میں صحافیوں کی اُس قسم سے تعلق رکھتا ہوں، جنھوں نے کالج اور یونیورسٹی میں جرنلزم/ماس کمیونیکشن کو بطور مضمون کے نہیں پڑھا اور نہ ہی ابلاغیات میں ماسٹرز کیا-
گریجویشن کے زمانے میں جب لاہور آنا ہوا تو مجھے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا تھا- اس دشواری کو ختم کرنے کا میں نے یہ طریقہ ڈھونڈا کہ صبح سویرے میں لاہور کی سبزی منڈی میں سیٹھ عثمان کی دکان پر بُولی کے وقت اندراج کرتا اور رات کو میں لاہور سے نکلنے والے ایک روزنامے میں پروف ریڈر کے طور پر کام کرتا- ان دونوں کاموں سے میرا لاہور میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا جواب شرمندہ تعبیر ہوا- اس دوران ایک فلمی میگزین میں فلموں پر انگریزی زبان میں چھپنے والے مضامین کے اردوترجمے سے بھی مجھے آمدن ہونے لگی- فیچر لکھنے کا شوق بھی چرایا- اور کئی ایک رپورٹرز سے بھی روابط پیدا ہوئے اور خبرنگاری کے طریقے سے بھی واقفیت ہوتی چلی گئی-
پھر کراچی یونیورسٹی میں فلسفے میں ماسٹرز کرنے کے دوران ہی مجھے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ریسپشنسٹ کی جاب کرنا پڑی اور ساتھ ہی ان دنوں میں اپنی یونیورسٹی میں بیروت لبنان سے پڑھنے آئے دوست حامد ابراہیم کے توسط سے الاخبار کے انگریزی ایڈیشن کے لیے کام کرنے والے کراچی میں مقیم حیدر سلیمان سے متعارف ہوا، جنھوں نے مجھے ریسورس رپورٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے ٹرینڈ کیا- میرے انہی کے توسط سے کئی ایک غیر مُلکی خبر رساں ایجنسیوں کے تعینات رپورٹرز سے روابط ہوئے اور میں نے کئی ایک کے ساتھ ریسورس رپورٹرز کے طور پر کام کیا- روزنامہ جرآت کراچی، روزنامہ امن کراچی، روزنامہ جانباز، دی بزنس ریکارڈر کو ان دنوں میں نے اپنی کئی خبریں، ریسرچ فیچر، رپورٹس اور تجزیے بھی دیے- ڈان کے سینئر اسٹاف رپورٹر مرحوم شمیم صاحب میرے لیے اس دوران ایک یونیورسٹی، انسائیکلوپیڈیا ثابت ہوئے- دھان پان سے شمیم صاحب کے ساتھ ہنڈا ففٹی پر میں نے کراچی شہر کی سڑکیں ناپیں اور اُن جیسا درویش صفت، قناعت پسند اور اپنے بے پناہ سماجی و سیاسی روابط کے باوجود ایک روپے کا فائدہ نہ اٹھانے والا دوسرا میں نے نہیں دیکھا-
خبر لکھنے میں معروضیت پر سفاکی کی حد تک عمل پیرا اُن جیسا صحافی شاید ہی کوئی دوسرا ہو- اُن سے میں نے یہ سیکھا کہ واقعہ بارے رپورٹ کرتے ہوئے اپنے خیالات اور اپنی ‘میں’ کو ایک طرف رکھ دینا شعبہ صحافت سے انصاف کرنے کا پہلا بنیادی اصول ہے- یہ اصول نظر انداز کرنے کی صورت میں خبر کا استناد تو برباد ہوتا ہی ہے اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی ہے-
میں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ میں کوئی سرکاری نوکری نہیں کروں گا اور شعبہ تدریس کی طرف آؤں گا- کچھ عرصہ درس و تدریس کے دوران مجھے رہ رہ کر اپنے آزادی افکار کے مقید ہونے کا احساس ہوا تو ایک حادثے نے مجھے خود کو یہ زنجیر توڑنے کا موقعہ فراہم کردیا- اور میں نے باقاعدہ صحافت کو جوائن کرلیا- یہاں بھی شمیم صاحب میری مدد کو آئے اور انہوں نے مجھے اس شعبے میں مہارت حاصل کرنے میں مدد کی-
میں نے اُس کے بعد پَلٹ کر نہیں دیکھا-
لیکن اس دوران مجھے گھریلو مسائل کے سبب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے خانیوال اپنے والدین کے پاس آنا پڑا اور 1999ء سے لیکر 2004ء تک اسی شہر میں محدود ہونا اور اپنے والد کے بزنس کو دیکھنا پڑا- 2005ء میں تھوڑا سا سانس لینے کا موقعہ میسر آیا تو میں نے پھر سے جزو وقتی صحافت شروع کردیا- یہ صرف کالم نگاری، کبھی کبھار انوسٹی گیٹو نیوز اسٹوری تک محدود تھی- میں سنجیدگی سے پھر شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کا سوچ رہا تھا کہ مجھے
Drazen Jorgic
نے کانفلکٹ زونز سمیت سدرن پاکستان سے متعلق کئی ایشوز پر رپورٹنگ اسائنمنٹ کی پیشکش کردی- معاوضہ اچھا تھا اور اس میں ایڈونچر بھی تھا تو میں نے ایک بار پھر سورس نیوز رپورٹر کے طور پر کام شروع کردیا جبکہ اس دوران روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ آج کل لاہور، ہفت روزہ جدوجہد میں کالم، مضامین، تراجم بھی لکھ رہا تھا- اسی دوران ہفت روزہ ہم شہری لاہور میں بھی بطور اسٹاف رپورٹر میں کام کرنے لگا اور میری کئی خصوصی کور نیوز اسٹوری ہم شہری کے ٹائٹل کا عنوان بنیں جوکہ میں اکثر جارجک کی اسائنمنٹ سے ہی اردو پرنٹ میڈیا کے لیے بنا لیا کرتا تھا- اس دوران مجھ سے برطانوی روزنامے گارجین کے اسلام آباد میں مقیم جان بون، نیویارک ٹائمز کی سبرینا ٹروینز، عراقی جرنلسٹ احمد سعداوی، برطانوی روزنامے کے مڈل ایسٹ میں وار رپورٹر رابرٹ فسک، برطانوی معروف صحافی جان پلجر، الاخبار بیروت کے ایڈیٹر ابراہیم امین، ٹائمز آف انڈیا کے جنوبی ایشیائی ڈیسک کے انچارج، بنگلہ دیشی اخبار دی سٹار سمیت کئی ایک بین الاقوامی رپورٹرز اور ایجنسیوں کے لیے نیوز اسائنمنٹ پر کام کرنے کا موقعہ ملا- اے ایف پی کے کئ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ رپورٹرز کے ساتھ نیوز اسائنمنٹ کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے- اس ساری مشق نے مجھے کُل وقتی /ھول ٹائمر صحافی میں بدل ڈالا- میں نے کئی ایک نیوز ویب سائٹس کے لیے بھی کام کرنا شروع کیا-
اس سارے عمل میں جہاں روزی روٹی پیدا کرنے کا بنیادی مقصد شامل تھا، وہیں میری اپنی طبعیت اور ذوق کے سامان کو پورا کرنا بھی مقصود تھا-
میں نے اپنے صحافتی سفر میں بارہا ایسے علاقوں کا سفر کیا جہاں پر قدم قدم پر خطرات تھے، موت سر پر منڈلا رہی تھی اور کئی بار تو موت کے منہ سے واپس آیا لیکن اس سارے سفر میں، ایک بار بھی موقعہ پرستی، کمرشل ازم کو پاس پھٹکنے نہیں دیا-
میرا مقصد کبھی بھی شہرت حاصل کرنا یا لوگوں کی توجہ کا مرکز بننا نہیں رہا-
میں سب سے زیادہ غیرمطمئن اور بے چینی اور بد دلی کے ساتھ جو کام کرتا رہا ہوں وہ ‘مقامی رپورٹنگ’ ہے جو بعض اوقات مجھے بانجھ قسم کا کام لگتا رہا ہے- اب بھی میں اسے کچھ زیادہ مستعدی کے ساتھ نہیں کرتا لیکن مقامی صحافتی برادری میں موجود رہنے کے لیے یہ کام کرنا ہی پڑتا ہے- میں اگر صحافت کی طرف نہ آتا تو کسی سرکاری یا نجی تعلیمی ادارے میں استاد بن گیا ہوتا- لیکن حالات آپ کو بعض اوقات آپ کی اپنی خواہشات کے بالکل الٹ سمت سفر کرنے پر مجبور کرڈالتے ہیں-
(آزادی صحافت کے عالمی دن پر ایک تنظیم کی طرف سے پوچھے گئے سوال، ‘آپ صحافی کیسے بنے؟’ کے جواب میں لکھا گیا)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر