اشوکا ، بادشاہوں کا بادشاہ تھا۔بادشاہوں کے بھاگ کھوٹے ہوتے ہیں۔ نگر نگر پھرتے ہیں۔ قتل کرتے ہیں۔خواہشات کی خاک چاٹتے ہیں۔عظیم اشوکا بھی ایک ایسا ہی بادشاہ تھا۔ بڑا سمراٹ بننے کے شوق میں جنگیں لڑیں، خون بہایا اور اپنے 99 بھائیوں سمیت لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔کلنگا کے قتلِ عام کے بعد اسے پچھتاوا ہوا تو قلبِ ماہیت ہوگئی۔ اشوکا کی عظمت اس کی فتوحات سے زیادہ پچھتاوے میں ہے کہ پچھتاوا، آدمی کی انسانیت کا استعارہ ہے۔پھر ظالم اشوکا، امن پرست بدھ بن کر سُکھ اور سلامتی کا پیامبر بن گیا ۔ روایت ہے کہ ایک بار وہ سفر پہ تھا۔راستے میں اسے ایک سنت ملا ، بادشاہ نے فقیر سے اپنی خواہش کی بھیک مانگی!کہ”وہ بڑا سمراٹ بننا چاہتا ہے”۔جس پہ سادھو نے کہا:” یاتری جس کو منزل مل جائے، سب سے بڑا سمراٹ ہوتا ہے۔”
جھولے لال کی سمادھی کی سفید دیوار یاتری کے سامنے تھی مگر یہ منزل نہ تھی، سندھ کے سفر کا سنگِ میل تھا۔ محبت کے شاہنامے کا اک باب کھلنے والا تھا۔سندھو لال، جھولے لال میں "جَھال” دے رہا تھا۔سندھ کا جغرافیہ یکتا یعنی uniqueہے۔ایران و عرب، افغانستان، وسطی ایشیاء اور انڈیا کی تہذیبوں کا امتزاج یا syncretism سندھ کے دریاوں اور صحراوں میں ہوتا ہے۔زرتشتوں کے اپم نپت سندھ میں پانی اور چراغ ہیں، جَل اور جیوتی، سندھو کے روپ ہیں!انڈیا کے ورونا، وشنو، گنگا، اگنی، لوک روایت، ویدک شاعری ، جھولے لال اور لال قلندر سندھ کے کوہ قاف میں بستے ہیں۔خراسان سے آئے صوفی انسانی binary کے دویت کو اپنیشد اور ادویت کی جدلیات سے گزار کر ابنِ عربی اور مولانا روم کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔موہنجوڈارو کی مورتیوں کا رقص دھمال ہو گیا ہے تو سندھو کا پانی پاتال میں رکھی جیوتی سے دیا ہے۔ Deva یا ” ڈِیوا "دیا ہے اور دیو یا دیوتا سے جڑا ہوا ہے۔انڈو یورپی لسانی تشکیلات گرہیں کھولتی چلی جاتی ہیں۔ وادء سندھ کی قوسِ قزح پہ جھولتا جھولے لال ، مچھیروں، ماچھیوں، مہانڑوں، لوہانوں، ٹھاکروں اور اروڑں کے بیڑے پار کرے نہ کرے ، دریا اور نیچر کو مقدس یا sacralize کرتا ہے اور کلچر کی کیمیا سے زندگی کا توازن قائم رکھنے میں مدد گار ہے!جھولے لال، اندو لال، امر لال، اُڈیرو لال، ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں، پانی اور آگ کے درشن ہیں، زندگی اور فطرت کے بنیادی عنصر اورسَت ہیں۔
اُڈیرو لال کی درگاہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے ٹنڈو آدم سے بیالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گوٹھ میں ہے۔گوٹھ کا نام بھی اُڈیرو لال ہے۔سنسکرت میں اڈاکا (udaka)کا مطلب پانی ہے۔اُڈیرو لال اور اندو لال ، سندھو کا درشن ہے۔دریا پنتھیوں اور نانک پنتھیوں کا سندھ ساگر ہے!ویدوں میں سندھ کے معنی، زم زم سا پانی ہے، امرت ہے۔سندھ دریا کا ایک نام اباسین یعنی پانیوں کا باپ ہے اور زرتشتوں کے ہاں اپم نپت، پانیوں کا پتر ہے کہ اپم، پانی اور نپت، پوتا ہے۔ اپم میں پانی اور نپت میں آگ مستور ہے کہ Naphta، پٹرولیم اور آگ ہے۔اگنی کی ایک پیدائش پانی سے ہے۔ سرائیکی میں ” سِنا” ہونا گیلا ہونا ہے اور دُل دریا اور خواجہ خضر کلچر کا حصہ ہیں۔جھولے لال کی درگاہ کی فصیل اکبر نے بنوائی تھی یا ہمایوں نے،روایتوں میں اختلاف ہے، کہ فصیل حفاظت کرتی ہے معمار کا نام نہیں بتاتی۔قیاس یہ ہے کہ درگاہ کی تعمیر ایک ہندو تاجر کی سخاوت کا کرشمہ ہے۔درگاہ تک کا رستہ ایک چھوٹے سے گوٹھ کی گلی میں سے ہو کر جاتا تھا۔دوکانوں پہ لوگ تھے!بے وجہ بیٹھے لوگ جو Hunger Game Society کی بنیادیں بھرتے ہیں!فصیل کے دروازے پر پہنچا تو وہاں مامور ڈھول سپاہی نے تلاشی لی۔ یاتری کے پاس ممنوعات نہ تھیں، سنتری نے روکا نہیں!درگاہ کے صحن میں نیم اور تاڑ کے علاوہ پیلھوں کا ایک درخت تھا۔”پیلوں پکیاں نیں” خواجہ غلام فرید کی کافی ، عظیم گائیک اور مہذب ثریا ملتانیکر نے اپنی بے مثل اور مدھر آواز میں گائی ہے۔” جال ” کے درخت نے کافی میرے وجود میں جاری کر دی تھی !گنیا رام نے بتایا کہ درخت پر دو رنگ کے پیلو لگتے ہیں ۔ مائی ہوت کے عشق سے سرشار،” یار ملاوڑی” روہی کے رنگ میں رنگے خواجہ غلام فرید نے پیلوں کے سات رنگ بتائے ہیں اور سات علم الاعداد میں بے شمار ہے۔ "پیلھوں” کے محبت کی طرح بے شمار رنگ ہیں :
آ چنڑوں رل یار، پیلوں پکیاں نی وے
کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار، کٹویاں رتیاں نی وے
سندھی میں پیلوں ، پیرُوں ہے!
درگاہ کے احاطے میں ایک مسجد اور مندرہے۔ مندر جنوبی طرف ہے۔جنوب کو ہم لما کہتے ہیں اور ڈھولے کو لمے جانا منع ہے مگر ہمارے خواجہ مسجد مندر "ہکڑو نور”دیکھتے ہیں۔وحدت الوجود، شاعری کو محبوب ہے کہ ایک منتشر کائنات میں وحدت سے نظم پیدا ہوتا ہے،جیسے شاعری میں جذبات کے سمندر نظم ہو کر حسین ہو جاتے ہیں!جھولے لال کی درگاہ مذہبی تفریق سے ماورا ہے۔ہندووں اور مسلمانوں کی بقائے باہمی کا استعارہ ہے کہ یہاں جھولے لال اور شیخ طاہر ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ صدیوں کے تہذیبی سفر میں مقامی آبادی کے پرانے دیوتا اور دیویاں اور مقدس ہستیاں چولا بدلتے رہتے ہیں!بخارا میں شہاب الدین سہروردی کا مزار بدھ سٹوپا تھا۔ امام بری کے مزار کے ساتھ بھی احمد حسن دانی اک سٹوپا کا ذکر کرتے ہیں ۔راجپوتوں کا قصیدہ گو ، کرنل جیمز ٹاڈ، شہباز قلندر کے مزار کی جگہ ایک مندر کا ذکر کرتے ہیں۔ لاہور کے شالیمار باغ کے ساتھ مادھو لال حسین، کے مزار میں شاہ حسین اور مادھو لال ایک ہی درگاہ میں سوتے ہیں۔ ہماری تہذیب کا اک طلسم یہ ہے بڑے صوفیوں نے بالعموم مقامی زبانوں میں شاعری کی۔ امیر خسرو،شمس سبزواری، بھگت کبیر،گرو نانک،شاہ حسین،بھلے شاہ، شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست اور خواجہ غلام فرید کو اک زمانہ، صوفی، گرو اور شاعر مانتا ہے۔مذہب، تصوف، عشق ، گیان دھیان اور شاعری کی عجب قوسِ قزح تنی ہوئی ہے ! قلندر ، سیہون میں ایک سال رہے، ذرا اور جیتے تو وہ بھی سندھی میں شاعری کرتے کہ سومرا سلطانوں نے سندھی کو ایک مضبوط زبان بنا دیا تھا!
دربار میں داخل ہوتے ہی گھنٹیاں لگی ہیں۔ہم نے کفر و ایمان کی سرحد پر با ادب با ملاحظہ گھنٹیاں بجائیں کہ ہم ہوشیاروں میں سے نہ تھے!اندر ایک ہندو لڑکا سرسوں کے تیل کا پیپا رکھ رہا تھا۔ اور طاق میں تین چراغ جلتے تھے۔ اور میری آنکھیں چوتھے چراغ کو ڈھونڈھتی تھیں۔یاتری ہندو لڑکے سے لجاجت سے بات کرتا تھا اور گنیا رام یاتری کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا۔میں نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:” چھا حال اے، سائیں منجا”!”ڈیوا بالنے” پہ مامور لڑکے کو ماں بولی کے چند لفظوں سے کچھ اطمینان ہوا۔تو اس نے دو مورتیوں کے درمیان رکھا ایک فریم ہٹا دیا۔وہاں شِو کی مورتی کے سامنے چوتھا چراغ جلتا تھا!یہاں سے شِو کی داستان شروع ہوتی ہے۔
مائیکل بوون کا خیال ہے کہ ورونا، وِشنو، اور گورکھ ناتھ کے دریا پنتھی جھولے لال میں چھپے بیٹھے ہیں اور زمین زاد کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہیں۔ دریا پنتھیوں کے نزدیک جھولے لال سندھو کے اوتار ہیں۔ لال شہباز قلندر اور اُڈیرو لال سندھو کی دھنک کے رنگ ہے۔ سندھ کے روپ ہیں۔یاتری پہ Indigenizationاور Islamizationکا عمل کھلنے لگتا ہے کہ فطرت اور زندگی کے سارے رنگوں میں سندھ کا امرت جھلکتا ہے۔ قلندر کی دربار کے گرد بسی چوبیس کافیوں سے ملنگ دھمال ڈالنے کو نکلتے ہیں توشِو واہن اور شِوستان روشن ہو جاتے ہیں ۔دریا پر دِیوں کی بھینٹ دینے، سوہنے سندھی اور سوہنیاں آتی ہیں تو جھولے لال، بیڑے پار کے نعروں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔سندھ کی بندرگاہوں سے میسوپوٹومیا، چین و عرب اور پورے جہان کو روانہ ہونے والے سندھی تاجر، ملاح،کشتیاں اور بادبان یاد آتے ہیں۔اور یاتری چیتی چند کے اکیالیسویں دن "بحرانڑو” کی رسم کے لئے گھی کے چراغ ، چاول اور گلاب کے پھول سندھ کے پانیوں پر تیرتے دیکھتا ہے۔خواجہ خضر کا سبز چولا اپنی جھلک دکھاتا ہے!ایرانی ملاحوں کے پیر، ابو اسحاق قزارونی یاد آتے ہیں۔اور بابا فرید کے مرید منگھو پیر ، ذہن کے افق پر نمودار ہوتے ہیں!!رفعت عباس اور علی دوست کے بھیجے ہوئے شاہ بھٹائی کے شعر میں "بحرانڑو” کی جھلک دکھائی دیتی ہے:
جا جَرَ جاُون نہ ِئی، ِیا نہ موہی؛
سَُون وہُ َری، سا پنہنجی انَ جون؟
(جو عورت پانی کو بھینٹ نہیں دیتی، اس پر دئیے نہیں وارتی !وہ کیسے سمندری سفر پر گئے محبوب کی تمنا کرتی ہے!)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ