نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

07، مئی:یوم شہادت رزاق جھرناشہید۔۔۔ رؤف لُنڈ

رزاق جھرنا نے پھانسی پر چڑھنے والی پہلی رات صرف جاگ کر نہیں گزاری بلکہ وہ کبھی انقلابی شاعری گنگناتا تو کبھی بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتا

07، مئی 1984ء یوم شہادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہید رزاق جھرنا

وہ جو بقول فیض احمد فیض تاریک راہوں میں مارا گیا۔۔۔۔۔۔ ضیاءالحقی آمریت میں جس کا وجود عزم و ہمت کی علامت تھا اور جس نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بہادری کی لازوال داستان رقم کردی۔۔۔۔۔۔۔
رزاق جھرنا ! جس کے لہو سے پکنے والی فصل کو لُٹیروں نے اجاڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں ضیاء الحقی ننگی اور منحوس آمریت کے خلاف سینہ سپر ہوکر بے دردی اور بے جگری سے لڑ کر اس کو عبرتناک شکست دینے والوں کی ایک لمبی فہرست میں بائیں بازو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے بیشمار نام آتے ہیں ہے تاہم اس فہرست کے تابناک ستاروں میں ایک روشن ستارے کا نام شہید رزاق جھرنا ہے۔۔۔۔۔۔

رزاق جھرنا نام نہاد دانشوری سے کوسوں دور تھا۔ مگر اس میں یہ جذبہ اور ادراک بدرجہ اتم موجود تھا کہ غریب اور امیر کی وسیع خلیج کو قائم رکھنے والا سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کسی ایک انسان ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے قاتل نظام ہے۔ رزاق جھرنا شعر و شاعری میں دلچسپی رکھنے والا، ہنس مکھ اور بڑا نفیس انسان تھا۔ مگر عزم و حوصلے کا ایک پہاڑ تھا۔ اس نے ضیاء الحقی جبر کے سامنے جھکنے کی ہر شکل سے انکار کیا ۔ جسکی چھوٹی سی مثال اس طرح ہے کہ جب رزاق جھرنا کو پہلی بار کوٹ لکھپت جیل لاہور کیلئے لایا گیا تو رزاق جھرنا نے جیل کے چھوٹے دروازے سے جھک کر گزرنے کو اپنی توہین سمجھا اور جیل حکام سے مطالبہ کیا کہ اس کیلئے جیل کا مرکزی دروازہ کھولا جائے۔۔۔۔
اس گستاخی پر رزاق جھرنا پر تشدد کا ہر حربہ آزمایا گیا مگر وہ رزاق جھرنا کو جیل کے چھوٹے دروازے سے گزارنے میں نا کام رہے بالاخر اس کیلئے کوٹ لکھپت جیل کا مرکزی دروازہ کھولا گیا۔۔۔۔۔
رزاق جھرنا پر زندگی میں کسی اخلاقی جرم کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں تھی نہ ہی وہ کوئی بدمعاش تھا مگر ضیائی آمریت کے حکام رزاق جھرنا سے اس قدر خوفزدہ رہتے تھے کہ اس پر جیل کے اندر نہ صرف رینجرز کا جتھہ تعینات رہتا بلکہ اس کے ارد گرد جیل کی ٹینکی اور دوسری دیواروں پر اینٹی ائر کرافٹ گنز نصب تھیں ۔۔۔۔۔

رزاق جھرنا نے پھانسی پر چڑھنے والی پہلی رات صرف جاگ کر نہیں گزاری بلکہ وہ کبھی انقلابی شاعری گنگناتا تو کبھی بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتا۔رزاق جھرنا مزے لے لے کر اس طرح کی شاعری گنگاتا رہا کہ ۔۔۔۔

کوئی بازار وکاندیاں تاراں ۔۔۔۔ اساں بھٹو شہید دے یاراں

یا
مِل کے دُکھی سارے اپنا راج لے آواں گے
اپنی محنت دا پھل اسی آپ ای کھانواں گے

اور

توڑیں گے اہلِ وطن اب ظلم کی ہر زنجیر
ظالم ہونگے اب مظلوموں کے ہاتھوں اسیر
مِلوں اور جاگیروں والا پاکستان ہمارا ھے
کیسے روکیں گے ہم کو سُرخ نشان ہمارا ھے

اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ رزاق جھرنا علی الصبح جئے بھٹو اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چُوم کر امر ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر افسوس کہ رزاق جھرنا نے جس روشن مقصد کیلئے جان قربان کی اس کا بلادکار کیا گیا۔ اس کے مشن پر چلنے کی بجائے ضیاءالحقی آمریت کے جانشینوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کے کلیدی عہدوں پر براجمان کر دیا گیا۔ قومی اداروں کی نجکاری کی گئی اور رزاق جھرنا نے ملوں اور جاگیروں کو محنت کش اکثریتی طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لاتے ہوئے جس غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس کا وہ خواب اب تک شرمندہِ تعبیر نہیں ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن تاریخ گواہ ھے کہ انسانیت کیلئے قربانیاں دینے والوں کے آدرش نظر انداز تو کئے جا سکتے ہیں مگر ان کو فراموش اور ختم نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔

شہید رزاق جھرنا ! آج ہمارا آپ سے عہد رہا کہ ہم سب محنت کش آپ کے سچے جذبوں سے رہنمائی اور شکتی لیتے ہوئے نسلِ انسانی کی نجات کیلئے سوشلسٹ سماج کا سرخ سویرا لا کے رہینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب

About The Author