دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندوستان کی پرانی وبا کی کہانی(آخری قسط) ۔۔۔ رؤف کلاسرا

نوجوان آغا خان کی اپنی Immunityبہت اچھی تھی لہٰذا وبا کے جراثیم انجیکٹ کرانے کے باوجود وہ اثرات نمودار نہ ہوئے
جو بات سازشی تھیوریز سے شروع ہو کر ہندوستانی عوام کی بے نیازی تک پہنچی تھی اتنی خوفناک شکل اختیار کر چکی تھی کہ خود عوام کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔ وہی عوام جو پہلے اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے اب ہر طرف موت کا راج دیکھ کر اشتعال میں آنا شروع ہوگئے تھے کہ انگریز سرکار کچھ کر کیوں نہیں رہی۔
بمبئی (موجودہ ممبئی)حکومت کے پاس ایک بہترین ریسرچر اور سائنسدان تھا جس کا نام پروفیسر ہاف کین تھا۔ پروفیسر ایک روسی یہودی تھا۔ وہ اس وقت ہندوستان آیا ہوا تھا تاکہ ہیضہ پر کام کر سکے ۔ اس یہودی پروفیسر نے سرکاری حکام کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ ہیضہ کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں کے جسموں میں اس بیماری کے کچھ جراثیم انجیکٹ کئے جائیں ۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ لوگوں میں Immunityپیدا کی جائے جو اس وبا کا مقابلہ کرے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کسی تندرست انسان میں اس بیماری کے چند جراثیم ڈالے جائیں۔ انسان کے اندر موجود Immunity ان کمزور جراثیم کو مار دے گی اور یوں وہ وبا اس پر دوبارہ حملہ آور نہیں ہوسکے گی۔
یہودی پروفیسر بمبئی میں یہ بات سب کو سمجھانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا‘ لیکن اس کی بات کوئی سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی سائنسی اپروچ کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی تھی جو ملنی چاہیے تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عام ہندوستانی یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ جس بیماری سے بندے کو محفوظ رکھنا ہے ‘الٹا اسی کے کچھ جراثیم انجیکٹ کیے جائیں۔ ہندوستانیوں کا خیال تھا کہ اگر وہ جراثیم زیادہ طاقتور نکلے تو پھر بندہ ویسے ہی مرجائے گا‘ اورایک طرح سے یہ خود موت کو گلے لگانے والی بات ہوگی۔ بجائے اس کے کہ یہودی سائنسدان کی بات پر غور کیا جاتا‘ الٹا اس پر تنقید شروع ہوگئی۔ سازشی تھیوریز گھڑ لی گئیں اور یہودی پروفیسر تنازعوں میں گھر گیا۔
جب یہودی سائنسدان کا سب مل کر حشر نشر کررہے تھے اس وقت بھی لوگ دھڑا دھڑ مررہے تھے اور اب تو لوگ گنتی تک بھول گئے تھے کہ روز کتنی اموات ہورہی تھیں۔ نوجوان آغا خان کے لیے دکھ کی بات یہ تھی کہ مرنے والوں میں ان کے اپنے مریدین بھی شامل تھے ۔ یہ خطرناک حالات دیکھ کر نوجوان آغا خان نے سوچا کہ انہیں ہی خطرہ مول لینا ہوگا تاکہ وہ عام لوگوں اور اپنے مریدین کو اس وبا سے بچاسکیں‘ ورنہ تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ ان خطوط پر سوچنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ آغا خان نے سائنسی تعلیم بھی اپنے استادوں سے لے رکھی تھی جو انہیں پڑھانے روزانہ ان کے گھر آتے تھے ۔ آغا خان نے اپنے سائنس کے مضمون میں فرانس کے مشہور کیمسٹ لوئی پاسچر کو پڑھا ہوا تھا۔ لوئی پاسچر نے ہی یہ علاج ایجاد کیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچ گئی تھیں۔ اس نے ثابت کیا تھا کہ جراثیم ہی انسان میں بیماری پیدا کرتے ہیں۔ اس نے ہی ان جراثیم کو مارنے کے لیے بہت سی اہم ویکسین ایجاد کی تھیں۔ کتے کے کاٹنے کا علاج بھی پاسچر نے ہی ایجاد کیا تھا۔ ایک نو سالہ لڑکاجوزف‘ جسے کتے نے کاٹا تھا ‘پر پہلی دفعہ یہ طریقہ آزما کر لوئی پاسچر نے اس کی جان بچائی تھی۔ اس لیے نوجوان آغا خان کو اندازہ ہوچلا تھا کہ بمبئی کا سرجن جنرل غلط انداز میں اس وبا کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کا نتیجہ مزید اموات کی شکل میں نکلے گا۔ نوجوان آغا خان نے سرجن جنرل کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست اس یہودی سائنسدان سے رابطہ کیا۔ یہودی سائنسدان آغا خان کو اچھا لگا اور دونوں کی بہت جلد دوستی ہوگئی۔ وبا ان دونوں کے درمیان ایک نیا تعلق بنا گئی۔ دونوں نے مل کر اس وبا سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
دونوں کے پاس وقت بہت کم تھا۔ آغا خان نے اس یہودی پروفیسر کو وہ تمام سہولتیں فوراً فراہم کر دیں جو لیبارٹری بنانے اور ریسرچ کے لئے ضروری تھیں۔
آغا خان کو علم تھا کہ ان کے پاس بہت کم وقت ہے ۔ آغا خان کے پاس ایک ہی حل تھا کہ وہ خود کو اپنے لوگوں کے سامنے ایک رول ماڈل بنا کر پیش کریں ۔ آغا خان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بیماری کے کچھ جراثیم‘ جو لوگوں کو نگل رہے تھے ، اپنے جسم میں انجیکٹ کرائیں گے۔ یہ بہت بڑا خطرہ تھا کہ ایک صحت مند نوجوان اپنے جسم میں اس بیماری کے جراثیم ڈلوائے گا جس سے لوگ بڑی تعداد میں جان سے ہاتھ دھو رہے تھے ۔ یہ خطرہ موجود تھا کہ بندے کو بخار ہو جائے۔ جسم میں درد شروع ہوسکتا تھا اور جس جگہ سے جراثیم جسم کے اندر انجیکٹ کیے جاتے وہ جگہ بھی سرخ ہوکر سوجھ جاتی اور کئی دن تک دکھتی رہتی۔ اور اگر انسانی جسم میں یہ جراثیم پھیل گئے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر یہودی سائنسدان کی سب باتیں غلط نکلیں تو کیا بنے گا؟یہ سوچ کر سب ڈرے ڈرے اور خوفزدہ تھے ۔
اپنی جان کو لاحق تمام تر خطرات کے باوجود نوجوان آغا خان نے خود کو اس ”پراسرار اور خطرناک‘‘عمل سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ آغا خان نے یہودی سائنسدان کو بتایا کہ جس علاج سے بمبئی کے عام لوگ تو چھوڑیں‘ یورپین سے لے کر ایشین تک سب ڈرے ہوئے ہیں‘ وہ اس علاج کو خود پر آزمانے کیلئے تیار ہیں۔ جب یہ خبر پھیلی کہ آغا خان یہودی سائنس دان کے طریقہ علاج کیلئے خود کو پیش کررہے ہیں تو ان کے اپنے گھر سے لے کر ان کے مریدین اور عام لوگوں تک ایک خوف کی لہر دوڑ گئی ۔جب آغا خان کے جسم میں وہ جراثیم داخل کیے جارہے تھے تو انہوں نے یہ یقینی بنایا کہ ان کے مریدین کی ایک تعداد وہاں موجود ہو اور وہ یہ سب عمل اپنی آنکھوں سے خود دیکھیں‘اور بعد میں یہ خبر ہر طرف پھیلائی بھی جائے ۔
نوجوان آغا خان کی اپنی Immunityبہت اچھی تھی لہٰذا وبا کے جراثیم انجیکٹ کرانے کے باوجود وہ اثرات نمودار نہ ہوئے جس کا خوف عام بندے کے دل میں تھا۔ جب ان سب نے دیکھا اس بیماری کے جراثیم نے آغا خان کے اندر داخل ہوکر انہیں بیمار نہیں کیا اور وہ تندرست ہیں تو لوگوں کا ڈر اور خوف ختم ہوگیا۔ اس کے بعد اسماعیلیوں نے بھی اپنے امام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جراثیم کی کچھ مقدارانجیکٹ کرانا شروع کردی اور اس عمل نے انہیں موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ دیگر لوگ ابھی تک شش و پنج کا شکار تھے؛ تاہم اسماعیلیوں میں اس بیماری سے اموات ہونا کم ہوگئیں کیونکہ انہیں حوصلہ ملا تھا کہ اگر ان کے امام کو اس پورے میڈیکل عمل سے کچھ نہیں ہوا تو انہیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ باقی عوام نے بعد میں اس پر عمل شروع کر دیا۔ وہ یہودی سائنسدان دو سال تک آغا خان کے محل میں کام کرتا رہا اور پھر انگریز سرکار نے اس پراجیکٹ کا کنٹرول لے لیااور اسے باقاعدہ ایک ادارے کا درجہ دے دیا گیا۔
اس واقعے کے چھپن برس بعد جب آغا خان 1954میں اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھے تو انہیں خود پر ایک فخر سا محسوس ہوا کہ انہوں نے ایک نوجوان ہو کر کیسے اس خوفزدہ ماحول میں بھی ایک ایسا دلیرانہ قدم اٹھایا تھا جس کو اٹھانے سے عام یورپین ، ایشین تو چھوڑیں خود ڈاکٹرز تک ڈرے ہوئے تھے ۔ یہ سر آغا خان کی قیادت کا پہلا بڑا امتحان تھا کہ وہ گھر میں بند ہو کر اپنے اردگرد عام انسانوں اور اپنے مریدوں کو وبا کا شکار ہوتے دیکھتے رہتے یا پھر خطرہ مول لے کر اس یہودی سائنسدان پر اعتبار کر لیتے اور بہت سی جانیں بچانے کا سبب بنتے ۔ یوں آغا خان کے ایک دلیرانہ فیصلے کی وجہ سے دھیرے دھیرے اس وبا پر قابو پالیا گیا۔
آغا خان جب 77 سال کی عمر میں اپنی یادداشتیں لکھنے بیٹھے اور اپنی زندگی کا وہ دن یاد کیا تو ایک ہی بات ذہن میں آئی کہ انسان کی زندگی کی پہلی جنگ ہی بہت اہم ہوتی ہے۔ اس پہلی جنگ کا نتیجہ ہی انسان کی پوری زندگی کا فیصلہ اور رخ متعین کر دیتا ہے ۔ بیس سالہ آغا خان کی پہلی جنگ کا فیصلہ بھی اسی دن ہوگیا تھا‘ جب خوف، دہشت اور ہر طرف جاری موت کے رقص کے درمیان انہوں نے اپنی جان کو لاحق سنگین خطرات مول لے کر کوہ قاف کے دوردراز دیس سے آئے ایک یہودی سائنسدان پر یقین کرنے کا فیصلہ کر کے ہزاروں انسانی جانیں بچا لی تھیں۔

About The Author