تحریر: سئیں ممتاز بخاری
سندھی سے اردو ترجمہ:مدثر بھارا
بچپن کے دنوں میں سرائیکی زبان کے صوفی شاعروں سے ان کے کلام کے ذریعے تھوڑی بہت شناسائی ہوئی جوکہ میری سرائیکی زبان سے پہلی جان پہچان تھی۔ اور ہاں میرے مرحوم چچا باقر علی شاہ جنہیں ہم سارے بھائی ابا کہ کے بلاتے تھے،وہ ہمیں سرائیکی شاعروں کے انداز میں قصے سنایا کرتے تھے۔بیسویں صدی کے 80 اور 90 کی دھائی میں میرا صادق آباد،رحیم یار خان ، بھونگ اور سنجر پور آنا جانا شروع ھوگیا تھا اور میں نے وہاں سے سرائیکی شاعری اور کہانیاں خریدنا اور پڑھنا شروع کر دی تھیں۔
سنجر پور سے قریب ہی رہنے والے سید انیس شاہ جیلانی کے ساتھ میل ملاقات اور کتابوں کا تبادلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ بعد میں سرائیکی ادب سے زیادہ واقفیت سن 2003ء اور 2004ء کے زمانے میں ہوئی جب میں ایک ٹی وی پراجیکٹ کے سلسلے کبھی 15 دن کبھی مہینہ بھر ملتان، بہاول پور اور سرائیکی وسیب کے دیگر شہروں میں قیام کرتا رہا۔ اور ان دنوں رفعت عباس، جاوید چانڈیو، نعیم کلاسرا سمیت کئی سرائیکی شاعروں اور لکھاریوں سے میری ملاقاتیں رہیں۔اور سرائیکی زبان و ادب سے جان پہچان بھی بڑھتی گئی۔لیکن یہ معاملہ سرائیکی شاعری،نان فکشن اور کہانی تک ہی محدود رہا۔
پھر 2020 کی سردیوں میں کوئی 15، 20 سال کے وقفے کے بعد میں ملتان گیا تو رفعت عباس کی محبتوں نے سرائیکی زبان و ادب کے کچھ دیگر ناموں سے ملاقات کروائی،لیکن اس بار موضوع ناول تھا۔سلیم شہزاد سے ناول کے ذریعے جان پہچان ہوئی۔ ان سے پہلے میں نے سرائیکی وسیب سے حفیظ خان کا اردو زبان میں شائع ناول پڑھ رکھا تھا۔ لیکن اس مذکورہ ملاقات میں پتہ چلا کہ سرائیکی ناول ناپختہ صورت میں نہیں بلکہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ سرائیکی زبان میں اسماعیل احمدانڑیں، اشرف جاوید ملک، حبیب مہانڑاں اور دیگر لوگوں نے ناول لکھا ہے لیکن یہ ناول لکھنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ سرائیکی زبان میں ناول کی شروعات بری نہیں۔سلیم شہزاد کا پہلا ناول گھان 2012ء میں شائع ہوا تھا۔
گھان ناول فارم اور تیکنیک کے لحاظ سےپوسٹ ماڈرن ناول ہے اور ایسا سمجھئے کہ یہ مکمل طور پر Absurdناول ہے۔ اس ناول میں انسانوں کے ساتھ ڈنگ مارنے اور کاٹنے والےحشرات کا کردار نمایاں ہے،خاص طور پر بھڑ،مچھر،مکھیاں اور ڈریگن مکھی،کا ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار زہری بندے یا نیلو کا ہےاور مختصر وقت کےلئے خان کا کردار بھی ہے ،باقی عام انسانی کرداروں کے ذریعے ناول اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ زہری نیلے رنگ کا ہے جس پر حشرات کا ڈنگ اثر نہیں کرتا اور وہ شہر سے باہر ایک تالاب پر رہتا ہے، جہاں اس کی ملاقات مچھروں اور مکھیوں سے ہوتی ہے اور وہ ان سے باتیں کرتا رہتا ہے۔
شروعات میں مکھیاں اور مچھر اسے ناپسند کرتےہیں لیکن بعد میں وہ مانوس ہوجاتے ہیں اور اسے دوست بنالیتے ہیں
زہری انہیں بتاتا رہتا کہ آج وڈیرے نے ایک بندہ مروادیا ہے، آج تالاب کے پانی پر جھگڑا ہوا یے ، جس سے فصلوں کا نقصان ہورہا ہے،شہر میں مظاہرے چل رہے ہیں جن سے بدامنی پھیلی ہے،شہر میں بخار کی بیماری آگئی ہے،کھانسی کا دورہ چل رہا ہے وغیرہ۔۔مچھروں کا سردار بیمار پڑ جاتا ہے اور مچھر زہری سے صلاح مشورہ کرتے ہیں، مچھروں کا سردار مرنے سے پہلے پیشین گوئی کرتا ہے کہ ایک زہریلا بھڑ شہر پر حملہ آور ہونے والا ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ناول Absurd اور Fable ہے اسی طریقے سے ناول آگے بڑھ رہاہے۔
اس ناول کے ایک چیپٹر یا باب میں آنے والی وبا اور اس سے بچاو کے بارے میں بتایا گیا ہے،اس چیپڑ کو پڑھ کہ ایسے لگتا ہے جیسے آج کرونا کے باعث حالات چل رہے ہوں۔ صفحہ نمبر 69 کا ایک جملہ دیکھئے ** ضرور کوئی ایسی وبا آن پہنچی ہےجس کی وجہ سےلوگ پریشانی کے عالم میں ہیں اور ایک دوسرے سے محفوظ رہنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ** اس باب میں ماسک پہننے اور احتیاطی تدابیر کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
یہ ناول موجودہ کرونا کی وبا سے 8 سال پہلے چھپا تھا۔ وبا کے بارے لکھا یہ ناول بالکل تصوراتی بات ہےلیکن بعد میں ایسے ناول کو کسی سازشی تھیوری کے حوالے کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہتا ہے۔بھڑ شہر پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور انسانوں، درختوں،پودوں اور زمین کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ سائنس دان اور حشرات کے ماہرین بھڑوں کی اس قسم سے واقفیت نہیں رکھتے۔ حکومت اور اپوزیشن کی وبا کے دنوں کی سیاست ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ فوج ملک کے وسیع تر مفاد کےتحت میدان میں اتر آتی ہے ۔ یہ وبا لوگوں کو مار رہی ہے۔ فوج زہری کو گرفتار کر لیتی ہے اور میڈیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اور زہری اعتراف کرتا ہے کہ وہ مچھروں اور مکھیوں سے بات چیت کرسکتا ہے، اس پر کچھ وقت کے لئے فوج مقدمہ چلاتی ہےلیکن بعد میں اسے تالاب پر لے جا کر چھوڑ دیا جاتاہے۔
کچھ دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ اس کے جسم سے وبا کے بچاو کی دوا بنا لی گئی ہے، لیکن یہ بات بہت بعد میں ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں سے اس ضمن میں دھوکہ ہوا تھا۔ زہری خود بھڑوں کے حملے میں مرجاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے اس پر کسی طرح کا ڈنگ اثر نہیں کرتا تھا۔ وبا سارے ملک میں پھیل جاتی ہے۔
اس ناول میں ہلکے پھلکے انداز میں ملکی سیاست پر مزاح بھی کیا گیا ہے ایک سطری خبریں بھی دی گئی ہیں جیس کہ، اسامہ کا مرنا، ریمنڈ ڈیووس کا ملک سے باہر جانا، ملالہ یوسف زئی والے واقعے کی بغیر نام خبر،ناول کے اختتام پر بڑا معنی خیز جملہ ہے ** یہ بھڑ آخر ہیں کیا، بھڑ سارے ملک کے مالک بن گئے ہیں اور راج کرنے لگے ہیں جبکہ سرکار جہازوں پر چڑھ کے اڑگئی ہے **
یہ ناول موضوع کے حساب سے سیاسی بھی ہے اور انسانی المئیے کی کہانی بھی بیان کررہا ہے۔ایک طرف تو انسانی ماحول کا قصہ ہے اور دوسری جانب محاوروں کےذریعے اس قصے کو آگے بڑھانے میں مدد لی گئی ہے۔جیسا کہ ناول حقیقت سے غیر حقیقی اور پھر غیر حقیقی سے حقیقت کی طرف سفر جاری رکھتا ہے، قصے سے نکل کر کہانی بن جاتا یے۔ ناول ماحول کے حساب سے نہایت سادہ ہے مگر تیکنیک اسے آگے بڑھاتی جاتی ہے۔ناول میں میچورٹی موجود ہے اگرچہ کہیں کہیں یہ میچورٹی ٹوٹتی بھی جاتی ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر یہ ناول پڑھا جائے تو انسان کو سوچنے پر لازمی مجبور کرتا یے۔اور سرائیکی ناول کے لئے نقارہ بجانے کا اعلان کرتاہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر