یوں تو تعلیم اور تعلیم کی اہمیت و افادیت کا آغاز تخلیق کائنات سے ہی ہو گیا مگر نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں فرمایا گیا کہ ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو ” اور پھر فرمان نبوی ہو کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے، ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیو ں نہ جانا پڑے اور پھر فرمایا کہ ” بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” اسی طرح علم کے نور کا یہ سلسلہ چلتا رہاجو صحابہ کرام ؓاور اولیاء اللہ کے ذریعے پھیلتا چلا گیا بر صغیر کی تقسیم کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 26 ستمبر 1947 کو کراچی میں اپنے خطاب میں کہاکہ ” تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔
تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیش رفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوام عالمسے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے ” مگر شومئی قسمت اس مملکت خداداد پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ہم یکساں اور بہتر نظام تعلیم اپنی قوم کو نہیں دے سکے،
نا جانے کیوں ابھی تک ہم لارڈ میکالے کے دیے گئے نظام تعلیم کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاست میں اسلامی طرز حکومت توکُجاآج تک اسلامی نظام تعلیم بھی رائج نہیں کیا جا سکا
بلکہ قائد اعظم کے بعد آنے والے ہر حکمران نے سب سے پہلے تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بنایا۔
اور پھر ہوا یوں کہ ہر سال بدلتے نصاب تعلیم و بدلتی تعلیمی پالیسیوں نے تشنگان علم کو عجیب و غریب مخمصے میں ڈال کر رکھ دیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے ہر صوبے کے اپنے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وفاق میں اپنا الگ ٹیکسٹ بک بورڈ ہیں جو ہر سال اپنے اپنے نصاب بدلتے رہتے ہیں اسی طرح ملک میں فرنچائز اور پرائیویٹ سکولز سسٹم کے اپنے اپنے نصاب اور طریقہ تدریس ہیں کہیں انگلش میڈیم نصاب ہے تو کہیں اُردو نصاب تعلیم رائج ہے۔
اسی تناظر میں سرائیکی خطہ (جنوبی پنجاب) جو کہ قیام پاکستا ن سے قبل ہی علم و ادب اور دینی تعلیم کا بہت بڑا مرکز شمار ہوتا تھا سب سے زیادہ متاثر ہوا شروع دن سے ہی اس علاقے کے تمام وسائل” تخت لاہور” کی من مرضی سے اپر پنجاب پر ہی خرچ ہوتے چلے آ رہے ہیں جہاں پہلے سے ہی ہر طرح کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ نہایت اہمیت کے حامل بلند پایہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ NTS سمیت ہر طرح کے انٹری ٹیسٹ اور مقابلے کے امتحان میں راجن پور کا بچہ لاہور کے بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ستم ظریفی کی حد یہ بھی ہے کہ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ سمیت تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنے والی تمام اہم کمیٹیوں میں اکثریت بیورو کریٹس پر مشتمل ہوتی ہے اور کسی بھی تعلیمی پالیسی یا نصاب کو مرتب کرتے وقت سکولز کے اساتذہ کی شمولیت تو اپنی جگہ ان کی آراء لینا بھی گوارہ نہیں کیا جاتااور نہ ہی کسی پالیسی کو رائج کرنے سے پہلے علاقائی ثقافت و ماحول کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
جسکی وجہ سے پسماندہ علاقے ہمیشہ پچھلے رہ جاتے ہیں۔ جب سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تختی سلیٹ کے استعمال کا خاتمہ ہوا ہے اس سے جہاں بچوں کے لکھنے اور ذہنی نشو نما کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے وہاں نرسری سے لے کر میٹرک تک نوٹ بک کے استعمال، امدادی کتب ازقسم گائیڈ خلاصہ آئینہ وغیرہ کے علاوہ اساتذہ کے تیار کردہ نوٹس کی جبری خریداری مختلف مدات میں چندہ جات اور فنڈز کی وصولی کے علاوہ پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈیمیوں کی بھر مار نے اس خطے کے غریب اور متوسط طبقات کے بچوں کو نا صرف احساس کمتری کا شکار کر کے رکھ دیا ہے بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں شرح داخلہ میں اضافہ بھی متاثر ہوا ہے۔
علاوہ ازیں آفیسران کی تعداد میں اضافہ جیسے اسسٹنٹ ایجو کیشن آفیسرز،ڈپٹی ایجو کیشن آفیسرز، ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسرز اور ای ڈی اوز کی موجودگی کے باوجود مانیٹرز اور ڈی ایم اوز کی تعیناتی کے باعث ان پر اُٹھنے والے اخراجات بھی تعلیمی بجٹ پر اثر انداز ہوئے جس کے نتیجے میں سرکاری سکولز میں سہولتوں کی فراہمی کی بجائے سہولتوں کے فقدان میں اضافہ ہوا۔اسی طرح اساتذہ کی مختلف ڈیوٹیا ں از قسم پولیو، الیکشن، مردم شماری، فلڈ رپورٹنگ وغیرہ بھی تعلیمی کارکردگی پر اثر انداز ہوئے۔
درس و تدریس میں مادری زبان کی بڑی اہمیت ہے بچے ہمیشہ اپنی مادری زبان میں زیادہ جلدی سیکھتے ہیں اور سکولوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کو سننے، سمجھنے، بولنے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں لکھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے جس کے لئے حروف تہجی کو اچھی طرح پڑھنے سمجھنے کے لئے حرف کی آواز اور ساخت نیز جوڑ سیکھنے میں سہولت حاصل ہوتی ہے اگر بچوں کو شروع سے ہی صحیح سمت سے واقف کر دیا جائے تو نہایت آسانی کے ساتھ لکھنا پڑھنا سیکھ جاتے ہیں مگر افسوس کہ یہ عمل ہمارے تعلیمی اداروں سے ہمیشہ کے لئے اُڑن چھو ہو چکا ہے۔
المیہ یہ بھی تو ہے کہ جنہوں نے قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا ہوتی ہے وہ اپنی دولت میں اضافے کے چکر میں مصروف ہو جاتے ہیں اور آئندہ الیکشن کے لیے اپنی نشست پکی کرنے کے لئے گلی نالی سولنگ اور بجلی کے کھمبوں پر اپنے ووٹرز کو خوش کر دیتے ہیں جنوبی پنجاب کی بد قسمتی یہ بھی ہے کہ شروع دن سے ہی انگریز کے مراعات یافتہ تمن داروں جا گیرداروں اور گدی نشینوں کی حکمرانی چلی آ رہی ہے جن کی اولاد تودولت کے بل بوتے پر امریکہ اور لندن سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ ان کی رعایا کے بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم رہ جاتے ہیں بے شک ہر دور حکومت میں اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدے اس خطے کو ملتے رہے حتیٰ کہ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے مگر اس علاقے کی تعلیمی صورتحال پر آج تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
جنوبی پنجاب میں فروغ تعلیم کے لئے جہاں مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دیا جانا ضروری ہے وہاں تختی سلیٹ کے استعمال اور بچوں کی استعداد کار کو بڑھانے کے لئے صبحانہ اسمبلی، بزم ادب کو بھی لازمی قرار دیا جائے اسی طرح آئے روز نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بجائے یکساں آسان فہم اور مختصر بستہ کا تعلیمی نظام نافذ کیا جائے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور تعلیمی پالیسیاں مرتب کرنے والی کمیٹیوں میں پرائمری ایلیمنٹری اور سکینڈری سطح کے اساتذہ کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ان کی مشاورت اور آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے اس علاقے کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی صورتحال کو سامنے رکھ کر نصاب تعلیم مرتب کیا جائے جنوبی پنجاب کے سکولوں میں بھی وہی مراعات اور سہولتیں دی جائیں جو اپر پنجاب کے تعلیمی اداروں کو حاصل ہیں خصوصاً طالبات کے تعلیمی اداروں میں تمام تر جدید سہولتوں کو یقینی بنایا جائے اور آمدہ مالی سال کے بجٹ میں تعلیمی بجٹ کو دوگنا کیا جائے سکولوں میں بچوں سے ہر قسم کے فنڈز اور چندہ جات یا فیسوں کی وصولی ختم کی جائے گریڈ 17 سے گریڈ 19 تک کے تمام اساتذہ کرام کو ان کے اپنے اپنے اضلاع میں تعینات کیا جائے اور اساتذہ کی غیر متعلقہ ڈیوٹیاں ختم کی جائیں تا کہ وہ اپنی نئی نسل کی بہتر انداز میں خدمت کر سکیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر