ہمارے دوست رشید یوسفزئی نے مولانا بھاشانی کی سیاست میں فقیری کا ذکر کیا…
تو یاد آیا کہ ہمارے استادِ محترم جناب اسلم رسول پوری نے بھی تو اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مولانا عبدالحمید بھاشانی کی پارٹی سے کیا تھا.
ان کے پاس پہنچے
سرکار
کچھ یادیں… کچھ باتیں.. مولانا کی…..
سر جھکایا… سوچا… سربلند ہوا تو بولے….
(بلند سر ہی تو بولتے ہیں جھکے تو غلامی در آتی ہے)
عوامیت، دلبری، فقیری، قلندری ،سچائی اور سب سے بڑھ کر انسانیت… ایک جگہ جمع کریں تو مولانا کی ذات بنتی ہے….
ایک جادو تھا ایک سحر تھا ایک کرشمہ تھا… کرشمے سے یاد آیا… پاکستان نے دو کرشماتی شخصیات پیدا کی ہیں.
بھٹو اور مولانا بھاشانی
باقی…
باقی ہیں کیا؟
تئیس سے پچیس اپریل انیس سو ستر کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرس… آج بھی پاکستان کی عوامی تاریخ کا روشن باب ہے…
ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے علاقے میں کیوں؟
چوہدری فتح محمد کا اس علاقے میں تنظیمی کام اس لائق تھا..
لوگ تھے، جنون تھا، قافلے تھے اور رواں تھا جلوسِ عاشقاں.. سرخ ٹوپیاں خون رنگ عَلم… اور نعرے…..
ایک دوست کی حسین منکوحہ ساڑھی میں ملبوس اپنی دُھن میں نعرہ زن… دھول، مٹی، لباس کوئی ہوش نہیں…
کہا
بہنا
ساڑھی سنبھال کے ..
کہنے لگی…
بھیا
دیس سنبھل جائے تو لباس خود بخود درست ہو جائیں گے.
بس جلسہ گاہ پہنچنا ہے اور مولانا کی تقریر سننی ہے… اس جلسے کی یادیں ہی تو آج ہمارا سرمایہ ہیں.
مولانا آئے بازو پر پٹی بندھی… پوچھا… خیریت.. کہنے ٹرین میں ایک بندے نے مجھے گرایا مارا اور کل کائنات چھے آنے چھین کر بھاگ کھڑا ہوا… اسی میں زخم آیا…
ایک دفعہ قسور گردیزی کی کوٹھی پر ملاقات کے لئے پہنچے… کارکنوں کا ہجوم… اندر کمرے میں بھی رش… ہم نے زور زور سے دروازہ پر دستک دی … خود باہر آئے لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور اندر، باہر سے سب کو بلایا اور کہا میں تو عوامی آدمی ہوں کمروں میں بند ہونے سے ہماری سانس ہی نہیں روح بھی مر جاتی ہے. سارے بیٹھو… ہم بیٹھ گئے. گھنٹوں باتیں ہوتی رہیں سب کے سوالوں کے جواب دیئے کہنے لگے جب آپ تھک جائیں گے میں پھر آرام کروں گا… بھاشانی تو آپ کے دم سے سلامت ہے.
ایک واقعہ یاد کرتے استاد محترم بولے.
ایک دفعہ ملتان میں پھر ملے قسور گردیزی کے ایک دوست نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی… تم بنگالی غدار ہو ملک کی تقسیم چاہتے ہو.. ون یونٹ کا خاتمہ تمہارا منشور ہے وغیرہ وغیرہ… آرام سے سنتے رہے… پھر بولے
بھائی میرے
ہم حقوق کی بات کرتے ہیں، بلوچستان کو اس کا حق دو، سندھیوں کا استحصال نہ کرو… اور یاد رکھو تفریق، امتیاز سگے سوتیلے سلوک سے ملک متحد نہیں رہتے.
اپنی جنم بھومی سنتوش میں جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے سائے میں دفن مولانا بھاشانی احتجاج، برابری، انصاف اور عوامی حقوق کا نام ہے..
مسلم لیگ میں رہے تو برابری کی بات کی آسام اور سلہٹ کو پاکستان کا حصے اس لئے بنایا کہ عوام سکھی ہو جائیں… فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں امیدوار بنایا اس لئے کہ مارشل لاء میں عوام کا دم نہ گُھٹے. سہروردی سے سیٹو سینٹو امریکی بلاک میں جانے کی مخالفت کرنے والا بھاشانی جنوبی ایشیا کے عوامی اور خاص طور پر کسان راہنماؤں کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے
جب پنجابی استحصال نے مجیب کے ریلے کا بند توڑ دیا تو مولانا بھی اسی میں بہہ گئے. دیوبند کے تعلیم یافتہ بھاشانی کو سرخ مولانا سے یاد کرنے والوں کو عمر کے آخری سال چھیانوے سالہ مولانا بھاشانی کے مارچ انیس سو چھہتر میں گنگا کے پانیوں پر فرخا بیراج بنانے پر انڈیا کے خلاف سو کلو میٹر کا لانگ مارچ آج بھی یاد ہے. بلکہ قومی سطح پر آج بھی سولہ مارچ کے دن تقاریب منعقد ہوتی ہیں .
یادوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا.
رسول پوری صاحب کہنے لگے… بنگلہ دیش بننے کے بعد حکومتی جبر اور ناانصافی کے خلاف ہفتہ روزہ "حق کتھا” میں ریاست کو للکارنے کا عمل جاری رکھا اور آخر کار مجیب انتظامیہ کو ان کا رسالہ بند کرنا پڑا…. لیکن اخبار بند ہوا ان کی جدوجہد جاری رہی اور جس طرح ایوب خان نے انہیں کہا تھا مولانا بوڑھے ہو گئے ہو ریٹائر ہو جاؤ مولانا نے جواب دیا جب تک اللہ ریٹائر نہ کرے اس وقت تک کام جاری رہے گا.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر