لیجئے ادارہ شماریات پاکستان نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران 13مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دودھ، دہی، بیف، مٹن اور برائلر کا گوشت ان اشیاء میں شامل ہیں۔ ساعت بھر کیلئے اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر بازار کا رُخ کیجئے۔
قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اعشاریہ 72فیصد نہیں بلکہ 25فیصد سے زیادہ ہے۔ وجہ رمضان المبارک ہے، خدا خوفی کا شکار لوگوں (مسلمانوں) کیلئے یہ رحمتوں اور منافع خوروں کیلئے لوٹنے کا مہینہ ہے۔
ابھی مزید مہنگائی ہوگی، عیدالفطر کے قریب حکومت اور اس کے ادارے ہمیشہ کی طرح بیانات جاری کریں گے، ہوگا کچھ نہیں، پہلے کبھی کچھ ہوا؟
کچھ بھی نہیں، چند تسلی بھرے بیانات واعلانات اور ذمہ داری ختم۔
دو دن ادھر ایک نوجوان رپورٹر سے عرض کیا تھا
”عزیزم مہنگائی کے حوالے سے ادارہ شماریات کی رپورٹ کیساتھ اگر بازار کا چکر بھی لگا لیا کرو تو قارئین کو بہتر معلومات فراہم کر سکو گے“
پچھلی شب اس کا فون آیا کہنے لگا شاہ جی! آپ کے مشورے پر عمل کر کے دیکھا۔ ہر دکان پر مختلف ریٹ ہیں، یہاں تک مختلف علاقوں میں بھی۔
عرض کیا دکاندار بھی اب طبقاتی بنیادوں پر چُھری پھیرنے لگے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس رفتار سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس کا نوٹس لینے اور قوانین پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ
”مسائل کی بڑی وجہ لاک ڈاؤن ہے، بھوک اور کورونا دونوں سے بچنا ہے، لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ کھول رہے ہیں“
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ایک ہفتہ کے دوران کورونا مریضوں کی تعداد میں سو فیصد اضافہ ہوا، یہ اضافہ لاک ڈاؤن میں نرمی کیساتھ خود شہریوں کی اپنی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ ملک میں اس وقت کورونا کے 21007مریض ہیں کل سوموار کے روز 26افراد جاں بحق ہوئے۔ بیرون ملک سے آنے والے 293مسافروں کا کورونا ٹیسٹ پازیٹوں آیا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ حکومت اور عوام (حکومت سے مراد وفاقی حکومت ہے) چاہتے کیا ہیں؟
بہت ادب سے عرض کروں کہ حکومت کی سوچ کا اندازہ وفاقی وزیر اسد عمر کی اس بات سے لگا لیجئے کہ
”لوگ تو ٹریفک حادثات میں بھی جاں بحق ہوتے ہیں تو ان اموات کی وجہ سے ٹریفک بند کر دی جائے“۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا مخمصہ ابھی تک برقرار ہے۔
چلیں لاک ڈاؤن ختم کردیں، پھر کیا ہوگا؟
ملکی اور عالمی ماہرین کہہ رہے ہیں کورونا کے حوالے سے پاکستان میں جولائی تک خطرات موجود ہیں۔ یقیناً جولائی تک لاک ڈاؤن نہیں رکھا جا سکتا۔
بے ہنگم ہجوم جسے خوش فہمی میں مبتلا لوگ قوم کہتے ہیں اس ہجوم کو سنجیدگی کیساتھ ماہرین طب کی ہدایات پر عمل کرنے کیلئے کون آمادہ کرے گا؟
آخری راستہ وہی ویت نام والا ہے، حفظان صحت کیلئے وضع کردہ اصولوں کو ایمرجنسی کی طرح نافذ کیا جائے اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو موقع پر جرمانہ اس کے بغیر چارہ کوئی نہیں۔
پچھلے ایک ہفتہ کے دوران مریضوں کی تعداد میں ہوا سو فیصد اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
لاک ڈاؤن مکمل طور پر ختم ہوا تو اجتماعی خودکشی کے شوقین ہجوم کو کنٹرول کون کریگا؟۔
چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ 18ویں ترمیم وفاق اور صوبوں میں اختیارات سے زیادہ وفاق کے مالی معاملات کا قضیہ ہے۔
این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے وسائل کی تقسیم میں کمی بیشی ممکن نہیں ماسوائے اس کے کہ کوئی صوبہ رضاکارانہ طور پر رضامند ہو۔
اسلام آباد میں بیوروکریسی اور تحریک انصاف کے وزراء دونوں کہہ رہے ہیں کہ پچھلے برسوں میں وفاقی اخراجات بڑھے ہیں اس کی وجہ سے سوچا (بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فیصلہ کر لیا گیا ہے) جارہا ہے کہ صوبوں کے مالیاتی حصے میں سے وفاق کیلئے مزید کٹوتی ایک آرڈیننس جاری کر کے کرلی جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر وفاق این ایف سی ایوارڈ میں سے مزید 300 یا 380ارب روپے کی کٹوتی آرڈیننس کے ذریعے کرنے کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ وفاق اپنے اخراجات اور دیگر معاملات کو بہتر بنانے کیلئے تیار نہیں۔
یہ بات بھی درست نہیں کہ عالمی قرضے وفاق کی گردن پر ہیں، صوبوں سے وفاق کو مالیاتی حصہ ملتا ہے، وفاق صوبوں پر ہی مشتمل ہے، خود سے کچھ نہیں۔
وفاقی ٹیکسز بھی صوبوں سے ہی آتے ہیں۔ مناسب ترین بات یہ ہوئی کہ کوئی عاجلانہ فیصلہ کرنے کی بجائے پارلیمان کا اجلاس بلا لیا جائے اس کیلئے پنجاب اسمبلی والا طریقہ کار اپنانے میں کوئی قباحت نہیں کہ ایک دن کے اجلاس میں 58حکومتی اور 42اپوزیشن کے ارکان شرکت کیا کرینگے۔
بڑے دنوں بعد ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کیلئے اپنے معاون ارباب شہزاد کی اس تجویز سے اتفاق کر لیا ہے کہ وفاقی اداروں میں بیوروکریسی کی خالی 188 نشستوں کیلئے سی ایس ایس کا ایک خصوصی امتحان منعقد کروایا جائے۔
خالی نشستیں بلوچستان، دیہی سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کی ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران ہونے والے سی ایس ایس کے امتحانات میں ان علاقوں کے امیدوار مطلوبہ تعداد میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے یہ تعداد اب 188ہو گئی ہے، اس میں بلوچستان کی 49، دیہی سندھ کی 41، خیبر پختونخوا کی22، شہری سندھ کی19، سابق فاٹا اور گلگت بلتستان کی16 اور آزاد کشمیر کی 2نشستیں خالی ہیں۔
یہ صورتحال یقینا تشویشناک ہے۔
محرومیوں کا شکار چھوٹے صوبوں اور علاقوں کی وفاقی بیوروکریسی میں کم نمائندگی کی بڑی وجہ ان علاقوں کے اُمیدواروں کا پچھلے پانچ سالوں کے امتحانات میں مقررہ تعداد میں کامیاب نہ ہونا ہے۔
وزیراعظم نے بجاطور پر ایک مثبت تجویز کو فیصلہ کے طور پر منظور کرتے ہوئے اچھا اقدام اُٹھایا ہے۔
سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو ٹھنڈے دل کیساتھ اپنے نصاب تعلیم اور تعلیمی معیار بارے سوچنا چاہئے۔
یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلے بیس پچیس برسوں کے دوران تعلیمی شعبہ نورعلم پھیلانے کی بجائے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم بُری طرح متاثر ہوا جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کی نئی نسل کیلئے خوابوں کی تعبیر کا حصول ممکن ہی نہیں رہا۔
وزیراعظم ایک انقلابی قدم اور اُٹھائیں وہ یہ کہ ذاتی طور پر وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم کا اجلاس طلب کریں اور سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کریں تاکہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں بہتر معیارتعلیم سے اصلاح احوال ممکن ہو اور محروم علاقوں کے باصلاحیت نوجوان بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر