جب میں ڈیرہ اسماعیل خان کی پرانی تقریبات ۔ میلے ٹھیلے ۔شادی بیاہ کی رسومات پر کالم لکھتا ہوں تو چونکہ نئی نسل نے وہ وقت نہیں دیکھا اس لیے سوالوں کی بھر مار شروع ہو جاتی ہے۔ بہت سے سوالوں کے جوابات میرے پاس بھی نہیں ہوتے کہ یہ قدیم روایات کیسے اور کیوں شروع ہوئیں؟ بس جو دیکھا لکھ دیا۔ہم نے ان رسومات پر تحقیق نہیں کی بس اسے enjoy کیا اور اب لکھ کر پیش کر دیا۔ پچھلے کالم میں ڈیرہ کی سرکس سے متعلق گھڑا گھڑولی کا ضمنا” ذکر ہوا تو شادی ہال والی نئی نسل پیچھے پڑ گئی کہ .. 5ws اور ون H کا جواب دو۔یعنی Why.what.when.where.who and how…بھائی لوگو بس ہمارے ماضی کے قصے سنو اور سر دھنو ۔انجائے کرو مگر کیوں ؟کیسے ؟ کے سوال مت کرو۔کالم نگار کو اپنے قاری کی عدالت میں روز پیش ہونا پڑتا ہے اور جواب بھی ضروری ہے۔
تو سنو عطا اللہ عیسی خیلوی نے ایک گیت گایا تھا ۔۔اساں ہیں یار پردیسی ۔۔اس میں دو شعر میری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں پہلے وہ سن لیں ؎ سمیں وی رنگ پرنگے ہن۔۔اوتو ویلے وی چنگے ہن۔ڈھاڑے سوہنڑے لنگھے ہن ۔۔اساں ہاں یار پردیسی۔۔۔مطلب ایک خوبصورت حسین ماضی کے لمحے تھے اور وقت بھی بہار دکھا رہا تھا۔اس بہار میں میرے دن بہت خوبصورتی سے گزرے۔پھر جگہ جگہ جوگی کی طرح گھوم کر رنگ پرنگی دنیا دیکھتا رہا۔ گھڑولی دراصل دو گھڑوں پر مشتمل ہوتی ہے جن پر خوبصورت طریقے سے نقش نگاری کی جاتی ہے، ایک گھڑا سائز میں دوسرے گھڑے سے چھوٹا ہوتا ہے چھوٹے گھڑے کو بڑے گھڑے کے اوپر رکھا جاتا ہے
اور بعد ازاں ان کو ایک رنگین کپڑے جس پر کڑھائی کا خوبصورت کام ہوا ہوتا ہے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے سادہ گھڑوں سے بھی کام چل جاتا ہے ۔اس کو دولہے کی بہنیں یا دیگر کنواری لڑکیاں اٹھاتی ہیں۔دلھا کی چنی کے ساتھ بہنوں کے دوپٹے باندھ دیے جاتے ہیں۔ اور ڈھول کی تھاپ پر گاتے ہوئے علاقے کے کسی کنویں پر پانی بھرا جاتا ہے۔۔بعض گھڑولی والی لڑکیوں کا ایک گیت یہ تھا۔۔۔دو پتر ہرنولی دے ۔۔کھل گئی مینڈھی وج گیے ڈھول گھڑولی دے ۔۔ جب یہ کام مکمل ہوتا تو گھڑولی والی بہنیں دلھا بھائی سے رقم لے کر گھانٹھیں کھول دیتیں۔گھڑولی کے اس پانی سےدلھا کو سرکنڈوں کے کھارے پر بٹھا کے نہلایا جاتا۔کھارے چڑھنا کا محاورہ بیاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جب دلھا نہا کر کھارے سے نیچے اترتا تو اسے مٹی کی بنی چھونڑیاں پیر سے توڑنی پڑتیں۔اب نائی دلھا کے ہاتھ میں لوہے کی چھڑی تھما دیتا تاکہ جن بھوت سے محفوظ رہے۔ نائی دلھا کی کلائی پر گانا باندھتا جو سرخ۔سبز۔زرد۔سیاہ۔اور سفید رنگ کے ریشمی دھاگوں سے بٹا ہوتا۔اس کے ساتھ لوہے کا چھلا اور ہرمل کی پوٹلی بندھی ہوتی تاکہ نظر بد سے محفوظ رہے۔ ۔ادھر نائین دلھن کی مینڈھیاں کھول دیتی جو کنوار پن کی علامت ہیں اور دلھن کو وضو کروا کر اور نہلا دھوکر شادی کا جوڑا پہنایا جاتا تھا اور گانا باندھ دیتی دلھن دلھا کو سہرا بھی نظر بد سے بچنے کے لیے پہنایا جاتا تھا۔ بیاہ والے گھر میں نائین کی چودھراہٹ ہوتی تھی تمام کام کرنے والی عورتیں اس کے اشارے پر دوڑتی تھیں ۔کسی کی چودھراہٹ پر طنز کرنا ہوتا تو کہتے ۔۔انج پئی پھر دی اے جیویں وِہا آلے گھر نائین۔۔ماضی کےڈیرہ میں یہ رسم تھوڑی ترمیم کے ساتھ تقریبا” ہر جگہ ہوتی تھی جو اب معدوم ہو چکی ہے۔ ڈیرہ کے دانشور ۔محقق اور رائیٹر ہمارے دوست وجاہت علی عمرانی بتاتے ہیں
جب ڈیرہ شہر میں کھو (کنویں) ختم ہوتے گئے تو پھر یہ گھڑی بھرنے کی رسم مساجد, درباروں اور امام بارگاہوں کی طرف مڑ گئی اور کچھ تبدیلی بھی آئی ۔ وجاہت عمرانی کہتے ہیں ڈیرہ شھر میں نکاح سے ایک دن پہلے دولہا کے یار دوست اور برادری رات کے وقت اکٹھی ہوکر گھڑی گھڑولے کا پروگرام بڑی دھوم دھام سے کرتے۔ کسی ایک نازک اندام دوست کو لڑکیوں کے کپڑے پہنا کر دولہے کے ساتھ کھڑا کر کے اس دوست کے سر پر چھوٹی گھڑی اور دولہا کے سر پر گھڑا رکھا جاتا ۔ ڈھولوں اور شہنائیوں کی گونج میں جھمر دریسیں ڈالتے ہوئے اپنے علاقے کی کسی مسجد ، امام بارگاہ جاتے، لیکن زیادہ تر لوگ پیر دودہ حقانی کے دربار کے نلکے سے گھڑی اور گھڑے کو بھرا جاتا اور ویسے ہی شغل، موج مستی اور ناچتے ہوئے واپس گھر کو روانہ ہو جاتے ۔ اس سارے وقت اس دوست کی شامت ہوتی جو لڑکی بن کر دولہے کے ساتھ ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک دو دوست باڈی گارڈ کا کام بھی سر انجام دیتے۔
جب دولہے کی گلی یا محلہ آتا تو شہنائی خاموش ، لیکن ڈھول کے ساتھ اسی رات کو محفل موسیقی میں آئے ہوئے اس وقت کے مایہ ناز قوال استاد تانے خان،، استاد لطیف عرفانہ ، استاد رمضان یا پھر استاد اللہ نواز صاحب اپنے ہمنواؤں کے ساتھ ڈیرہ کا مشہور ترین قدیمی و روائتی گیت: بھرنڑ ویندی ہاں بھر گھن آندی ہاں ۔۔ آمل ماہی وے تیڈٰی سیج تے گھڑولہ۔ گھر کے دروازے پر دولہے کے یار دوست دولہے کے والدین یا بھائیوں سے ثوبت کے پیسے لینے کے بعد دولہے کو گھر جانے کی اجازت دیتے۔ دروازے کے اندر سے دولہے کی بہنیں اپنے سر پر وہی گھڑی اٹھا کے گھر میں لے جاتے جہاں پر بہنیں اور گھر کی عورتیں دریس کے ساتھ ساتھ گانے بھی گاتیں اور دولہے کو باقاعدہ دائیں ہاتھ پر گانا باندھا جاتا۔۔ باہر گلی میں محفل موسیقی و قوالی کا پروگرام اپنی پوری آب و تاب سے شروع ہوتا۔
نوٹ ۔ یہ کالم وجاہت عمرانی صاحب اور میں نے مشترکہ لکھا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر