پچھلے ایک ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے ذرائع ہمیں بتاتے رہے کہ جاپان نے16ء2ملین ڈالر اور امریکہ سے 8ملین ڈالر کے علاوہ ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی کرونا سے نمٹنے کیلئے امداد ملی ہے جبکہ چین نے کروڑوں ڈالر مالیت کا سامان امداد میں بھیجا ہے۔
ان سطور میں ملنے والی امداد اور اس کی تقسیم کے حوالے سے ایک دو سوال بھی اُٹھائے تھے۔ عرض کیا تھا کہ امدادی رقوم صوبوں میں مساوی طور پر تقسیم کی جائیں۔ این ڈی ایم اے کو امریکی امداد دئیے جانے پر بھی سوال کیا تھا،
اب ایک ماہ بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی ملک یا ادارے نے ایک ڈالر کی امداد بھی نہیں دی۔
وزیراعظم کی بات کو رد کرنا بھی درست نہیں ہوگا مگر یہ عرض کرنا لازم ہے کہ حضور بیان دینے سے قبل وفاقی وزارت خزانہ سے بریفنگ لے لی تھی؟
ہم آگے بڑھتے ہیں وفاقی حکومت نے جمعہ کی سپہر ملک بھر میں لاک ڈاؤن کو 9مئی تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کریں۔ پنجاب اور سندھ نے لاک ڈاؤن 9مئی تک، بلوچستان نے 5مئی تک بڑھا دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کا فیصلہ بھی یقیناً یہی ہوگا۔ جمعہ کو کراچی سندھ کی معروف خواتین معالجین نے پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ اور دونوں ہاتھ باندھ کر عوام سے اپیل کی کہ گھروں پر رہیں۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں، پیش نمازوں اور خطبا سے بھی اپیل کی کہ صورتحال کی سنگینی کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے بھی گزشتہ روز کہا
”اگلے پندرہ روز بہت اہم ہیں، کورونا وائرس پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ عوام گھروں میں رہیں، عبادات بھی گھروں پر کریں“
ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں یہ بات انہوں نے 24اپریل کی دوپہر میں کی اور کچھ دیر بعد وفاقی حکومت کی رابطہ کمیٹی نے لاک ڈاؤن 9مئی تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ اب کوئی سادہ لفظوں میں بتا سمجھا دے کہ آخر یہ سب کیا ہے؟
وزیراعظم کا اب بھی مؤقف ہے کہ کاروبار بند نہیں ہونا چاہئے، کیا ان تک عالمی ادارہ صحت کی یہ رپورٹ نہیں پہنچائی گئی کہ
”جولائی تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 2لاکھ تک پہنچ سکتی ہے“۔
خدا جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یکسوئی نہیں ہے، جس ہم آہنگی کے دعوے کئے جارہے ہیں وہ بس سماعتوں کا دھوکہ ہیں۔
دنیا میں اس وقت 200کے قریب ممالک کورونا سے متاثر ہیں، صورتحال کی سنگینی کے ادراک کے حوالے سے جتنی کنفیوز ہماری قیادت ہے کسی اور ملک کی نہیں۔
بات بات پر غربت اور بھوک سے ڈرایا جا رہا ہے، حالت یہ ہے کہ سندھ کے گورنر تاجروں کی ایک بڑی تنظیم کے رہنماؤں کو گورنر ہاؤس بلا کر کہتے ہیں
”آپ کاروبار کھولیں حکومت تعاون کرے گی“
ارے صاحب کونسی حکومت؟
آپ تو سندھ میں وفاق پاکستان کے آئینی نمائندے ہیں وائسرائے کیوں بن بیٹھے۔
صوبے کے شہریوں کو صوبائی حکومت کیخلاف بغاوت پر کیوں اُکسا رہے ہیں اور اگر یہ درست ہے تو پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز اپنے صوبوں کے تاجروں کو بلا کر کیوں نہیں کہتے کہ
”آپ کاروبار کھولیں حکومت تعاون کرے گی“۔
وباء کے اس موسم میں جاری جملہ بازی، سیاسی دشنام طرازی اور دوسرے منفی اقدامات، یقین کیجئے تاریخ بہت آگے کی چیز ہے قریب ترین وقت میں اس حوالے سے سوالات اُٹھائے جائیں گے، کچھ لوگ اب بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔
افسوس صدافسوس کہ جس یکسوئی کی ضرورت تھی وہ نہیں ہے مختلف قوالوں کی جوڑیاں اپنی اپنی ٹھوک بجارہی ہیں۔
ہمارے وزیراعظم کو مالی معاملات پریشان کر رہے ہیں، بجا ہے وہ ملک کے وزیراعظم ہیں عوام الناس کے دکھ درد کو محسوس کرنا ان کا آئینی اور انسانی فرض ہے لیکن ان مالی مشکلات سے وقتی ریلیف کا حل موجود ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بلوچستان میں ایف سی کے ایک سربراہ کو ناپسندیدہ امور کے باعث منصب سے الگ کیا گیا تھا ان پر چند معاونین کے ہمراہ سمگلنگ سے اربوں روپے کمانے کا الزام تھا، خیر اسے چھوڑیں۔ وہ زرداری کے فالودے، پاپڑ والے، بزنس روڈ کے دہی بھلے والے کے اکاؤنٹس سے مجموعی طور پر ساڑھے 9ارب روپے برآمد ہوئے تھے۔ ایک لانچ کراچی سے دبئی جاتے ہوئے پکڑی گئی تھی، 2ارب ڈالر سات من سونا اور 3ارب روپے پاکستانی کے علاوہ اس میں سے 47کروڑ درہم بھی ملے تھے۔
آغا سراج درانی کے گھر سے تین ارب کے زیورات، ہیرے اور نقدی ملی، شرجیل میمن کے گھر کے تہہ خانے سے اربوں روپے ملے تھے، زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کے بے نامی اکاؤنٹس سے ساڑھے 3ارب روپے ملنے کی خبریں تھیں۔ کچھ بے نامی اکاؤنٹس خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی پکڑے گئے تھے۔
یہ ساری رقم کرونا ریلیف فنڈ میں جمع کروانے میں کوئی ہرج تو نہیں۔
خورشید شاہ سے ابھی 500ارب روپے برآمد ہونے ہیں، شرجیل میمن سے 7ارب روپے دونوں سے برآمدگی جلد ازجلد کرلی جائے، یہ 507ارب روپے بھی عوام پر خرچ کر دیجئے۔
حکومتوں کے دعوؤں کے مطابق ملک بھر میں 27ارب روپے کی بے نامی جائیدادیں ضبط کی گئیں، انہیں ابتدائی طور پر حکومت خرید لے، رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دے
حالات بہتر ہوں گے تو یقیناً27ارب کی یہ پراپرٹی 30سے35ارب روپے میں فروخت ہو جائے گی۔
اسی طرح چینی اور گندم سکینڈل میں جن بڑے لوگوں نے اربوں روپے کا چونا لگایا ان سے اصل زر بمعہ سود وصول کر کے احساس پروگرام کو دیدیا جائے۔
یاد رہے ابھی شریف خاندان باقی ہے، ضرورت پڑے تو اس سے بھی برآمدگی کر لی جائے، عوام سے زیادہ پیارے تو نہیں یہ لوگ۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ بالائی سطور میں جن ضبط شدہ رقم اور برآمدگی کی اُمید بھری رقوم کا ذکر کیا ہے یہ سب ملا کر چاروں صوبوں میں مساوی بنیادوں پر ہی تقسیم کر دی جائیں اور صوبے اپنے شہریوں پر خرچ کر دیں تو مغربی ممالک اور اداروں کی امداد لینے کی ضرورت ہی نہیں۔
وزیراعظم تو کہہ چکے کسی نے ایک دھیلہ معاف کیجئے گا ڈالر تک نہیں دیا۔
ان حالات میں حکومت اس تجویز پر عمل کریں تو نیک نامی اس کے حصے میں آئے گی، ویسے بھی یہ رقوم جن سے منسوب ہیں وہ ماننے سے انکاری ہیں، اس طور اس کا مالک خلق خدا ہے اسی پر خرچ کر دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر