اس وقت کرونا کی بیماری نے دنیا کی جو حالت کر دی ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔پہلے کسی ایک شھر یا ملک پر آفت نازل ہوتی تو دوسرے ممالک مل کر اس کی مدد کرتے اور اس طرح متاثرہ ملک آفت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا۔ کرونا کی بیماری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک نفسو نفسی کے عالم میں پھینک دیا۔ کوئی دوسرے کی مدد کے قابل نہیں رہا اور ساری دنیا گھروں میں دبکی بیٹھی ہے۔ ایسے حالات میں سب سے بڑا مسئلہ فوڈ سیکورٹی کا ہے کہ لوگ بھوک سے نہ مر جائیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے اور اتنی پیداوار حاصل کر لیتا ہے کہ تمام آبادی دو وقت کا کھانا کھا سکے لیکن اب غلے کے ایک ایک دانے کی حفاظت کرنی پڑے گی تاکہ آنے والے مشکل حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ آج میں امریکہ سے متعلق ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا جو اگرچہ مکمل حقائق تو بیان نہیں کرتی مگر موجودہ حالات کی بہت عمدہ اور دلچسپ ترجمانی کرتی ہے جب ہر ملک کی حکومتیں اپنے شھریوں کو نقد امداد فراہم کر رہی ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔
امریکہ میں سرمایہ کاری کے گُرو ۔

DR MARC FABER
نے امریکی معیشت پر تبصرہ کیا ہے جو تمام ملکوں کے لیے قابل توجہ ہے ۔۔وہ لکھتے ہیں ۔۔ امریکی حکومت نے ہر امریکی شھری کو چھ سو ڈالر کی ریبیٹ کی شکل میں مدد فراہم کی ہے مگر اس رقم کو خرچ کیسے کریں۔۔

اگر امریکی لوگ اس رقم کو وال مارٹ سے اشیا خریدنے پر صرف کرتے ہیں تو یہ رقم۔ چین۔۔ کو چلی جائے گی۔ اگر پٹرول پر خرچ کریں تو یہ رقم ۔۔ عرب۔۔ ملکوں کو جائے گی۔ اگر سافٹ وئیر کی خریداری پر لگائیں تو یہ پیسے ۔۔انڈیا۔۔ چلے جائیں گے۔ اگر فروٹ اور سبزیاں خریدیں تو رقم ۔۔ میکسیکو۔۔ہنڈراس ۔۔یا گوئیٹے مالا جاے گی۔۔ اگر امریکی کوئی اچھی کار خرید لیں تو رقم ۔۔جرمنی اور جاپان ۔۔چلی جائے گی۔ اگر چند بے کار قسم کی چیزوں پر خرچ کریں تو ہمارے پیسے تائیوان اور کوریا پہنچ جائیں گے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ یہ رقم کسی صورت امریکی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد نہیں کرتی۔وہ لکھتے ہیں صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے اگر ہم یہ رقم امریکہ سے باہر نہیں بھیجنا چاہتے تو ہم یا بندوقیں خریدیں یا طوائفوں پر خرچ کریں یا شراب خریدیں کیونکہ یہ سب مقامی پراڈکٹ ہیں۔ پاکستان میں ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم زرعی اجناس پیدا کر کے زندہ تو رہ سکتے ہیں ۔

پاکستان میں اس سال ڈھائی سے تین کروڑ ٹن کے درمیان گندم پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن مکڑی کے حملے اور غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری نے فصلوں کو جو نقصان پہنچایا ہے اللہ کرے یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے۔پچھلے سال بھی بے موسمی بارشوں کی وجہ سے 15 لاکھ ٹن گندم ضائع ہو گئی تھی۔ اس سال چاول ک پیداوار ایک کروڑ پندرہ لاکھ ٹن جبکہ دوسرے غلہ جات سے 70لاکھ ٹن پیداوار کی توقع ہے۔ گنے کی فصل بھی اچھی ہوئی اور سنبھالی جا چکی۔ مویشیوں کو پال کر 90 لاکھ پاکستانی روزی کما رہے ہیں۔ دودھ کی پیداوار میں پاکستان کا شمار پانچ چھ ٹاپ کے ملکوں میں ہوتا ہے کیونکہ ملک میں تقریبا” ساڑھے سات کروڑ گائیں اور بھینسیں پالی جا رہی ہیں جن سے سالانہ پانچ کروڑ ٹن سے زیادہ دودھ حاصل ہوتا ہے ۔اسی طرح سالانہ چالیس لاکھ ٹن گوشت بھی حاصل کیا جاتا ہے۔جس میں 22لاکھ ٹن بڑا گوشت۔ 12 لاکھ مرغی کا گوشت اور چھ سات لاکھ ٹن مٹن شامل ہے۔مچھلیوں سے بھی ساڑھے سات لاکھ ٹن گوشت حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ الحمدوللہ ہماری آبادی کی ضروریات سے بھی زیادہ ہے ۔ ان تمام اعداد و شمار کو دیکھ کر دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی نصرت شامل رہی تو ہم کرونا کی آفت سے جو اقتصادی بحران پیدا ہو گا اس کا بخوبی مقابلہ کر سکیں گے۔ان شاء اللہ