نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اٹھارہویں ترمیم کا شور مچانے والوں کے نام۔۔۔ سید ظفر نقوی

آٹھارویں ترمیم، 18ویں ترمیم کا شور مچانے والوں کے نام

پاکستان کے آئین کی سب سے اہم ترمیم کو خود پڑھے اور جانے بغیر جو لوگ متفکر رھتے ھیں انھیں بھی اور جمھوریت کے متوالوں کو بھی 18ویں ترمیم کیا ھے، اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 1973 کے آئین کے بعد 2010 میں اس ملک و قوم کو وہ طاقت بخشی ھے جسکا تصور کوئی شخص اسوقت تک نہیں کر سکتا جبتککہ وہ اس 18ویں ترمیم کو خود سے جان نہ لے۔۔۔

گویا 10 اپریل کو یہ 18وین ترمیم اسمبلیوں سے پاس ھو چکی تھی مگر 19 اپریل اسکے اعلان اور حقیقی نفاذ کا دن ھے،

آج جو محب وطن اس 18ویں ترمیم کے بارے میں جان لیگا تو اسکے لیئے 19 اپریل عید کا دن بن جائیگا۔ اب دیکھنا یہ ھیکہ کرونا میں سکون سے اس 18ویں آرٹیکل کو پڑھ کر آپ کیا سمجھتے ھیں۔ ضرور آگاہ کیجیئے گا۔

18ویں ترمیم یا 18th Ammendment of 2010

اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریبا 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں جو آئین کے 83 آرٹیکلز پر اثر انداز ہوتی ہیں ، متاثرہ آرٹیکلز میں 1، 6، 10، 17، 19، 25.27، 29، 38، 41، 46، 48، 51، 58، 62، 63، 70، 71، 73، 75، 89، 90، 91، 92، 99، 100، 101، 104، 105، 112، 114، 122، 129، 130، 131، 132، 139، 140، 142، 143، 144، 147، 149، 153، 154، 155، 156، 157، 160، 167، 168، 170، 171، 172، 175، 177، 193، 194، 198، 199، 200، 203، 209، 213، 215، 216، 218، 219، 221، 224، 226، 228، 232، 233، 234، 242، 243، 246، 260، 267، 268، 269 اور 270 شامل ہیں۔

اس ترمیم کے ذریعے فوجی آمر جنرل ضیاالحق جسے 8اپریل، 2010 کے بعد پاکستان کے قانون کے مطابق صدر نہیں لکھا جا سکتا،
گویا پاکستان پیپلزپارٹی نے ضیاء الحق کی تصویر نہ صرف ایوانوں سے اتار پھینکی بلکہ اسکے گناہوں کی پاداش میں اسے پہلے دن سے اسکی موت تک مملکت خداداد پاکستان کے صدر ھونے اور کہلاوانے کی حیثیت کو آئینی طور پر ختم کر دیا،
آج ضیاء الحق کو صدر لکھنا 18وین ترمیم کے تحت قانونی طور پر قابل سزا جرم ھے۔۔۔ اسے کہتے ھین ایک ڈکٹیٹر کیلیئے بعد از موت سزائے موت۔۔۔ اور انکے لیئے بھی یہ 18ویں ترمیم موت سے کم نہیں جو جمھوریت اور آئین پاکستان کے مخالف ھیں، چاہے وہ وردی میں ھوں یا ایوانوں میں، میڈیا میں بوں یا سوشل میڈیا پر 19 اپریل ان سب کی موت کا دن اور جمھوریت پسندوں کیلیئے عید کا دن ھے۔

لہذا ھم 18وین ترمیم کیخلاف اٹھنے والے ہر قدم کو آئین پاکستان کیخلاف اقدام جانتے ھوئے حق بجانب ھینکہ دام درم سخن اس آئین کا بھرپور دفاع اپنی آخری سانسوں تک کریں اسمیں کسی جج یا جنرل سے اجازت لینے کی قطعا ضرورت نہیں

18وین ترمیم ضیاءالحق 9 نومبر 1985 کو لیکر آیا جسکے تحت اس نے اپنے ناجائز اقدامات کو آئینی حیثیت دینے کیئے 100 کے قریب محتلف ترامیم کیں، جو کسی بھی اعتبار سے مسی ڈکٹیٹر کا اختیار نہیں۔۔
اس پورے قضیے میں سب سے اہم اور مزے کی بات جو ہر جمھوریت پسند کو معلوم ھونی چاہئئیے کہ

"یہ سفید جھوٹ ھیکہ 18ویں ترمیم پاکستان پیپلز پارٹی لیکر آئی ھے”

یہ بھی سفید جھوٹ ھیکہ 18ویں ترمیم 2010 میں لائی گئی

18ویں ترمیم 9 نومبر 1985 کے تاریک دن میں وہ شخص لیکر آیا جس نے اپنے اس فوجی حلف کی خلافورزی کی جسکے تحت اس نے قسم اٹھائی تھی کہ "میں پاکستان میں بحیثیت فوجی کسی بھی طور پر نہ سیاسی معاملات میں دخل دینے کا مجاز ھوں اور نہ ھی اپنی ریٹائرمنٹ کے 2 سال تک کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بن سکتا ھوں”
ایسے شخص نے پاکستان کے پہلے آئینی صدر، پاکستان کے پہلے آئینی وزیر اعظم، پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو انکے آئینی عہدے پر قبضہ کیا اور اپنی بچے کیلیئے 18وہں ترمیم کے نام پر آئیں پا کستان پر ایک بد نما داغ لگایا۔۔۔
مزے کی جو بات ھے وہ یہ جپ ضیا الحق نے وردی اور بندوق کی طاقت پر اس غیر قانونی اور غیر آئینی 18ویں ترمیم کو ججز، اپنے رفقاء فوجیوں، ملکی اداروں، مذھبی اور سیاسی سیاستدانوں اور لوٹا صحافیوں کے ساتھ ملکر کوششیں کیں کہ کسی طرح اس 18ویں ترمیم کو آئینی بنا سکیں۔۔۔ تو پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی وہ واحد جماعت تھی جسنے کہا تھا کہ ھم اقتدار میں آکر اس غیر آئینی ترمیم اور اسکے ذیل میں کی گئی کئی ترامیم کو ختم کر کے آئین بحال کر کے اس ترمیم کو آئینی حیثیت دینگے

بلآخر 19 اپریل 2010 کو تمام تر آئینی منظوریوں اور ترامیم کے بعد 18ویں ترمیم کو اصل شکل اور 1973 کے آئین کو مکمل بحال کرنے کا سہرا پاکستان پیپلزپارٹی اور اسوقت کے تمام ممبران پارلیمنٹ کو جاتا ھے

لہذا ریکارڈ کی درستگی کیلیئے ضروری ھیکہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان پیپلزپارٹی 18ویں ترمیم نہیں لیکر آئی بلکہ ڈکٹیٹر کی غیر آئینی چولوں کو ملک و قوم اور صوبوں کی خودمختاری کیلیئے اسے پاک صاف کر کے مظبوط بنایا ھے

اب ملاحضہ کریں کہ اس ایک غریب آرٹیکل کے ساتھ ایک فوجی جس نے ملک و قوم کی حفاظت کی قسم کھائی تھی کیساتھ کیا سلوک روا رکھا۔۔۔ ایک اندھوناک داستان عبرت ھے یہ کہانی بھی

جنرل ضیا کے دور میں 18ویں ترمیم کے تحت 1973 کے وفاقی آئین میں 90 سے زیادہ آرٹیکلز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔
اسی ترمیم کے تحت ایک اور فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی قریب قریب ختم کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی نے،
1. شمال مغربی سرحدی صوبہ (صوبہ سرحد) کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھا گیا۔

  1. دو صوبہ جات کے نام کے انگریزی ناموں کے اسپیلنگز میں تبدیلی کے تحت Baluchistan کو تبدیل کر کے Balochestan اور Sind کو Sindh کیا گیا ہے۔

گو کہ اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی البتہ آئینی ترمیم کے لیے قائم کمیٹی کے صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین نے کہا کہ اس تبدیلی کا مقصد برطانوی راج کے دور میں استعمال شدہ ناموں سے چھٹکارا پانا تھا۔ لہذا ان معزز ممبران کی رائے کا احترام اصل میں وفاق کا ان صوبوں کو احترام دینے کے مترادف ایک مستحن عمل تھا،

3۔ 1973 کے آئین میں شامل آرٹیکل 6 میں جمھوری منتخب ریاست اور آئین پاکستان سے غداری میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھی، 18ویں ترمیم کے تحت اس میں مزید تبدیلی کر کے آرٹیکل 2۔6 الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کو پاکستان کی سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی ماتحت عدالت اس جرم کو معاف نہیں کر سکتی۔ لہذا پاکستان آرمی کے جنرلز اور عدالتوں کے ججز اور لوٹا ممبران کے ہر قسم کے جمھوریت کیخلاف ایکٹوازم کو اس آرٹیکل کے تحت روک دیا گیا ھے، وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آتے ہی 18ویں ترمیم کو ختم کرنے اور بعد میں اس میں کچھ تبدیلیاں کرنے کا عندیہ دیا تھا جسے پاکستان پیپلزپارٹی اور جمھوری قوتوں نے سختی سے رد کیا اور مفاہمت کی۔

جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ آرمی ڈکٹیٹروں نے مارشل لا لگانے کے بعد اپنے اقدامات کو عدالتی تحفظ فراہم کیا اور بعد میں آنے والی اسمبلیوں سے اپنے دور میں کیے جانے والے اقدامات سے استثناء حاصل کیا۔ لہٰذا آئینی طور پر مستقبل میں کسی بھی قسم کے مارشل لاء یا غیر آئینی اقدام کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ھیکہ ھم عمران خان کی حکومت سے سخت ترین جمھوری اختلافات کے باوجود اسے کسی غیر جمھوری عمل کے ذریعے ختم کرنے کے سب سے بڑے مخالف ھیں

  1. آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک پورے ملک میں تعلیم کو ہر لڑکے اور لڑکیوں پر لازمی اور اسکی مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
    جسپر حکومت میں شامل و،یر جو خود پرائیویٹ اسکول مافیا چلارہے ھیں آڑے آ رھے ھیں، لہذا جبتک عوام کو انکے اپنے آئینی حقوق کا علم نہیں ھوگا تب تک عوام اپنے آئینی حقوق سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی، عوام کو چاہئیے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے حق میں اپنی آوازوں کو بلند کرتے ھوئے آئیں کے دشمن وزیروں کا اپنے ووٹ کی طاقت سے محاسبہ کریں

  2. آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
    یہ آرٹیکل آجکل کرونا وائرس کے تناظر میں لاکر یہ جھوٹ بولا جاتا ھیکہ صوبے مکمل طور پر خود مختار ھیں، ایسا کہنے والوں کی عقل پر یوں پردہ پڑا ھوا ھیکہ اگر صوبے مکمل خودمختار ھوتے تو وہ وفاق کو اپنے وسائل میں سے حصہ ہی کیوں دیں،
    جب صوبے اپنے وسائل میں سے وفاق کو حصہ دیتے ھیں تو ایمرجنسی پڑنے پر وفاق کا یہ آئینی فرض ھیکہ وہ ملک کیلیئے نہ صرف صوبوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل کو وضع کرے بلکہ ہر صوبے کی ضرورت کی۔طابق پر قسم کی مدد بھی فراہم کرے۔۔۔
    18ویں ترمیم صوبوں کو نہ تو مکمل خود مختاری دیتا ھے اور نہ ہی وفاق کو صوبوں میں من مانی کی اجازت دیتا ھے، اس 18ویں ترمیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ھیکہ اس نے کنوئیں اور پیاسے کو ایک جام سے پینے سکھا دیا ھے، جس نے پینا ھے لیئے جس نے نہیں پینا وہ پیاسا رھے، مگر یہ نہیں ھو سکتا کہ پیاسی پانی مانگے اور کوئی منع کرنے کی آئینی جرآت نہیں کرسکتا۔۔۔ جتنی ٹال مٹول کوئی کر سکتا ھے آئین کیمطابق ٹال مٹول کر لو مگر جان لو بلآخر پیاسے کو پانی دینا 18ویں ترمیم کا۔لازمی جاو ھے۔۔ تو جو کل ٹال مٹول سے اور رسوا ھو کر دینا ھی ھے وہ آج شرافت سے دیدو، عزت سادات بھی رہ جائینگے اور بھائی ٹینشن کم ھوگی، پولیٹیکل ورکرز ایک دوسرے کو گالیاں کم دینگے، الزامات کم لگائینگے، جھوٹ لم بولینگے اور لوٹوں کی مدد لینے کی بے عزتی اور تھوکا چاٹنے سے بچے ھوگی

  3. بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) بی جو فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروایا تھا اور بعد ازاں ایک اور آمر پرویز مشرف کے دور میں اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

ا58 (2) بی ایک انتہائی بد نیتی پر مبنی آرٹیکل تھا جسکے تحت منتخب یا غیرمنتخب صدر کو جمطوری اور غیر جمھوری پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس سے پارلیمانی نظام حکومت صدارتی نظام حکومت میں تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔ اور ممبران کو اس آرٹیکل کے تحت خوف دلایا جاتا تھا کہ بات ماں لو ورنہ حکومت جو کروڑوں ووٹوں کی طاقت سے قائم ھوئی تھی اسے ایک جنبش قلم ختم کیا جا سکتا ھے۔۔۔ یہی وہ آرٹیکل ھے جس نے ملک میں لوٹے بنانے لی فیکٹریوں لگائیں اور آمروں کو عوام کو ماورائے عدالت کوڑے مارنے اور بیگناہوں کو سیاسی مخالفت کی بنیادوں پر پھانسیوں کی جھوٹی سزاوں کا لائسنس دیا۔ 18ویں ترمیم نے وہ تمام جھوٹے لائسنسز نہ صرف منسوخ کر دیئے بلکہ آئندہ ایسی چھ گھناونی اور گھٹیا کوشش کرنے والوں کیلیئے پہلے سے نہ قابل معافی سزائے موت کا تحفہ رکھ دی۔۔۔ اسی آرٹیکل کے تحت مشرف کو بھی سزائے موت دی گئی تھے جسے عمرانی حکومت نے مخالفت کر کے بذات خود آئین کے آرٹیکل 6 سے غداری کی ھے۔ جسکا چارج لگانا اور اسکا سٹرائیل کروانے کا عوام حق رکھتی ھے

بالاآخر 18وین ترمیم کے تحت دور آمریت کی بھونڈی ترمیم 58(2) بی کو مکمل طور پر ختم کر کے چور دروازے سے پارلیمان تحلیل کرنے کا راستہ ہر ادارے کیلیئے بند کر دیا گیا ہے۔ اب جنھیں شوق تھا جنبش قلم سے حکومتیں گرانے کا وہ 18ویں ترمیم کے بعد بغلیں بجا رھے ھیں جبکہ انھی اداروں میں آئین اور جمھوریت کے متوالے افسران، ججز اور افراد خوشیاں عید کی طرح منا رھے ھیں

  1. ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار سپریم جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور پارلیمنٹ کی ایک "””(مشترکہ کمیٹی)””” کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات بتانا نہایت ضروری ھیکہ 18ویں ترمیم کی سب سے پہلے خلاف ورزی خود اسوقت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے کی، جسکے بارے میں کاروائی کا حق عوام محفوظ رکھتے ھیں،

18ویں بعد میں 19ویں ترمیم کے تحت کیسے لائی گئی اس میں کیسے تبدیلی کی گئی۔ یہ باتیں اسوقت موضوع نہیں مگر جونکہ کسی بھی جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے 18ویں ترمیم کے بعض حصوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 17 رکنی بینچ نے ججوں کی تعیناتی کے اختیار میں بہت حد تک تبدیلی کر دی گئی تھی، جو بعد میں 19ویں آئینی ترمیم میں شامل کی گئی ھیں لہذا اب 19وہں آئینی ترمیم کے بعد انکا احترام اور پاسداری ھم سب پر فرض ھے مگر جس غیر جمھوری طریقے سے یہ 19ویں ترمیم لانے کا آغاز کیا گیا وہ بذات خود 18ویں ترمیم سے متصادم اور آئین کی توہین کے ذمرے میں آتی بھی ھے اور اسکے مرتکب افراد کو کبھی بھی اسکی خلاف ورزی پر ٹرائل کیا جا سکتا ھے، ممکن ھے کسی کے مرنے کے بعد اسے بھی چیف جسٹس کے منصب سے ہٹانے اور جائداد کی ضبطگی کی درخواست آسکتی ھے۔۔
18ویں ترمیم ہر آئین اور جمھوریت دشمن کیلیئے موت ھے،

  1. اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ "A”. اس میں بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا ہے "B” قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ "i” اس میں سب سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔ "ii” ایک اور بہت بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ آرٹیکل 142 ب اور ج کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو کریمینل قوانین، طریقہ کار اور ثبوت اور شہادت جیسے قوانین کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 280 الف الف کے تحت موجودہ قوانین اس وقت تک نافذ العمل رہیں گے جب تک کہ متعلقہ صوبائی اسمبلیاں ان قوانین کے بدلے میں نئے قوانین پاس نہیں کرتیں۔

  1. اس ترمیم کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو واپس لاگو کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 46، 48، 75، 90، 91، 99، 101، 105، 116، 129، 130، 131، 139، 231 اور 243 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

مختلف تبدیلیوں کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات میں خاطرخواہ تبدیلی کی گئی ہے۔ اب صدارتی اختیارات، عوام کے منتخب و نمائندہ وزیر اعظم، پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا کیا اثر پڑا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ پہلے وزیر اعظم پر یہ فرض تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے صدر کو آگاہ کرے اور ضرورت پڑنے پر صدر کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ان فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے انہیں جزوی یا کلی طور پر منسوخ کر دے، اب ایسا نہیں ہو سکتا۔

اٹھارہویں ترمیم

18ویں ترمیم سے قبل اہم عوامی أمور کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اختیار صرف صدر مملکت کے پاس تھا، اب یہ اختیار صدر سے واپس لے کر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے۔

  1. اس ترمیم کے تحت آئین سے آمر ضیاالحق کے لیے “صدر” کے لفظ کو نکال دیا گیا ہے۔ آیندہ ممکن ھے مشرف، افتخار چودھری اور کچھ آجکل کے جمھوری بننے حکمران اور انکے ماسٹرز اس 18ویں ترمیم کی زد میں آکر اپنا تمام منصب جائیدادوں اور مراعات سے ہاتھ دھو سکتے ھیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ کسی طرح سے کوئی چور دروازہ نکال کر کسی غیر جمھوری عمل یا ایوان میں جعلی اکثریت پیدا کر کے 18وی ترمیم کو ختم یا کم کر سکتا ھے، تو اسکا جواب میں ابھی محفوظ رکھتا ھوں، تم پہلے کوئی گھناؤنی سازش تو رچا کر دیکھو ۔۔۔۔

اس ملک کے جمھوریت پسند عوام کو پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے بلخصوص صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری اینڈ پارٹی، محترم جناب نواز شریف اینڈ پارٹی اور تمام ووٹ دینے والے ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے 18ویں ترمیم کا بیش قیمت تحفہ مبارک ھو

ھم مر جائنگے مگر عوام نے زندھ رھنا ھے، اور یہ عوام بہت جلد 18ویں ترمیم کے مالی ثمرات و فوائد خود اپنی آنکھوں سے دیکھینگے بھی اور اس 18ویں ترمیم سے خوشحالی بھی پائینگے۔
یہاں اپنی بات کے ثبوت میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں۔۔۔ اس مثال کو ذہن نشین کر لیجئے گا کہ 18ویں ترمیم کے بہت سارے ثمرات میں سے ایک چھوٹا سا تھر کول پروجیکٹ ھے جو سندھ حکومت نے 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کو طاقت ملنے پر دوبارہ لگایا۔۔
دوبارہ لگایا؟؟؟
جی ہاں دوبارہ لگوایا۔۔۔ آپ کیلیئے ایک بریکنگ نیوز ھے، اور وہ یہ کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی سب سے بڑی اور اہم تاریں وجہ یہی تھر کول پروجیکٹ ھے۔
پہلی دفعہ یہ پروجیکٹ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں دریافت ھوا، بینظیر سے کچھ اداروں نے اس پروجیکٹ کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی اور ناکامی پر بینظیر حکومت کا نہ صرف حکومت بلکہ بینظیر ھی کا خاتمہ کیا گیا
نواز شریف کو حکم دیا کہ وہ بینظیر حکومت کا ہانگ کانگ کی کمپنی گورڈن وو سے معاہدہ ختم کر دیں۔ ویسے ھی جیسے پاک ایران گیس پائپ لائین کا معاہدہ ایک مذموم سازش کے ٹحت کروڑوں روپے ایران کو جرمانہ دیکر ختم کیا گیا۔۔۔ ایسے ھی پاور پراجیکٹس جیسے کئی معاہدوں کو تکمیل کے آخری مراحل میں نہ صرف ختم کیا گیا بلکہ ان پر اربوں روپے معاہدہ توڑنے کا جرمانہ بھی دیا گیا۔ اور الزام پیپلزپارٹی پر لگے۔۔۔

کیا عوام کو معلوم ھیکہ ہانگ کانگ کی کمپنی کو نواز حکومت نے کتنے بلین روپے کیش جرمانے کی صورت میں دییے؟ کیا عوام کو معلوم ھیکہ پیپلز پارٹی کے کتنے معاہدوں کو وردی اور نواز گٹھ جوڑ کی وجہ سے توڑا گیا نواز شریف، شہباز شریف اور انکی مسلم لیگ پارٹی آج موجود ھین۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ہمت کر کے مجھ غریب کے الزامات کی تردید کر کے دکھائیں۔

بلکہ میں آہنی اس تحریر کے ذریعے نواز شریف صاحب سے مودبانہ گذارش کرونگا کہ برائے کرم آپ خود اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اپنے گناہوں کو کم کروا لیں تو شاید آگے جا کر آپ لوگ بھٹو فیملی کو فیس کر سکیں ورنہ جہنم سے تو آپ اور آپکے حواری معافی بھی نہیں مانگ سکتے۔

بھٹو صاحب کی حکومت کا غیر آئینی خاتمہ، عوام پر بندوقوں کی نوک پر مظالم، بھٹو صاحب کی غیر قانونی پھانسی اور بہت کچھ کے بعد اس ملک کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے غدار جنرلز نے عوام سے تھر کول کا منصوبہ بھی چین نے کا گھناؤنا منصوبہ ویسے ھی بنایا جیسے یہ پہلے بھی اپنی وردیوں اور بندوقوں کے زور پر اس ملک کے سینکڑوں پراجیکٹس پر قبضہ کیئے بیٹھے ھیں جن میں کئی پراجیکٹس تو صرف صوبہ بلوچستان ہی میں ھیں، نہ کوئی ان پراجیکٹس کے بارے میں لکھ سکتا ھے اور نہ ان پراجیکٹس سے حاصل ھونے والی مکمل طور پر حکومت پاکستان اور اسکی عوام کو مل رھی ھے۔۔ میں اپنے موضوع سے بھٹکنا نہیں چاہتا لہذا اپنی بات کو یہیں چھوڑ کر واپس 18ویں ترمیم اور اسکے ثمرات کی طرف آتے ھیں

تھر کول پروجیکٹ دنیا کے سب سے بڑے اور نہایت منافع بخش پراجیکٹس میں سے ایک ھے جسمیں ابتدائی طور پر ابھی تک 175 بلین ٹن دنیا کا نمبر ون کوئلے کے ذخائر کا علم ھو ھے، مذید کھدائی پر مذید انکشافات سامنے آسکتے ھیں، جسمیں ہیرے کی کانیں، مذید ذخائر، گیس اور تیل کے ذخائر شامل ھو سکتے ھیں، انشاء اللہ جس دن یہ پراجیکٹ چل پڑا اس ملک کی قوم بھٹو اور زرداری کے مزارات کو اپنے آنسوؤں سے دھونے کو اپنی عزت سمجھینگے، کیونکہ عیب ہر شخص میں ھوتے ھیں اور ہر شخص نے اپنے گناہوں کا حساب آپنے رب اور اپنی عدلیہ کو دینا ھوتا ھے عوام صرف اپنے ووٹ سے یہ طے کرتے ھیں کہ انکے نذدیک کون صحیح اور کون غلط ھے۔ امام علی علیہ السلام کا قول ھیکہ "بے عیب انسان تلاش مت کرو ورنہ تنہا رہ جاوگے”

جب ھم سب اپنے تمام غریبوں کے ساتھ ماں باپ بہن بھائی دوست احباب بنے پھرتے ھیں تو انھی عیبوں کے ساتھ پیپلزپارٹی اپنے ادروں اور انکی خطاوں کو بھی نظر انداز کرتے ھوئے صرف اور صرف عوام کی خدمت کیلیئے کام کرنے کو بھٹو ازم بتاتی ھے

مجھے یہاں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جسنے بھی ملک و قوم کو لوٹا ھے چاہیے وہ جیالا ھو یا پٹواری، یوتھیا ھو یا مذھب کی آڑ لیئے حافظ ھوں یا محافظ، وردی میں ھو یا ایوانوں میں، حکمران ھوں یا عوام سب کا آئین و قانون کیمطابق احتساب ھونا چاہئیے۔

دعا گو ھوں کہ اللہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کیلیئے تھر کول منصوبے کو پانی تکمیل تک پپنچائے، پھر بھٹو کے مزار پر آتے جاتے ایک پڑاو تھر کی زمیں پر بھی کرنا اور دیکھنا اس شاہکار کو اپنی آنکھوں سے جسے دکھانے اور بتانے کیلیئے میڈیا اور صحافیوں کو موت آتی ھے۔ لگتا ھے ابھی بھی یہ اپنے پرانے آقاوں کے زیر اثر ھیں یا پرانوں کی جگہ نئے آقا آگئے ھیں ، بحر کیف یہ تو اسوقت پتہ چلیگا جب کوئی گدھا شیر کی کھال سے باہر آییگا، تب ھم اس گدھے کو 18ویں ترمیم کی لاٹھی سے ہانکتے ھوئے انکے ساتھ چوکوں اور بازاروں وہ کرینگے کہ بڑے بڑوں کی کرسیاں اور وردیاں گیلی کر دیگا

آخر میں جو لوگ پوچھتے ھینکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے کیا کیا؟؟؟ انکے لیئے جواب یہ ھیکہ
ا”2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شھادت کے بعد چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ:
“جو افراد یا "((ادارے))” جمہوریت سے فرار حاصل کرنا بہت آسان سمجھتے ہیں ، ،،، وہ یہ جان لیں کہ میری والدہ نے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے”۔
میری ذاتی رائے میں 18ویں ترمیم کے تحت بہت حد تک یہ انتقام لیا جا چکا ہے، ملکی وسائل پر قبضہ اب وردیوں کا نہیں صوبوں کا ھے، جسکا ثمر اب عوام تک پہنچنے سے کوئی طاقت نہیں رول سکتی۔
جیئے بھٹو

طالب دعاء
ظفر نقوی، نیو یارک
19 اپریل 2020

ضروری وضاحت::
میں کسی بھی طور پاکستان کہ کسی ادارے، بلخصوص افواج پاکستان کے جانبازوں اور سیاستدانوں کے خلاف نہیں جو پاکستان کے آئین مروجہ 1973 کا پاس رکھتے ھوں، یہ سب محب وطن جوان، افسران اور افراد میرے سر کا تاج ھیں، میرا فخر ھیں، میری طاقت اور میرے ملک کی سلامتی کے ضامن ھیں، میں ان خود غرض اور آئین دشمنوں کے خلاف ھوں جنھوں نے ملک، قوم اور آئین کے نام پر جھوٹ بول کر غداری کی ھے۔۔۔ کیا آپ ایسے کسی شخص کو جو ملک کے آئین سے انحراف اس اعلانیہ حلف لینے کے بعد کرتا ھو کہ "وہ کسی بھی صورت اپنی سروس کے دوران کسی سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرونگا اور نہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد 2 سال کے عرصہ تک کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بنونگا” کے وردی میں سیاست اور آئین کی پامالی کو کیسے برداشت کر سکتے ھیں۔
عنقریب میرا ممدرجہ ذیل موقف جب صحیح ثابت ھو جائے تو جان لیجیئے گا کہ میں کہاں تک اپنے آئین کے غداروں کو سمجھتا اور پہچانتا ھوں
عمران خان کو لانے، اور باجوہ کی ایکسٹینشن دینے کا اصل مقصد 18ویں ترمیم کو ختم کروانے کی کڑی ھے۔ عمران خان کی ناکامی کے بعد اب کسی شریف کو لایا جائیگا تاکہ یوتھییے، لوٹے اور پٹواری ملکر 18ویں ترمیم میں ترامیم کی جاسکیں اور صوبوں کے وسائل پر قبضہ کیا جا سکے۔

دنیا کے سب یذید، اسی غم میں مر گئے
سر مل گیا حسین(ع) کا، بیعت نہ مل سکی
ظ-ن

About The Author