دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کی تعیناتی مظفرگڑھ کے ستم رسیدہ عوام کو مبارک ہو۔ آپ کی پیشہ ورانہ غیرت اور عدل گستری کا جاں پرور دلاسہ دلِ دل زدگاں تک پہنچ چکا ہے۔

ہمیں سب پتہ ہے کہ وعدوں اور نعروں کے سٹال لگانے والے مداری نما تاجر ایک موسم میں آتے ہیں اور ایک موسم میں جاتے ہیں- چار موسموں میں چار حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر افسرِ سرکار کی ہشت پہلو گھومتی ہوئی کرسی کو کسی موسم کا دیمک نہیں کھاتا۔ عوام کا حقِ رائے دہی عوامی نمائندوں کی ٹانگ کھینچ سکتا ہے، شاہ کا تخت گرا سکتا ہے مگر نوکرِ شاہ کے ماتھے سے پسینے کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکا سکتا-
تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا لو، کسی دریا میں چھلانگ مار دو یا ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ جاؤ، تم بیورکریٹ کے میٹھی نیند والے خراٹے بھی نہیں توڑ سکتے-
بھلا کبھی کوؤں اور لالیوں کے شور مچانے سے بھی اژدھے کا پھن ٹوٹا!!
ہمیں سب پتہ ہے؛ کہ 22 ویں گریڈ پر رکھی ہوئی اونچی کرسی کی شان کیا ہے اور زمانے میں مزدور کا بھیس بدل کر پھرتے ہوئے خدا کی اوقات کیا ہے! ہمیں پتہ ہے کہ امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے- عام آدمی کا تو خیر شمار بھی کیا اور قطار بھی کیا؛ وکلاء، شعراء اور صحافی بھی افسرِ سرکار کے حضور پہنچتے ہیں تو سبھی ہاتھ باندھ کر عرض گذار ہوتے ہیں۔
ہر افسرِ سرکار ترچھی ٹوپی والے قائد کی فوٹو پشت پر اور اس فوٹو والی نیلی پیلی پرچیاں آنکھوں سے لگاتا ہے- ہر دفتر میں رشوت کی گرم بازاری ہے اور ہر فائل سفارشی رقعوں کی سیاہی میں لتھڑی ہوئی ہے- ہمیں پتہ ہے کہ ہم سادہ کاغذوں والے فقیروں کیلئے کسی دفتر میں کوئی میز نہیں رکھی ہوئی۔
خاص طور پر پولیس افسروں اور تھانوں سے متعلق بات کی جائے تو عجیب خوف دل میں بیٹھا ہوا ہے کہ دم ہونٹوں سے نکلتا ہے مگر خوف دل سے نہیں نکلتا- معاشرے میں مافیاز اور جرائم پیشہ غنڈوں اور بدمعاشوں سے بھاگ کر اور فریاد لے کر تھانوں میں جائیں تو رہی سہی عزت اور بچی کھچی امید منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ پولیس والے خاک میں ملا دیتے ہیں۔
ایسے پر آشوب دور میں سید ندیم عباس نامی روشن چہرے اور روشن چہرے اور روشن ضمیر والا سخی سید ڈی پی او مظفرگڑھ تعینات ہوتا ہے، آپ کی تعیناتی مظفرگڑھ کے ستم رسیدہ عوام کو مبارک ہو۔ آپ کی پیشہ ورانہ غیرت اور عدل گستری کا جاں پرور دلاسہ دلِ دل زدگاں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ پہلی بار کوئی پولیس افسر "نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو” کی مثال پیش کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔یہ پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ بے کسوں کی ہمت بندھنے لگی ہے- شنوائی کی امید نے آنکھ کھولی تو مظلوموں اور مجبوروں کے خشک تالوؤں سے لپٹی ہوئی فریادوں کا رس ہونٹوں کی پیاس بجھانے لگا- پہلی بار پھٹی ہوئی قمیصوں اور ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلوں والے فریادی، تھانوں میں دندناتے پھرتے دکھائی دئیے، پہلی بار تھانے "شریفوں کیلئے دارلامان” کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے نظر آنے لگے- بقول بیدل حیدری
یہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے
ترا بیمار اچھا ہو رہا ہے
سید ندیم عباس کے آنے سے پہلی بار ویرانے میں بہار آئی ہے۔اور یہ بہار وعدوں اور نعروں کے سٹال لگانے والے تاجروں کے لیے خزاں ثابت ہوئی۔ڈر اور خوف کا کاروبار کرنے والوں نے سوچا کہ سید ندیم بھی سرکاری مشینری کا وہی پرزہ ہے جو لامحالہ سیاہ ست دانوں کی چرخی گھمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ سید تو خود بادشاہ ہیں سادات کی شاہی میں تو غریب اور مفلس ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔جب اک سیاہ ست دان نے زعم میں آ کر من مرضی کرنا چاہی تو سید بادشاہ ڈٹ گئے۔پبلک سرونٹ سید ندیم نے عوام کی نوکری کو مقدم جانا اور فرض سے غداری سے انکار کر دیا۔وہی انکار پہ جو سادات کا شیوہ رہا ہے۔چودہ سو سال گزر گئے مگر کردار نہیں بدلے وقت کے یزید نے عوام پہ دباؤ ڈالنے کے لیے سید کی بیعیت چاہی سید نے حسینی ہونے کا ثبوت انکار کی صورت پیش کر دیا۔انکار نے انا کو ٹھیس پہنچائی اور پنجاب اسمبلی میں سید بادشاہ کے خلاف تحریک استحقاق پیش کر دی گئی۔خرم لغاری نامی سیاستدان شاید بھول گئے کہ جس عوام نے ان کو اسمبلی میں پہنچایا اسی عوام کی خاطر تو سید کھیل رہے تھے۔عوامی ردعمل نے سیاہ ست دان کو احمقوں کی جنت کا ادراک کرایا ۔عوام کھل کر ڈی پی او سید ندیم عباس کی حمایت میں سامنے آئے۔
ہم نے بھی سرسری سا سنا کہ پہلی بار عوام نے عوامی نمائندے کو پچھاڑ دیا۔ہم آگے بڑھ گئے۔پھر وہ واقعہ ہوا کہ جس نے ہمیں پیچھے مڑنے اور سید کو سلام کرنے پہ مجبور کر دیا۔اصغر گورمانی سرائیکی وسیب کا شاعر ہے وسیب اصغر سے پیار کرتا ہے۔اصغر کو عوام کا چہیتا قرار دیا جاتا ہے۔اک نو دولتیے نے دولت کے زعم میں آ کر اک غریب جوڑے پہ ظلم کیا۔معذور شوہر اور کمزور بیوی کو مارتے رہے رولتے اور رلاتے رہے۔یہ جوڑا اصغر کا رشتے دار تھا۔محبتیں بانٹنے والے اصغر کے لیے یہ صورت حال تکلیف دہ تھی۔اصغر گورمانی بہت سے تحفظات لے کر سید ندیم عباس کے دفتر میں گئے مگر تیس منٹ بعد وہ سید کے گیت گاتے ہوئے باہر نکلے۔یہ پہلی بار تھا کہ کسی غریب آدمی نے بنا کسی سفارش،بنا کسی پیسے کے افسر شاہی کے دربار سے انصاف حاصل کیا۔اور دولت والے اثر والے رسوخ والے تعلقات والے کٹہرے میں لائے گئے۔
سید ندیم عباس جب سے ڈی پی او مظفرگڑھ تعینات ہوئے ہیں تب سے نچلے نہیں بیٹھے کبھی رات گئے تھانوں پہ چھاپے مار رہے ہیں کہ محافظ کہیں سو تو نہیں رہے،کبھی کسی ایسے علاقے میں کھلی کچہری لگا رہے ہیں جہاں سے شہر کی طرف خبریں زیادہ اور انسان کم آتے ہیں۔وبا کے دنوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی پولیس کے سپہ سالار ہیں سید ندیم عباس،اپنے محکمے کی کالی بھیڑوں پہ مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کرنے والے ہیں سید ندیم عباس۔کل تک سائیل تھانے آنے سے گھبراتے تھے آج وہ ڈی پی او آفس میں صوفوں پہ براجمان نظر آتے ہیں۔پھٹے حال بوسیدہ لباس میں ملبوس دکھوں کی چادر اوڑھے غریب عوام کھلے چہرے لے کر دفتر سے برامد ہوتے ہیں۔ہم جیسے تنقید کرتے ہیں جی بھر کر کرتے ہیں مگر تعریف کرتے وقت ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں
آج ہم چپ شاہ کا روزہ توڑ رہے ہیں آج ہم مزاج کے خلاف جا کر دل کی بات کرتے ہیں آج ہم بھی نعرہ لگاتے ہیں کہ سید ندیم عباس زندہ باد،زندہ باد یار زندہ باد۔دھرتی کو اس دھرتی زادے پہ ناز ہے۔

رضوان ظفر گورمانی

About The Author