تحریر:صغیر احمدانی
سرزمین ڈیرہ غازیخان علم و ادب کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز ثابت ہوئی ہے بات اگر اردو ادب کے حوالے سے کی جائے تو شفقت کاظمی ، کیف انصاری ، محسن نقوی ، عقیل نقوی ڈیرہ غازیخان سے اردو ادب کے درخشاں ستارے ہیں ڈیرہ غازیخان کی خواتین بھی علمی ادبی میدان میں ہمیشہ مردوں کے شانہ بشانہ رہی ہیں پروفیسر شیریں عنبر لغاری ، پروفیسر صابرہ شاہین ، ڈاکٹر شاہینہ اور محترمہ ایمان قیصرانی صاحبہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں مگر میں آج ڈیرہ غازیخان کی جس شاعرہ کا تعارف کرانا چاہتا ہوں وہ اردو کے مشہور شاعر شفقت کاظمی کے گھرانے میں پیدا ہونے والی معظمہ بتول ہیں
اردو زبان کے قادر الکلام شاعر شفقت کاظمی جو کہ مولانا حسرت موہانی کے شاگرد تھے معظمہ بتول ان کی نواسی ہیں معظمہ بتول جو بطور شاعرہ معظمہ نقوی مشہور ہیں انہوں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد شاعری کے دیوان سب سے زیادہ پڑھے جاتے تھے معظمہ نقوی نے ابتدائی تعلیم سے لے کر ماسٹر تک اپنے ہی شہر میں حاصل کی۔
الفاظ کو نظم کی صورت میں ترتیب دینا اور نت نئے تخیلات تلاش کرنا اسے وراثت میں ملا ہے معظمہ نقوی کے بقول مجھے بچپن ہی سے شاعری کا بہت شوق تھا میں بزرگوں کے کلام کو بہت شوق سے سنتی اور پڑھتی تھی جب میں آٹھویں کلاس میں تھی تو میں نے پہلی نظم لکھی تھی
⭐منتظر نگاہیں !
پشیماں ہے آرزو میری
اداس ہے نگر دل کا
بے چین ہے روح میری
زہر آلود یہ بہار ہے
ویران سارا گلستاں ہے
مرجھاۓ ہوۓ خواب سارے
بے رنگ جیون کی داستاں ہے
بکھرے ہوۓ ار ماں
ہیں یہ زلفیں پریشاں
سونی سونی بانہیں
ہاۓ
میری منتظر نگاہیں ۔۔۔ ۔
*
معظمہ نقوی بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن ہی سے اجھا پین لینے کا جنون ، پھولوں سے پیار ، ڈائری لکھنے کا شوق اور رات کو جاگ جاگ کر چاند سے خودکلامی کرنا اچھا لگتا ہے جس انسان کا من صاف ہو اس کے دل سے نکلی ہر بات پاکیزہ ہوتی ہے آسان اور سادہ الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا معظمہ نقوی کا خاصہ ہے ادبی میدان میں معظمہ نقوی نے ابھی بہت سا سفر کرنا ہے اس کی ابتدا بہت ہی اچھی ہے معظمہ نقوی کا اپنی پہلی کتاب کف دست میں اپنے کلام کے ساتھ ساتھ علمی ادبی حلقوں میں مقبول شخصیات کا کلام شامل کرنا ادب کی جھیل میں پہلی کاوش ہے اور معظمہ نقوی کی پہلی کاوش ہی ادبی دنیا میں بہت پسند کی گئی ہے جب معظمہ نقوی سے پوچھا گیا کہ ڈیرہ غازیخان کی شاعرات کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے تو اس پر معظمہ نقوی کا کہنا تھا کہ اس میدان میں محترمہ شاہین ڈیروی صاحبہ نے میری قدم قدم پر راہنمائی کی ہے شاہین ڈیروی صاحبہ منفرد انداز کی شاعرہ ہونے کے ساتھ انتہائی حساس شخصیت کی مالک ہے انہی کی معرفت مجھے علمی ادبی حلقوں تک رسائی ہوئی جبکہ کچھ شاعرات کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ نو آموز لوگوں کو برداشت نہیں کرتیں تو ایسے حالات میں میرے نانا محترم سید شفقت کاظمی کا یہ شعر میرے لیئے مشعل راہ ہوتا ہے
محرومیوں نے گھیر لیا کاظمی ہمیں
رکھا تھا راہ دوست میں پہلا قدم ابھی
جس طرح شفقت کاظمی نے ہر قسم کی محرومیوں کے باوجود اپنے آپ کو منوایا ہے اسی طرح معظمہ نقوی بھی ہزاروں شاعرات کی موجودگی میں اپنا نام بنانے کامیاب ہو رہی ہیں۔
معظمہ نقوی نے کتنے خوبصورت الفاظ میں اپنے من کی بات کہہ دی ہے
کسی کو محبت کی آس ہے
تُم بن کوئی اداس ہے
کارونا کی وجہ سے ملکی حالات پر معظمہ نقوی کا کہنا ہے
ویرانی کا یہ عالم ہے نقوی
جہاں سارا سائیں سائیں کرتا ہے
جس انسان کا من صاف ہو اس کے دل سے نکلی ہر بات پاکیزہ ہوتی ہے بلکل آسان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا معظمہ نقوی کا خاصہ ہے ادبی میدان میں معظمہ نقوی نے ابھی بہت سا سفر کرنا ہے اس کی ابتدا بہت ہی اچھی ہے انہوں نے کف دست کے نام سے ادب کی جھیل میں پہلی کاوش ہے اور معظمہ نقوی کی پہلی کاوش ہی ادبی دنیا میں بہت پسند کی گئی ہے
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی