معروف ،نقاد اور محقق ڈاکٹر ممتاز احمد خان ناول کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ، ناول ایک ایسی طویل کہانی ہوتی ہے جس میں دانش کا اظہار ہوتا ہے ،ایک یا ایک سے زیادہ عہد اس میں سما جاتے ہیں اور کہانی کو معروضی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔،، اور آگے چل کر کہتے ہیں ماجرا یا کہانی پن اصل شئے ہے ۔ آپ ہیئت میں جو چاہیں تبدیلی کر لیں، قاری کہانی کی وجہ سے پڑھتا ہے،اگر کہانی پن ہے تو ناول کامیاب رہے گا۔،،
یہی کہانی پن ہمیں حبیب موہانہ کے ناول ، اللہ لھیسی مونجھاں ،، میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ بس آپ نے کہانی شروع کی نہیں، بس پڑھتے جائیے ،پڑھتے جائیے ،کیونکہ اس میں صرف کہانی پن ہی نہیں بلکہ اپنا پن بھی ہے ۔مصنف نے دانش کی جڑیں اپنی مٹی سے اگائ ہیں۔ہمیں پڑھتے محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود بول رہے ہیں ،کام کر رہے ہیں۔یہ کہانی قاری کو کوٹھی بلڈنگ ،کار کی ترغیب نہیں دیتی،یہ تو جیتی جاگتی کہانی ہے اور کہانی جیتی جاگتی ہونی چاہئے۔یہ کہانی ہماری تہذیب ثقافت کا جھومر لے کر جھوم رہی ہے۔یہ ناول سرائیکی خطے دامان سے تعلق رکھتا ہے اور جغرافیائی حساب سے یہ علاقہ آج کے صوبے خیبر پختونخواہ میں شامل ہے لیکن سرائیکی زبان کے اس ناول نے جغرافیائی تقسیم کرنے والوں کو جھنجھوڑا ہے اور پیغام دیا ہے کہ ہم جاگ رہے ہیں۔
ناول کی کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ 1964 کا زمانہ ہے ۔20مارچ کا دن ہے یعنی بہار رت ہے ۔لقمان بطور ٹیچر درابن سے بستی کوڑی ہوت جا رہا ہے ۔درابن سے بستی کوڑی ہوت بیس میل دور ہے۔وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر سوار کچے راستے سے جا رہا ہے اور اس کی بغل میں ریڈیو چل رہا ہے ۔(آ چنوں رل یار) وہ کوڑی ہوت پہلی دفعہ جا رہا ہے ،بس پوچھ پوچھ کر جا رہا ہے۔رستے میں اسے ایک ادمی روکتا ہے اور اس سے پنکچر کا سامان پوچھتا ہے۔ اس آدمی کے ساتھ ایک لڑکی ہے جس کے ہاتھ پاوں میں مہندی لگی ہوئ ہے۔ وہ آدمی لقمان کو پنکچر لگانے کے دوران بتاتا ہے کہ یہ لڑکی اس کی بھتیجی ہے اور اونٹ کچاوے سے ڈرتی ہے، اس لیے اسے میں سائیکل پر لے کر جارہا ہوں،ہم رشتہ داروں کی شادی پر گئے تھے۔ ہم بستی کوڑی ہوت جا رہے ہیں تو لقمان بھی کہتا ہے کہ میں بھی کوڑی ہوت جا رہا ہوں اور سکول ماسٹر ہوں۔اس لڑکی کا نام شمی ہے اور لقمان اور شمی ایک دوسرے کو دل دے بیٹھتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے، سکول بھی وہیں اور شمی بھی وہیں،تو لقمان کیلئے وہ بستی جنت بن جاتی ہے۔میل بڑھنے لگتا ہے، ملاقاتیں ہوتی ہیں، ایک بار بستی میں کسی کی شادی ہوتی ہے تو شمی رات کو لقمان کو چاول اور چوری آن کھلاتی ہے_ ایک بار بستی والے گندم کی کٹائی کےلئے دوسرے علاقے میں جاتے ہیں تو لقمان شمی کی وجہ سے سکول چوکیدار سر ابو کو کہتا ہے میں نے گندم کی کٹائی کبھی نہیں دیکھی، اگر میں آجاوں تو کوئی بات تو نہیں؟ سر ابو اسے کہتا ہے کہ ماسٹر صاحب یہ بھی بھلا کوئی بات ہے، تم رو ہمارے اپنے آدمی ہو، لقمان دوسرے دن وہاں پہنچ جاتا ہے_ لوگ کٹائی کرکے اپنی اپنی کلیوں پر (کیمپ)آ رہے ہوتے ہیں_
لقمان سرابو کے کیمپ میں ہے اور سر ابو کا کیمپ شمی کے کیمپ کے سامنے ہے_ اچانک بادل بنتے ہیں، آندھی چلتی ہے اور موسلادھار بارش شروع ہونی لگتی ہے اور ساتھ ساتھ اولے پڑنے لگتے ہیں_ سر ابو کا کیمپ گر چکا ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو شمی کے کیمپ میں لے گیا ہے اور ماسڑ صاحب کو بلا رہا ہے لیکن ماسڑ کا چور اندر سے شور مچا رہا ہے_ آخرکار لقمان بھی اسی کیمپ میں چلا جاتا ہے_ بارش ہو رہی ہے، ہوا زور زور سے چل رہی ہے، لقمان سر نیچے کئے بیٹھا رہتا ہے لیکن اچانک اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو شمی کے ساتھ بیٹھا ہے پھر وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر بیٹھے رہتے ہیں_ لقمان دل ہی دل میں کہتا ہے کہ بارش اسی طرح چلتی رہے، ہوا اور زور زور سے چلتی رہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس چلتی رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام ملاقاتوں میں جہاں لقمان اور شمی ملتے ہیں یا باتیں کرتے ہیں_ کہیں بھی قاری کے ذہن میں ہیجان یا جنسی کیفیت تک کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایک پاوتر پیار کی مہک سی جاگ جاتی ہےاور یہی ناول کا حسن ہے_
آخر لقمان واپس درابن آکر اپنے بھائی اور بھابی کو بتاتا ہے، بھابی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لقمان اس کی بہن سے شادی کرے_ خیر! لقمان درابن سے بستی کوڑی ہوت ڈیوٹی پر واپس آجاتا ہے تو ماجرا ہی کچھ اور ہوتا ہے_ یہیں پر ناول آگے کی سمت میں بڑھتا ہے_ بستی میں ایک آدمی ایک عورت کے ساتھ پکڑا جاتا ہے اور فیصلہ ہوتا ہے کہ مرد والے دو عورتیں "ونی” کرکے دیں ورنہ بات قتل تک چلی جائے گی _ آخرکار مرد والے دو عورتیں "ونی” کرکے دیتے ہیں، جن میں ایک شمی ہوتی ہے، جن کی ساٹھ ستر کے لگ بھگ عمر کے آدمی سے شادی کردی جاتی ہے_ لقمان کے سر پر تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن سماج کا کیا کریں؟
آخرکار لقمان کوڑی ہوت سے تبادلہ کرالیتا ہے اور بھابی کی بہن سے شادی کر لیتا ہے_ پہلے پہل تو اس کا دل نہیں لگتا لیکن جب بچے ہو جاتے ہیں تو لقمان میں بھی تبدیلی آجاتی ہے وقت گزرنا شروع ہوجاتا ہے، لقمان کےلئے شمی کا قصہ ختم ہوچکا ہوتا ہے_ اسے بھی یاد نہیں رہتا کہ کوئی ایسا وقوعہ کبھی ہوا بھی تھا_ اب اس کے بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی فکر میں ہوتا ہے_ یہ کام کرنا،وہ کام کرنا،کمرہ بنوانا، گارڈر خریدنے ہیں زیور بنوانے ہیں،اس لئے وہ ریٹائر ہونے کا سوچ کر بھول جاتا ہے_
2002ء میں اس کا تبادلہ پھر بستی کوڑی ہوت ہوجاتا ہے لیکن اسے شمی کا کوئی قصہ تک یاد نہیں ہے_ بہت سے لوگ اس دنیا میں سے چلے گئے ہوتے ہیں لیکن سر ابو چوکیدار زندہ ہوتا ہے_ سرابو لقمان کو پہچان جاتا ہے، لقمان کی بڑی داڑھی سفید اور کالی ہوچکی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے_ سامنے سے ایک عورت بچے کو پکارتی ہے تو سرابو چوکیدار لقمان سے پوچھتا ہے کہ ماسٹر صاحب اس عورت کو پہنچاتے ہو؟ ” نہیں ” ماسٹر صاحب یہ شمو ملکانی ہے، تم کو وہ ” ونی ” والا قصہ؟ شوہر کے مرنے کے بعد بڑی جائیداد کی مالک ہے شمو ملکانی کہلاتی ہے اور سرابو شمی کو بھی کہتا ہے_
یہ ماسٹر لقمان ہے جو پینتیس، چھتیس سال پہلے اس سکول میں پڑھانے کےلئے آیا تھا_ لقمان کے دماغ میں وہ قصہ ابھرتا ہے لیکن صرف ایک لمحے کےلئے لقمان رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر سونے کےلئے تیاری کر رہا ہوتا ہے کہ شمو ملکانی اسے چاول اور چوری دینے کےلئے آتی ہے، لیکن لقمان کو ان چاولوں اور چوری میں وہ خوشبو محسوس نہیں ہوتی_ شمی کہتی ہے کہ اس کے بیٹے کی آج شادی تھی تو لقمان کے دماغ میں اپنے بیٹے کی شادی کرنے کا ارمان جاگ جاتا ہے، ناول یہاں پر ختم ہوتا ہے کہ شمی پھر سے جڑنے کی کوشش کرتی ہے لیکن لقمان کے دل کا حال شاعر کی اس نظم کی طرح ہے_
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
ہمارے بالوں کے جنگلوں میں
سفید چاندی اتر چکی تھی
ناول میں اور بھی بہت کچھ ہے مثلا جب خدا کے نام کی خیرات بانٹی جارہی ہے اور بچے لینے والے سے کیسے لے رہے ہیں، مصنف نے اسے ایسا دکھایا کہ آپ مسکرائے بغیر رہ ہی نہیں سکتے_ پورے ناول میں کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ میں کہوں گا کہ حبیب موہانہ نے اپنا قاری تلاش کرلیا ہے اور یہی کسی بھی ناول نگار کی اتم خوبی ہے_
” اللہ لھیسی مونجھاں” ہماری اپنی مونجھ ہے جسے حبیب موہانہ نے تروتازگی بخشی ہے_
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ