دھرتی غداریں توں خالی نی تھی
ول وی اساڈی صبر سوالی نی تھی
یہ دیس ہم سب کا سانجھا ہے.ہمارے دکھ سکھ اور وسائل سانجھے ہیں.اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں.قانون میں وطن کے تمام شہری یکساں حقوق رکھتے ہیں. ان سمیت اور کتنی خوبصورت باتیں اور کتنے دلکش نعرے ہیں.کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ سچ ہے زمینی حقائق ایسے نہیں ہیں. یہاں بہت کچھ مختلف ہے. ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے.وفاقی بجٹ ہو یا صوبائی بجٹ سرائیکی وسیب کے ساتھ ہمیشہ سے زیادتی ہوتی چلی آ رہی ہے.
وسائل منصوبہ جات اور فنڈز کی تقسیم میں تخت لاہور کا پیدا گیر طبقہ سرائیکی خطے کو مختلف حیلے بہانے بنا کر، مختلف اعتراضات لگا کر، مختلف قانونی اور تکنیکی جواز پیدا کرکے اس کے حق اور حصے سے محروم کرنے کی چالیں چلتا آ رہا ہے. ظلم اور ستم تو یہ ہے کہ زیادتی کو زیادتی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا.اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب سے عوامی نمائندگی کا تاج سر پر سجانے والوں کی غالب اکثریت محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے. یہی وجہ ہے کہ تعلیم و صحت، مواصلات و روزگار سمیت کسی بھی شعبے میں یہاں کے عوام کو ان کا حق نہیں ملتا.
یہاں کی ایلیٹ کلاس اور رولر کلاس خود اور ان کی فیلیمز لاہور اسلام آباد میں رہتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ وسیب کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو وہ سہولیات حاصل نہیں ہیں.
خطرناک کرونا وبا اور اس کے پھیلاؤ کے باوجود شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان کے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کو حفاظتی کیٹس اور پورا ساز و سامان تک فراہم نہیں کیا گیا.یہی حال نشتر ہسپتال سمیت وسیب کے دوسرے ہسپتالوں کا ہے.بروقت اور مکمل حفاظتی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہاں خود ڈاکٹرز خاصی تعداد میں کرونا کا شکار ہو چکے ہیں.تین صوبوں کے سنگھم پر واقع بڑے ہسپتال شیخ زاید میں ابھی تک کرونا ٹیسٹ کی سہولت تک دستیاب نہیں ہے.
اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے جو سہولیات لاہور اور اپر پنجاب کے اضلاع کو حاصل ہیں وہ ہمیں کیوں میسر نہیں ہیں.استحصال کا دائرہ اور لسٹ اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہے.
محترم قارئین کرام،، سردست میں اپنے ضلع رحیم یار خان کے شعبہ تعلیم، ضلعی ہیڈ کوراٹر میں واقع سب سے بڑے کالج گورنمنٹ خواجہ فرید کالج کا کچھ مختصر سا حال سنانا چاہتا ہوں. جس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا. یہاں منصوبے کیسے بنتے ہیں فنڈز کیسے ملتے ہیں.
پھر ہتھیائے یا ختم کیسے کیے جاتے ہیں. دردیں دی داستان تو بہت طویل ہے جو اس کالم میں ہرگز نہیں سموئی جا سکتی. میں سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کو سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل بھٹی کی ارداس اور چیخ و پکار سن کر متعلقہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کےارباب اختیار کو خواجہ فرید کالج کے حوالے سے ایک یاد دہانی لیٹر لکھا ہے. اے ڈی پی2018,19 جی ایس نمبری 1101 میں خواجہ فرید کالج کے مختلف کاموں کے لیے 300ملین روپے کی پی سی بھیجی گئی.سیکرٹری ہائر ایجوکیشن مومن علی آغا نے بے جا اعتراضات لگا کر رد کر دیا. اے ڈی پی 2019,20 جس ایس نمبری 218میں 15ملین روپے کے منصوبہ جات کی پی سی ٹو بنا کر بھیجی گئی.جس کے لیے محکمہ ہائر ایجوکیشن کے ارباب اختیار نے 16.12.2019کی میٹنگ میں 11ملین کی منظوری دے کر پی اینڈ ڈی کو بھیج دیا. یہ بیل بھی یہاں تک پہنچ کر آگے نہ بڑھ سکی.
جس کی وجہ سے کالج کے مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے.اب کی بار اے ڈی پی 2020,21کے لیے خواجہ فرید کالج کے لٹکتے بھڑکتے بڑھتے مسائل کو حل کرنے کے لیے 380ملین روپے کی پی سی بنا کر بھیجی ہوئی ہے. ماضی کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے یاکالج کی فریاد پر اس کی داد رسی کی جاتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا.
مختلف اعتراضات لگا کر سرائیکی وسیب کے منصوبہ جات کو ریجکیٹ کرنے یا فنڈز مختص کرکے واپس لے لینے والا رویہ اور عادتیں ترک کی جاتی ہیں یا نہیں. عادت سے مجبور تخت لاہور کی بیورکریسی ایسا کرے یا نہ کرے مگر ہمیں ابھی سے ایک کھٹکا سا لگ رہا ہے کہ شاید اس بار کرونا وباء کا بہانہ بنا کر سرائیکی وسیب اور خواجہ فرید کالج کے منصوبہ جات دینے کی بجائے پھر ڈراپ نہ کر دیئے جائیں. سانپ سے ڈسے لوگوں کا اندھرے میں پڑی رسی سے ڈرنا بنتا ہے.
خواجہ فرید کالج میں سات ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں.کالج اساتذہ کی کمی کا شکار ہے. اتنی بڑی تعداد کے حامل کالج میں صرف 81استاد ہیں. کلریکل اور دیگر سٹاف و عملے کی بھی شارٹیج ہے. طلبہ و طالبات کے رہنے کے لیے ہاسٹل نہیں ہیں. تین ہاسٹلز میں سے ایک جناح ہال خطرناک قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے.
اسلامیہ یونیورسٹی کے قبضے سے واگزار کرایا جانے والا لیاقت ہاسٹل کلاسز رومز کی شدید کمی کی وجہ سے ایجوکیشنل مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا چکا ہے سب سے چھوٹا اقبال ہاسٹل ہے جس میں اس کی کیپسٹی سے کافی زیادہ تعداد میں بھیڑوں کی طرح طلبہ کو ٹھونس کے رکھا گیا ہے. طالبات کے لیے سرے سے کوئی ہاسٹل ہی نہیں. کالج کے پاس ضرورت کی مطابق ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے.گذشہ سالوں میں نئی بس کی خریداری کے لیے دیئے جانے والے 80لاکھ روپے کے فنڈز منظور کرکے فورا بعد 35لاکھ روپے ارباب اختیار نے واپس لے لیے تھے. اس طرح بس کی خریداری کی بھی بس ہوگئی. طلبہ و طالبات مسلسل پریشان اور دھکے کھاتے پھرتے ہیں. لائبریری اور لیبارٹریز کے نہ ہونے یا مطلوبہ سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے درپیش مسائل اور ان کے نقصانات کو وہی لوگ جانتے ہیں جو بھگت رہے ہیں.
آجکل نئے بجٹ کی تیاری کی جارہی ہے.وقت کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے وسیب کے مستحق غریب اور مڈل کلاس کے طلبہ و طالبات کے دکھ درد کو سمجھنے والے اور ان کا احساس رکھنے والے خواجہ فرید کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل بھٹی نے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ضلع رحیم یار خان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز صاحبان سے بھی فردا فردا رابطہ کرکے، فون کرکے، ملاقاتیں کرکے انہیں کالج کے مسائل اور فنڈز کے حصول سے متعلق گزراشات پیش کی ہیں. بڑے عوامی نمائندگان میں صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار، پارلیمانی سیکرٹری چودھری محمد شفیق چنابیہ، چودھری آصف مجید،چودھری جاوید اقبال وڑائچ مخدوم فواز احمد ہاشمی و دیگر شامل ہیں. اب دیکھتے ہیں کہ بروقت یاد دہانی کے بعد ہمارے ضلع کے یہ ہونہار عوامی نمائندگان کیا کرتے ہیں. کالج کی آواز بنتے ہیں یا نہیں.جہاں تک ڈپٹی کمشنر کا تعلق ہے علی شہزاد نے پہلی فرصت میں ہی لیٹر لکھ کر اپنے علم دوست اور صاحب احساس ہونے کا ثبوت دیا ہے.
محترم قارئین کرام،، تخت لاہور کی بیورو کریسی کے استحصالی حربوں اور اپنے نمائندگان کی انتہائی بے حسی سے وسیب کے لوگ انتہائی تنگ آئے ہوئے ہیں.اب وہ کاغذی منصوبوں اور کاغذی فنڈز کے چکروں سے نکلنے کے لیے دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کرنے میں بھی مصروف ہیں. حکمرانوں کی ٹرخالوجی پالیسی اب قابل قبول نہیں ہے. جہازی سائز کے پینا فلیکس لگا کر ضلع میں اربوں روپے کے ترقیاتی اور فلاحی منصوبہ جات لانے والے جھوٹےسیاستدانوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسلسل یہ کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے اور کب تک کھیلا جاتا رہے گا.یہ تو ضلع کے نامور ترین تعلیمی ادارے کا حال ہے باقیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا اندازہ اس سے بخوبی ـگایا جا سکتا ہے.ہر سال سکیمیں بنتی ہیں تخمینہ جات کی فائلیں تیار ہوتی ہیں. میٹنگیں ہوتی ہیں. دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں.
گھوم گھما کر تھکا تھکا کر آخر میں نتیجہ نکال کے رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کوئی بات اگلے سال سہی. یہ کیسی سانجھ ہے یہ کیسا بھائی چارہ ہے یہ کیسا احساس ہے.اب یہ منافقت اور ڈنڈی بازی ناقابل برداشت ہو چکی ہے. ہم بھی پاکستانی ہیں. ہمارا بھی وسائل اور فنڈز میں حصہ ہے. کبھی لاہور کے فنڈز تو لیپس نہیں ہوتے. یہ فنڈز لیپس کی وباء اور بیماری صرف سرائیکی وسیب میں ہی نازل ہو کر کیونکر حملہ آور ہوتی ہے.اس سلوک اور انہی رویوں سے تنگ آکر ہی سرائیکی وسیب کے لوگ اپنا علیحدہ سرائیکی صوبہ مانگ رہے ہیں اور کافی عرصہ سے تحریک چلائے ہوئے ہیں. جسے مختلف طریقوں سے سیاسی سوداگر سیاستدان کیش کرتے اور دباتے چلے آ رہے ہیں.لوگ ان سیاستدانوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تھیوری اور پریکٹس کو اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں.
آنے والے دنوں میں انہیں عوامی رد عمل کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا.لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے. وہ اپنے حصے اور حقوق پر ڈاکہ زنی کرنے والوں اور اس ڈاکہ زنی پر خاموش رہنے والے نام نہاد عوامی ٹھیکیداروں سے اب بہت سارے سوال کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں. ہم بھی پاکستانی ہیں ہمیں بھی لاہور کی طرح تعلیم و صحت کے اداروں اور سہولیات کی ضرورت ہے. عوامی نمائندگان فنڈز لائیں مسائل حل کروائیں. تمام مروجہ خوشامدی سلسلے بند کریں. یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑانے والی بات اور عمل ہے.یہ منافقتیں، یہ صرف کاغذی منصوبے اور کاغذی فنڈز دینے کا مذاق بند کیا جائے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر