کاشتکاروں کا عالمی دن ۔۔۔۔۔۔ زمین کا سینہ چیر کے دنیا بھر کا رزق اگانے والے خود پسماندگی و پریشانی کا شکار ۔۔
کرونا کی وحشت میں جان ہتھیلی پہ لے کر بچوں سمیت انسانوں کو زندہ رکھنے، انسانیت کا تسلسل قائم رکھنے میں کوشاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طبقاتی سماج میں ویسے تو اس دن کو بھی باقی عالمی ایام کی طرح محض منافقانہ بیانات، اجلاسوں ، کاروائیوں اور ہمدردیوں کی نذر کردیا جاتا ھے ۔ مگر اب کی بار کرونا وبا کی وجہ سے تو شاید مظلوم کسانوں/ کاشتکاروں کیلئے جعلی ھمدردی کے دو بول بول دینے کا بھی وقت یا ہوش نہ ھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کرونا جیسی جس موذی وباء کی وجہ سے ساری دنیا کے باسی اپنے اپنے گھروں میں دبک کے بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تو یہ وباء نہ ھی کوئی قدرتی وباء ھے اور نہ کسی ایک ملک کی ایجاد و اختراع کا شاخسانہ ۔ بلکہ ساری دنیا کے سرمایہ دار بھیڑیوں کے منافعوں کی ہر لمحہ بڑھتی ہوس کا ناگزیر نتیجہ ھے ۔ کاشتکاروں اور کسانوں کا اعزاز دیکھئیے کہ اس حالت میں کہ جب ہر جگہ موت اپنے جبڑے کھولے وحشت برپا کئے ہوئے ہیں تو یہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے انسانوں کو زندہ رکھنے اور انسانیت کا تسلسل قائم رکھنے کیلئے رات دن اپنی خواتین اور بچوں سمیت اناج ، پھل، پھول ، سبزیاں اگانے اور فراہم کرنے پر جُتے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسان اور کاشتکار جب عام حالات میں بھی زندگی کی ہر رونق سے محروم تھے اب اندازہ کریں کہ اس وقت وہ کس حال میں ہونگے ؟ اور آج جب بڑے بڑے کاروباری ادارے، کاروباری منڈیاں، بینک، سٹاک ایکسچینج، تجارتی فرمیں اور نجی کمپنیاں وغیرہ سب پہلے سے بے انت منافعے کما چکنے اور اس وقت بھی چور بازاری و ذخیرہ اندوزی کی خباثت میں ملوث ہو کر اپنے اپنے ٹیکسز اور قرضوں کی معافی کے مطالبے تو کر رھے ہیں مگر کسی کی کوئی بات نہیں پوچھتا تو وہ ہیں بے کس و بے بس اور مجبور کاشتکار ۔ جن کے ننگے استحصال کی حالت یہ ھے کہ دنیا بھر کے رائج اصول کے جن کی رو سے کوئی کمپنی یا ادارہ جو کچھ بناتا ھے وہ اپنی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات کے حساب سے اپنی پیداوار کے نرخ کا تعین خود کرتا ھے۔ تو کسان / کاشتکار اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ بلکہ اس المیہ کا قصہ یہاں تک درد ناک ھے کہ کسانوں اور کاشتکاروں کی فصل منڈی تک آنا تو کجا اگنے سے پہلے پیسے والے آرھتیوں کے پاس گروی ہو چکی ہوتی ھے ۔کاشتکاروں کے عالمی دن کے موقع پر ان کے درج ذیل مطالبات بجا طور پر فوری توجہ کے مستحق اور لائقِ تسلیم و پذیرائی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام زمینیں بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کردی جائیں ۔ تمام چھوٹے کاشتکاروں کے سارے قرضے معاف کردئیے جائیں۔ تمام چھوٹے کاشتکاروں کو طویل المیعاد قرضے بلا سود فراہم کئے۔ گرین بیلٹ (قابلِ کاشت رقبہ) پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر جرم قرار دی جائے ۔ زراعت کے قدرتی طریقہ ہائے کاشت کو سرکاری سر پرستی میں فروغ دیتے ہوئے کیمیاوی کھاد اور زہریلی ادویات کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ (اس دوران فی الفور زہریلی ادویات کی جانچ پڑتال کیلئے تحصیل سطح تک لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے)۔ زرعی پیداوار کے نرخ کاشتکاروں کے نمائیندوں کی مشاورت سے مقرر کئے جائیں۔ کوئلے سے چلنے والے تمام پاور پلانٹس بند کر کے ان کو توانائی کے متبادل ذرائع شمسی،بائیو اور ہوائی توانائی کے ذریعے چلایا جائے۔ کسانوں کی سہولت کیلئے بیج بینک قائم کئے جائیں۔ ساتھ ھی جینیٹک موڈیفائیڈ بیجوں کو ملک میں رجسٹرڈ کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ زرعی مقاصد کی خاطر چھوٹے کاشتکاروں کو مفت بجلی کی فراہمی۔ یونین کونسل سطح پر کم ازکم پچاس بستروں پر مشتمل ہسپتالوں کی تعمیر۔ کھیت اور منڈی تک رابطہ سڑکوں کی تعمیر۔ کاشتکاروں کے بچوں کیلئے ہر سطح کی تعلیم مفت۔ اور بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف مختص کئے جائیں۔ کاشتکاروں کو باقی محنت کش تنظیموں کی طرح ٹریڈ یونیں کے قیام کی سہولت و اجازت دی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمام مطالبات کوئی ناممکن اور نا قابلِ حل مطالبات نہیں ہیں۔ اور ان مطالبات کا تسلیم کئے جانا کاشتکاروں پر کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق ھے تا کہ وہ ان سہولتوں کے حصول کے بعد معقول انسانی زندگی کے دائرے میں داخل ہو سکیں۔ اور جدید سائنسی طریقوں کیساتھ دلجمعی سے دنیا بھر کے انسانوں کو خوراک و لباس کی فراواں مقدار مہیا کر کے انسانی سماج کو محتاجی اور ذلت سے نکال سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ