زمین پر سکندرِ اعظم کا زمانہ شروع ہوا تھا، جب پہلی مرتبہ وہ کرہِ ارض کا چکر کاٹنے آیا ۔
کرہِ ارض کے سبزہ زاروں، سمندروں، دریاؤں، برف پوش پہاڑوں اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں اور وہاں کی مخلوق کے عقل و تدبر کا بہت ذکر سن رکھا تھا اس نے۔ سن رکھا تھا کہ کائنات میں وہ سب سے اشرف مخلوق کہے جاتے ہیں۔ ان کی باتیں سنو تو اپنا ہزاروں گنا طوالت لیے وجود چھوٹا لگنے لگتا ہے، حالانکہ ارض کی مخلوق اپنے قد کاٹھ میں اس کی انگلی کی پور برابر بھی بمشکل ہو گی!
جب وہ اس سیاحت کے شوق میں نکل رہا تھا تو اس کے ایک انتہائی قدیم ساتھی نے اسے راستے میں روک کر خاص طور پر تلقین کی تھی کہ کرہِ ارض پر سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا۔ دیکھنا، کوئی اشرف مخلوق تمہارے پیروں تلے آکر کُچلی نہ جائے!
اسی نصیحت کی بنا پر وہ جب کرہِ ارض پر اترا تو اس نے اپنے جوتے ارض کے باہر ہی اتار دیے تھے۔
زمین کے حُسن نے اس کے ننگے پیروں کو چھوا تو اس کا فلک کی جانب اٹھتا طویل قامت وجود سرسرا اٹھا۔ اس کے پیروں کو چھوتے گھنے درخت اور پھلوں اور پھولوں کی نرمی، جابجا ہوا کے دوش پر سر دھنتی لمبی لمبی گھاس اور بہتا ہوا پانی، ایک عجب لمس لیے ہوئے تھے!
وہ جھک جھک کر ہر چیز کو حیرت و شوق سے دیکھتا پھرا۔
بادلوں کی نمی سے اس کے قدم مانوس ضرور تھے، مگر یہ کرہِ ارض پر یوں امڈ امڈ برستے ہیں کہ جابجا ارض کو جل تھل کردیتے ہیں، یہ اس کے لیے عجب معاملہِ قدرت تھا!
اس نے بڑے ہی رشک کے ساتھ سوچا تھا کہ میری انگلی کی پور جتنی یہ زرا زرا سی مخلوق! ان پر اتنی نوازش!
حالانکہ وہ تو اس اشرف مخلوق سے کہیں بڑھ کر تھے! ان کی ہزارہا برس پر محیط عمریں، ٹھہرے ہوئے وقت کی سی طوالت لیے ہوئے ان کا زمانہ، ان کی رفتار، کائنات کی وسعتوں میں یہاں سے وہاں تک ان کی آمد و رفت، کہکشاؤں میں ان کی گزرگاہیں! ان سب کے سامنے زمیں کا یہ گولا تو بہت ہی چھوٹی سی معمولی چیز تھی!
اس نے اپنے قدیمی ساتھیوں سے سن رکھا تھا کہ کرہِ ارض کو کائنات کے سیاروں اور کہکشاؤں کے گنجان گنجلک میں تلاش کرنا بھی بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ ان سب کے بیچ ریت کے ایک زرّے کی مانند کہیں پڑا ملتا ہے، اس لیے وہاں تک کا سفر ایک تلاشِ بسیار ہے گویا!
مگر وہ بالآخر وہاں پہنچ ہی گیا۔
گھومتے گھامتے یونان کی ایک اکیڈمی کے احاطے پر سے اس کا گزر ہوا۔ پتھریلی سیڑھیوں پر ادھیڑ عمر استاد اپنے شاگردوں کے دائرے میں بیٹھا انہیں درس دے رہا تھا۔ گھنے بادلوں کی اوٹ سے جھک کر، بڑی دیر تک وہ انہیں سنا کیا۔
اس نے پہلی بار دکھ و المیے کا معاملہ سنا۔ یہ سنا کہ دکھ اشرف المخلوقات میں ایک کمال کی صورت رکھا ہے جو المیے کی منظر کشی کے زریعے زندہ رہتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ وہ لوگ المیہ ڈرامہ بناتے ہیں اور اس پر آنسو بہاتے ہیں!
اُس نے حیرت سے وہاں کے کتب خانے میں رکھی کتابیں دیکھیں اور ادھیڑ عمر استاد کو کتابیں لکھتے ہوئے دیکھا، تو الفاظ کے نقوش نے اسے حیران کردیا۔ وہ سمجھ گیا کہ کرہِ ارض کی اس مخلوق کو سب سے اشرف کیوں کہا جاتا ہے!
یہیں اس نے سکندر کا زکر بھی سنا اور پھر سکندر کا دربار بھی دیکھا اور اسے سکندرِ اعظم بنتے بھی دیکھا۔
سکندر کے دربار میں اس پر انکشاف ہوا کہ یہ اشرف مخلوق رتبے میں دراصل ایک جیسی نہیں ہے! مٹھی بھر مخلوق ، اشرف ہے ورنہ اکثریت کمتر ہے۔ جو اشرف ہے، اس کی مٹھی میں سب کی جان ہے اور اسے دراصل کمزور کا خوف ہی سب سے اشرف بناتا ہے۔ اسی لیے جو اعلیٰ ہے، اس کی گردن اکڑی ہوئی اور چھاتی تنی ہوئی ہے۔اور جو ادنیٰ ہے، وہ زمین پر اوندھا ہوکر اسے سجدہ کرتا ہے۔
وہ ابھی اسی مشاہدے پر ٹھہرا ہوا ہی تھا کہ سکندر کا لشکر دنیا فتح کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ لشکر نے اسے حیران کردیا۔ سرپٹ دوڑتے، ہنہناتے، بپھرے گھوڑوں کے سموں کی دھمک اور لشکر کے ہاتھوں میں اٹھے ہوئے قد ِآدم سے اونچے نکلتے نیزے اور زمین کو روندتے لشکر کے قدموں کی گونج اور آگے آگے رتھ پر سوار سکندر کا جلال!
اس نے حیرت سے دیکھا کہ وہ ہر حسین شے کو روندے چلے جا رہے ہیں! نازک اندام عورتوں اور بچوں سے آباد بستیاں، جنہیں وہ ابھی نظر بھر دیکھ بھی نہ پایا تھا کہ تباہ و برباد ہوتی چلی گئیں۔
اس نے پہلی مرتبہ آگ اور خون کا کھیل دیکھا۔ اٹھے نیزوں کی انیوں پر کٹی گردنیں دیکھیں۔ اس حیران کرتی اشرف مخلوق کی آہ و بکا سنی۔ اس نے دیکھا کہ جب کوئی قریہ مکمل برباد ہوکر خون سے تر ہوجاتا ہے، تو سکندر اور اس کا لشکر فتح کا جشن مناتے اور آگے بڑھ جاتے ہیں ۔
پتہ نہیں کہاں تک جانا تھا انہیں!
اس نے گردن گھما کر دکھ و المیے پر درس دیتے ادھیڑ عمر استاد کی طرف دیکھا تو وہ کتب خانے میں کتابوں پر سر رکھے زار و قطار رو رہا تھا، جیسے یہ کتابیں نہ ہوں، اشرف المخلوقات کی لاشیں ہوں!
یہ سب دیکھ دیکھ کر اس کا دل اوب گیا۔ ہزارہا برس کی زندگی میں اسے پہلی بار متلی کی سی کیفیت محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ اس کے اندر کی کراہت باہر اُلٹ پڑے گی۔ اس سے پہلے کہ ایسا کچھ ہوجائے، اس نے جلدی جلدی کرہِ ارض کے باہر پڑے اپنے جوتے پہنے اور خلا کی وسعتوں کی طرف لوٹ گیا۔
راہ میں پڑتے سیاروں پر جہاں جہاں ٹھہر کر اس نے قیام کیا، وہاں کی مخلوق کو اپنے اس المناک تجربے سے آگاہ کرتا گیا کہ دیکھ لینا، ایک دن کرہِ ارض کائنات کے اختتام کا سبب بنے گا!
مگردوسری مرتبہ اسے اپنی محبوبہ کے مسلسل ضد کی وجہ سے اسی کرہِ ارض کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ گو کہ اس نے اپنی محبوبہ کو بہت سمجھایا کہ اب تک تو وہاں کی مخلوق اُس کرے کو مکمل برباد کر چکی ہوگی اور اب وہاں جابجا ان کی کٹی گردنیں بکھری پڑی ہوں گی۔
کیا تم یہ منظر دیکھنا چاہتی ہو؟
مگر وہ نہ مانی اور بالآخر اسے ہار ماننا پڑی۔
اُنھی کٹی گردنوں کے خیال سے اس نے کرہِ ارض میں داخل ہونے سے پہلے اپنے بھی جوتے اتار دیے اور اپنی محبوبہ کو بھی جوتے اتارنے کو کہا۔
ہوا کا رُخ بحر اوقیانوس کی طرف تھا۔ اوقیانوس کے آبی راستوں پر سے دونوں کا اگلا قدم دریائے ہڈسن کے کنارے جس جگہ پڑا، وہاں گویا حیرت کا ایک عجب جہاں آباد تھا! رنگوں میں تھرکتا ہوا شہر، جس کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی تھیں۔ مخلوق کا بے کراں انبوہ، جو ایک قدم بھی ٹھہرتا نہ تھا! نہ کسی کی طرف پلٹ کر دیکھتا تھا۔ نہ کسی کے لیے رکتا تھا!
کرہِ ارض کی اس مخلوق نے ہر طرف آسمان کو چھوتی، دیو ہیکل عمارتوں کا اک جنگل سا بو دیا تھا اور خود ان کے نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح دکھتے تھے۔ زمین و آسمان پر ان کی بنائی ہوئی مشینوں کا ایک مسلسل شور سا برپا تھا، جس میں ان کی اپنی آوازیں بھی دب کر رہ گئی تھیں، مشینیں جو تعداد میں بھی ان سے زیادہ تھیں اور طاقت میں بھی ان سے بھاری تھیں۔
اس کی محبوبہ نے بھی کہا کہ جھک کر زرا غور سے دیکھو تو ایسا لگتا ہے، جیسے کسی کو کسی سے کوئی دلچسپی بھی نہیں! کسی کو کسی کی آواز سننے کی ضرورت بھی نہیں! جیسے سب ہی خواہشوں اور ضرورتوں کے پیچھے دوڑ رہے ہوں اور عجلت میں ان کی سانسیں ان کے قدموں سے بھی تیز تیز چلتی ہوں!
مگر وہ مطمئن تھا کہ اب ان کی گردنیں کٹ کر نہیں گرتیں!
لیکن جب بحرِ اوقیانوس سے گزر کر ان کے قدم بحیرۂ روم کو پھلانگ چکے تو وہ دہل سا گیا۔
جہاں تھا، کھڑا رہ گیا!
وہی برباد ہوچکی بستیاں! جیسے کسی نے فولادی دانتوں سے انہیں چبا چبا کر تھوک دیا ہو!
پناہ گاہ کی تلاش میں اندھا دھند بھاگتے، خون اور راکھ سے لتھڑے لوگ اور ماؤں کو پکارتے وحشت زدہ بچے !
اشرف المخلوقات نے اب ایسے ہتھیار بنا لیے تھے جو زن سے سروں پر سے گزرتے ہوئے، مخلوق کے گھروں اور سروں پر پھٹتے تھے اور آن کی آن میں سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جاتا تھا۔
اس نے اور اس کی محبوبہ نے ان آتشیں ہتھیاروں کو مٹھی میں جھپٹ کر روکنا بھی چاہا، مگر دونوں کی ہتھیلیاں جل گئیں۔
یہ جلن بھی ان دونوں کے لیے بلکل ہی اجنبی سا تجربہ تھا!
یہ کہہ کر کہ ایسا لگتا ہے کہ کرہِ ارض پر کہیں بھی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے، اس کی محبوبہ الٹے قدموں پلٹ گئی کہ اب مزید نہیں دیکھنا اسے یہ ارض۔
انہوں نے اپنے جوتے بحرِ اوقیانوس کی جانب چھوڑے تھے۔ اس لیے واپسی پر بھی انہیں دریائے ہڈسن کے کنارے کھڑا شہر راستے میں پڑتا تھا، جہاں زندگی اسی طرح رواں دواں تھی۔
شہر کا شہر روشنیوں میں رقص کی صورت تھرکتا تھا!
وہ کرہِ ارض کے نئے سال کی پہلی رات تھی اور اک ہجومِ بے کراں تھا جو اپنی اپنی ہستی کی مستی میں مگن تھا اور ان دیکھی لذت سمیٹ رہا تھا۔
دونوں نے ایک آخری نگاہ اشرف المخلوقات پر ڈالی، اور جلی ہتھیلیوں سمیت کرہِ ارض سے نکل گئے۔
تب بھی اس نے سوچا تھا کہ اب وہ دوبارہ اس طرف کبھی نہ آئے گا۔
مگر چند دن قبل، اسے ایک بار پھر اسی کرہِ ارض کی طرف آنا پڑ گیا ہے۔
اب کی بار اسے اپنے بیٹے کی ضد کی وجہ سے آنا پڑا ہے۔
وہ نئے زمانے کا لڑکا ہے۔ اس کی معلومات کے وسائل اس سے کہیں زیادہ تیز ہیں۔ اسے بیٹے نے ہر طرح سے یقین دلایا ہے کہ کرہِ ارض پر آج کل خاموشی چھائی ہے۔ اس کے دوست بھی ہو آئے ہیں۔ ہر چیز صاف ستھری اور پہلے سے کہیں زیادہ حسین ہوچکی ہے۔ ہر سوُ گل کھلے ہیں مگر کوئی میلا ہاتھ انہیں چھوُ بھی نہیں سکتا۔ پرندے بستیوں میں آزادی سے اُڑتے گنگناتے پھرتے ہیں۔ آسمان اتنا شفاف ہو چکا ہے کہ کہکشاؤں کے اُس پار تک نگاہ جاتی ہے! خوبصورت جانور جنگلوں سے بستیوں کی طرف نکل آئے ہیں، مگر کوئی انہیں شکار نہیں کرتا!
بیٹے کی ضد کے آگے بالآخر وہ مجبور ہوگیا اور اسے کرہِ ارض کی طرف آنا پڑ گیا ہے۔
بحرِ اوقیانوس والا راستہ اسے آج بھی یاد ہے۔ کرہِ ارض میں داخل ہونے سے پہلے اس نے جوتے اتارنا چاہے تو بیٹے نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ اب کوئی پیروں تلے نہیں آئے گا۔ بیٹے کے کہنے پر وہ جھجکتے ہوئے جوتوں سمیت زمیں کے گولے میں داخل ہوگیا۔
نیلگوں پانیوں کے کنارے وہی شہر ، عمارتوں کے جنگل سمیت جوں کا توں موجود تھا اور پانیوں کے بیچ سبز رنگ عورت آج بھی اسی طرح مشعل اٹھائے کھڑی تھی۔ گو کہ وہ دھات سے بنی ہوئی تھی مگر آج جیسے اس پر اسی برس کا بڑھاپا آیا ہوا تھا! جیسے اس کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں اور وہ آسمان سے سانسیں مانگ رہی ہو!
اس کی مدد کے لیے اس نے گردن گھما کر شہر کی طرف دیکھا، مگر گلیاں اور سڑکیں ویران پڑی تھیں۔ گھروں کے باہر پھول کھل اٹھے تھے اور پرندے چہل قدمی کر رہے تھے، مگر دروازے سب ہی گھروں کے بند تھے۔
دیو ہیکل عمارتوں تلے عمارتیں کھڑی کرنے والی مخلوق نہ تھی۔ ان کی بنائی ہوئی مشینیں بھی جابجا دم سادھے بکھری پڑی تھیں۔ نہ اڑتی تھیں۔ نہ چلتی تھیں۔
اسے یقین ہوگیا کہ کرہِ ارض سے بالآخر مخلوق اٹھا لی گئی ہے!
اس کے اس خیال پر اس کا بیٹا ہنس دیا۔ کہنے لگا کہ پورے کرہِ ارض کی اشرف المخلوقات کو ایک ایسی بیماری لگ گئی ہے جو ایک میں سے دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہے، جس سے ان کی سانسیں کم پڑ جاتی ہیں اور وہ مرجاتے ہیں۔ اب تک ایک دوسرے سے لگی بیماری سے بہت سے مر چکے ہیں۔ باقی کے زندگی بچانے کے لیے گھروں میں بند ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ کوئی ہمیں چھوُ نہ لے۔
یہ اب ایک دوسرے کا بوسہ نہیں لے سکتے۔ ایک دوسرے کے بازوؤں میں رقص نہیں کرسکتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرسہارا تک نہیں دے سکتے۔ دکھ اور خوشی میں ایک دوسرے کو گلے نہیں لگا سکتے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر رو نہیں سکتے۔ ان میں سے جو مرنے لگتا ہے، اسے یہ الوداع نہیں کہہ سکتے۔ سمندروں پر اور فضاؤں میں سفر نہیں کرسکتے۔
اب یہ لشکر لے کر کسی بستی پر حملہ نہیں کر سکتے۔ اب ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں گویا۔ ان کی عبادت گاہوں کے دروازے تک ان پر بند ہو چکے ہیں۔
اب یہ بند کمروں میں تنہا بیٹھے اعتراف کر رہے ہوں گے کہ ہم کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہیں!
سنسان پڑے شہر پر چلتے چلتے اس کے بیٹے نے ایک قہقہہ لگا کر کہا، سمجھو اشرف المخلوقات پنجرے میں بند ہے اور کرہِ ارض ان سے آزاد ہو چکا ہے!
اچانک اس کے بیٹے نے پلٹ کر دیکھا کہ اس کا باپ پیچھے رہ گیا ہے اور شہر کے وسط پر ٹھہرا نم آنکھوں سے چار وں اطراف کی ویرانی کو تک رہا ہے!
بیٹے نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ رو دیا۔
اس کی آنکھوں کے آنسو دیکھ کر بیٹا پریشان ہو گیا۔ ڈر گیا کہ کہیں اس کے باپ کو اشرف المخلوقات میں پھیلی وبا نہ لگ گئی ہو اور یہ آنکھوں کا پانی اسی سبب سے نہ ہو! ورنہ ان کی آنکھوں کا پانی سے کوئی تعلق ہی نہیں. بیماری ان کے وجود میں ممکن ہی نہیں۔ وہ تو اپنی مقرر حیات مکمل کرتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ بھلا یہ کیسے جان پاتا کہ اس کا باپ کرہِ ارض کی مخلوق کی طرح دکھ کی کیفیت میں مبتلا ہو چکا ہے اور اشرف المخلوقات کے المیے پر آنسو بہا رہا ہے۔
کندھے پر رکھے بیٹے کے ہاتھ کی نرمی نے اس پر منکشف کیا کہ اُس مخلوق کی زندگی سانس میں نہیں، دراصل لمس میں تھی!
ایک دوسرے کا لمس!
انہیں ایک دوسرے کا لمس ہی زندہ رکھتا ہوگا!
اس پر منکشف ہوا کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کا سہارا کیسے بنتا ہوگا! کہ کندھے پر رکھا ہاتھ اپنے اندر کیا عجب تسلی لیے ہوئے ہوگا! اور ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر ہی اپنی فنا پذیر زندگی کو آسان کرتی ہوگی وہ فنا ہو چکی اشرف مخلوق!
اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے حیرت زدہ بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا ’ اپنی مخلوق کے بغیر یہ کرہِ ارض کچھ بھی نہیں ۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔ اس کا اصل حُسن اس کی مخلوق ہی تو تھی ۔۔ یہ گل و گلزار ، صحرا و سمندر، ہوا، آگ اور پانی! یہ سب اُس مخلوق کے لیے ہی تو تھا ۔۔ وہ ساری مخلوق ایک خاص کشش کے زریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی ۔۔ وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں! ۔۔ اب واپس چلنا چاہیے ۔۔ اب یہ ارض بے کار ہوا ۔۔‘
اس کے آنسو تھم نہیں رہے تھے کہ اچانک اس کے بیٹے نے اسے اپنے مظبوط بازوؤں کے گھیرے میں لے کر نیچے شہر کی طرف اس کا رُخ موڑتے ہوئے کہا ’ مگر اشرف المخلوقات تو اب بھی کرہِ ارض پر موجود ہے‘
اس نے چونک کر، جھک کر دیکھا کہ سنسان سڑک پر ایک انسان سفید کوٹ پہنے تیز تیز قدم چلا جا رہا ہے۔
بیٹے نے اس کی آنکھوں کا پانی اپنی انگلیوں میں جذب کیا اور کہا ’ یہ جو سفید کوٹ والا جا رہا ہے، یہ اشرف المخلوقات کی سانسیں بچانے کا کام کرتا ہے‘
۔۔۔
بادلوں کی نمی سے اس کے قدم مانوس ضرور تھے، مگر یہ کرہِ ارض پر یوں امڈ امڈ برستے ہیں کہ جابجا ارض کو جل تھل کردیتے ہیں، یہ اس کے لیے عجب معاملہِ قدرت تھا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر