارے میں بحران کو ہوا دینے والے سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے۔

آئین کی اٹھارویں ترمیم کو ’’وفاق دشمن‘‘ شقوں سے پاک کرنے کے لئے یہ دونوں رہ نما میری عاجزانہ دانست میں ایک بار پھر Statesmanlyذمہ داری دکھاسکتے ہیں۔

تاریخی عجلت سے پاس ہوئے قانون کے حوالے سے بھی ان دو رہ نمائوں نے کوئی NROطلب نہیں کیا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد شہباز شریف لندن سے وطن لوٹے تو نیب نے انہیں طلب کرلیا۔

راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ٹی وی سکرینوں پر تواتر سے نمودار ہوکر یہ خبردے رہے ہیں کہ عید گزرنے کے چند ہی دن بعد شہباز شریف نیب کی حراست میں ہوں گے۔

اس کے بعد شریف خاندان کے لئے ’’نالے لمبی تے نالے کالی‘‘ رات شروع ہوجائے گی۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے ایک اور قدآور رہ نما –

شاہد خاقان عباسی-بھی ان دنوں حفاظتی ضمانت پر ہیں۔ نیب نے انہیں ایک تعیناتی کے سلسلے میں کراچی طلب کررکھا ہے۔

یوٹیوبرز کی اکثریت کو کامل اعتماد ہے کہ وہ بھی شہباز شریف جیسے انجام سے دو چار ہوں گے۔پیپلز پارٹی فی الوقت احتساب کی تپش سے محفوظ نظر ا ٓرہی ہے۔کرونا کی وجہ سے مسلط ہوئے لاک ڈائون کے حوالے سے مگر عمران حکومت مراد علی شاہ کے رویے سے بہت نالاں ہے۔

تحریک انصاف کو یہ شکوہ بھی ہے کہ سندھ حکومت اس کی بنائی ’’ٹائیگرفورس‘‘ کو غریب دیہاڑی داروں کی خبر گری کی Space نہیں دے رہی۔ کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کی اکثریت بھی سندھ میں لاگو ہوئے کڑے لاک ڈائون سے بہت خفا ہے۔وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین کرونا بحران سے نبردآزما ہونے کے ضمن میں ابھرے اور شدت سے گہرے ہوتے اختلافات کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ وباء کے مقابلے کے لئے اپنائی حکومتی حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لئے ہماری اعلیٰ ترین عدالت نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک معزز اور سینئر جج نے سرکار کو سختی سے آگاہ کیا کہ وہ اپنے تئیں کوئی مؤثر حکمت عملی تیارنہ کرپائی تو سپریم کورٹ اپنے ایک حکم کے ذریعے چند گائیڈ لائنز دینے کو مجبور محسوس کرے گی۔

یوٹیوب کے ذریعے ہمیں سچی خبریں دینے والے کئی افراد یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ غالباََ سپریم کورٹ بالآخر واضح گائیڈ لائنز دینے کو مجبور ہوجائے گی۔ ان گائیڈ لائنز کے ہوتے ہوئے سندھ حکومت کرونا اور لاک ڈائون کے حوالے سے ’’من مانی‘‘ پالیسیاں اختیار نہیں کرپائے گی۔

اس کی ’’من مانی‘‘ سپریم کورٹ کی وساطت سے Checkہوگئی تو شاید 18ویں ترمیم میں ’’وفاق دوست‘‘ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے کوئی ’’مک مکا‘ ‘ کئے بغیرہی عمران حکومت کرونا بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنی ترجیح کے مطابق فیصلے کرنا شروع ہوجائے گی۔

اٹھارویں ترمیم کے بارے میں ریگولر اور سوشل میڈیا پر چلائی بحث لہذا کچھ دنوں کے لئے مؤخر ہوتی نظر آرہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں ’’وفاق دوست‘‘ تبدیلیاں فوری طورپر لانے کی ضرورت باقی نہ رہی تو عمران حکومت کو نیب قوانین میں تھوڑی نرمی لانے کا بوجھ بھی اٹھانا نہیں پڑے گا۔ اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا کپتان NROدیتا نظر نہیں آئے گا۔


بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author