نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوادر میں صحافت ۔۔۔ نورمحسن گوادر

کیا کسی ادارے یا حکومت کی جانب سے کوئی تعاؤن و مدد یا بنُیادی اِنسانی و شہری فیض ھو باقی سب کا حق ھے صرف صحافیوں کانہیں؟

دُنیا کے اچھے معاشرے اور جمہوری ممالک میں صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے اور ملُک کی چوتھی ستُون کا درجہ دیا جاتا ھے ۔ کم و بیش مملکتِ خدائے داد کے دیگر شہروں ، صوبوں اور پڑھے لکھے طبقوں میں بھی اِس کی کچھ نہ کچھ مثالیں دیکھی جاسکتی ھیں ۔

البتہ اکثر و بیشتر سیاسی جماعتوں کو اُن کے اقرباء پروری اور کالے کرتوں کے نشاندھی کرنے یا لکھنے و بولنے پر گِلہ شکواہ ضرور رہتا ھے ۔

مگر اِن تمام معاملات کے باوجود اُنکو حکومتوں کی جانب سے اُنکے جائز ، بنُیادی اور شہری حقوق ملتے ھیں اور اپنے اپنے اداروں کے جانب سے بھی اچھی تنخواہ ملتی ھے ۔

جبکہ گوادر کے صحافی حکومتی مراعات اور اپنے جائز حقوق سے محروم ھیں ۔ بلکہ سچ یہ ھیکہ اپنے اپنے نیوز چینلز اور اخبارات کی جانب سے بھی مناسب تنخواہ ادا نہیں کیا جاتا ھے ۔ لیکن میں نے کسی عام شہری ، سیاسی ورکر یا سیاسی شخصیت سے یہ کہتے نہیں سُنا ھیکہ صحافیوں کو حکومت یا کسی ادارے (حکومت ،سیاسی یا فلاحی) نے یہ چیز یا اِنسانی ، شہری ، بنُیادی فائدہ کیوں دیا ھے ؟ یا یہ کہ صحافی کسی بھی چیز کا حقدار نہیں اور اُسکو نہیں ملنا چائیے یا چایئے تھا ؟

مگر بد قسمتی سے ھمارے شہر گوادر میں اگر صحافیوں یا کسی ایک صحافی کو کسی سیاسی ، فلاحی یا حکومتی ادارے کی جانب سے کوئی ادنیٰ سا چیز ملے تو پورے کا پورا شہر کی سیاسی و سماجی تنظیمیں ، افراد اور فرد یک زبان ھوکر آسمان کو سر پر اُٹھا لیتی ھیں کہ صحافیوں کو حصہ دار کیوں بنایا گیا ھے ؟ یہ اُنکا حق نہیں ، وہ خود کفیل ھیں ، امیر ھیں ، یہ کسی سیاسی ضرورت مند کو ملنا چایئے تھا ۔ اور اِنکے ساتھ ساتھ ایسا نا زیبا و غیر شائستہ جملوں کا استمعال سوشل میڈیا میں اپنے رائے و کمنٹس میں دیتے ھیں کہ اللہ کی پناہ ۔ مثلاً صحافی بلیک میلر ھیں ، اُنہوں نے فلاں خبر کی عوض میں یہ مراعات حاصل کیئے ۔
الغرض کہ ھر بات کو اپنے علمی و دانستی قد و حیثیت کے مطابق اُلٹا کرکے دکھانا و پیش کرنا ، ھر عدد کو دس گنّا بڑھا کر پیش کرنا وغیرہ ۔

دراصل حالیہ دنوں میں سی پیک پر کام کرنے والی چینی کمپنی(چائینا اورسیز پورٹ ھولڈنگ کمپنی) نے گوادر کے شہریوں کو بجلی کی کمیابی اور شدتِ گرمی کے سبب 4000 سے اوپر سولر پینل دیئے تھے ۔ جوکہ مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں، ماہیگروں، لائبریریز سمیت گوادر کے ایم پی اے ، ایم این اے اور سینیٹر کے بھی کوٹے رکھے گئے تھے ۔

اِس میں بحیثیتِ شہری اور ایک عوامی ادارہ ھونے کے ناطے گوادر پریس کلب نے بھی اپنے ممبران کیلئے سولر پینل دینے کی درخواست گُزاری ۔ جنہیں متعلقہ ادارے نے منظور کرکے گوادر پریس کلب کے ممبران کو 22 عدد سولر پینل دیئے ۔

جس کے بعد شروع ھونے والا زلزلہ تا حال نہیں تمی ھے ۔ اور ھر ایک اپنے علمی ، سوچ ، دانست و عقلی بالیدگی کے مطابق صحافیوں کے خلاف زھر افشانی کررھے ھیں ۔

اِس صف میں سرِفہرست وہ لوگ ھیں جو کہ سو دو سو اور آدھی بوتل شراب کیلئے اپنا دین و ایمان ھر دن نیلام کرتے ھیں ۔ بدقسمتی سے اِنکے پہچان پیدا کرنے میں گوادر کے صحافیوں کا اھم و کلیدی کردار رھا ھے ۔ جبکہ کئی لوگ ایسے بھی شامل ھیں جنکو نہ اِس سماج میں کوئی عزت ھے اور نہ ھی اپنے گھر و خاندان میں کوئی شُناسائی ھے ۔

کچھ ایسے لوگ بھی ھیں جوکہ سرکاری ملاُزم ھیں مگر سیاسی جماعتوں کے پھیچے چھُپ کر کبھی بھی ڈیوٹی نہیں دیتے اور نہ صرف ھمیشہ حرام کی تنخواہ لیتے ھیں بلکہ اپنے سیاسی جماعتوں کے آڑ میں بلیک میلنگ کرکے مختلف اداروں سے مراعات بھی لیتے ھیں ۔

اور اب یہی لوگ صحافیوں کو بھی بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کررھے ھیں ۔ شومیِ قسمت سے اِنکے صفوں میں ایسے بدنصیب بھی شامل ھیں کہ تمام فراڈ اور بے ایمانیوں کے باوجود(حضرت موسیٰ کے اندھے ھیں) دُنیا اور زندگی کے ھر آسائش و لزت سے محروم ھیں ۔

مگر یہی لوگ بیٹھ کر صحافیوں کے خلاف منفی پروپگنڈا اور زھرافشانی میں پیش پیش ھیں جو کہ اِنہی صحافیوں کے بدولت جانے جاتے ھیں ۔ وہ صحافی جوکہ ملُکی اور ھر پیچیدہ حالات کے باوجود اپنے جانوں پر کھیل کر اور خاندان کے زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر ہروقت حق و سچ کی بات کرتے ہوئے صحیح و درسُت خبر عوام اور حکومتی ایوانوں تک پہنچادیتے ھیں ۔تاکہ عوامی مشکُلات اور علاقائی حالات کو اُجاگر کرکے اُنکی بیخ کنُی کیلئے عوام ، انتظامیہ ، ادارے اور حکومت کو باخبر رکھا جائے اور عوام کو آسانی ھو۔ اُن گُمنام و نامنہاد سیاسی لوگوں کو معاشرے میں شُناخت دیتے ھیں ۔ جوکہ بنُیادی طور پر زیرو(0) ھوتے ھیں اُنکو ھیرو بنا دیتے ھیں ۔

کیا دوسرے شہریوں کی طرح صحافیوں کو سولر پینل کا حق نہیں ؟
کیا کوئی سرکاری ھاؤسنگ اسکیم کا ابتداء ھو تو باقی سب لوگوں کا حق ھے صرف صحافیوں کا نہیں ؟
کیا کسی ادارے یا حکومت کی جانب سے کوئی تعاؤن و مدد یا بنُیادی اِنسانی و شہری فیض ھو باقی سب کا حق ھے صرف صحافیوں کانہیں؟
کیا صحافی اِنسان نہیں ھیں؟ کیا صحافیوں کا گھر بار و خاندان نہیں؟
کیا صحافیوں کو زندہ رہنے کیلئے سائیبان ، روشنائی ، یا دیگر اِنسانی ضروریاتِ زندگی کی ضرورت نہیں؟ کیا گوادر کے صحافی یہاں کے شہری نہیں ھیں؟

کیا کوئی شخص ، کاروباری ، انتظامی یا کسی زمہ دار ادارے کا سربراہ اللّٰہ کو حاضر وناضر جان کر یہ قسم اُٹھا سکتا ھیکہ گوادر کے فلاں صحافی نے بلیک میلنگ کرکے مجھ سے کوئی تقاضہ کیا ھے ؟

حیرانگی کی بات یہ ھیکہ گوادرکے صحافیوں پر مفُت میں تُہمت کیوں لگائی جاتی ھے ؟ شاید اسلئے کہ یہاں کے صحافی ابھی تک صرف صحافی رھے ھیں اور کسی کے سیاسی یا سماجی اور انفرادی سیاہ کاریوں پر پردہ رکھا ھے ۔ اور یہی گوادر کے صحافیوں کا کمزوری ھےکہ وہ صرف صحافی ھیں صافی نہیں ۔

لیکن یہ یاد رکھا جائے جس دن گوادر کے صحافی صافی بن گئے تو یہاں کے سیاسی و سماجی اشرافیہ کو دو دو شلواریں پہنا پڑے گا ۔ اور آئیندہ گوادر کے صحافی علاقائی رواداری کو حاطر میں لائے بغیر اور کسی کا پروا کیئے بغیر صرف صحافی بن کر رپورٹنگ و کالم نگاری کرینگے ۔ پھر سارا گوادر و دُنیا دیکھے گی کہ اصل بے ایمان ، بلیک میلر اور چور کون ھیں ۔

اور دوسری بات یہ ھیکہ اگر کوئی سمجھتا ھیکہ گوادر کے صحافت میں مراعات ھے تو آئے صحافت کرے ھم نے کسی کا راستہ نہیں روکا ھے ۔

سچ تو یہ ھیکہ گوادر کے صحافیوں کو ملکُ کے دیگر صحافیوں کے طرح معقول تنخواہ بھی نہیں ملتی ۔ چند دوستوں کو چھوٹا سا اعزازیہ ملتا ھے ۔ باقی اکثریت چھوٹے موٹے پرائیوٹ اشتہارات اور اخبارات کی مختصر سرکولیشن پر گُزارہ کرنے پر مجبُور ھیں ۔

لیکن یہ کبھی کسی سیاسی جماُعت ، سماجی تنظیم یا سوشل میڈیا میں لب کُشائی کرنے والوں نے نہیں سوچا ھوگا کہ صحافی اپنے زندگی کے شب و روز کس طرح گُزار رھے ھیں ۔

میں اُمید کرتا ھوں زندہ ضمیر لوگ اپنے اِس تکلیف دہ عمل کا احساس کرتے ھوئے آیندہ ھر عمل کرنے سے پہلے(خواہ وہ کسی سے متعلق ھو) اُسکی ھر پہلو کا منفی و مُثبت جائزہ لینے کے بعد اپنا رائے قائم کرینگے ۔ اور بے ضمیر لوگ مزید بغضُ و کینہ رکھیں گے ۔
لیکن اتنا ضرور خیال رھے کہ صحافی کسی ایک کے نہیں سب کے ھیں اور سب کی بہتری کیلئے سوچتے ھیں ۔


نورمحسن گوادر  صدرگوادرپریس کلب ہیں۔

About The Author