اسی کی دہائی میں ہم ملتان میں ابدالی روڈ پہ رہا کرتے تھے ، گھر کے عقب میں ایک جامع مسجد تھی جہاں ہر جمعہ مولانا عبد الستار تونسوی مرحوم خطاب فرماتے تھے، یوں تو ان کے فرقہ واریت پہ مبنی نکات بھی خاصے دلچسپ ہوتے تھے لیکن بعض عمومی مشاہدات اور ان پہ اظہار خیال بھی بہت عمدہ تھا ۔ ایک بات اکثر کہا کرتے تھے کہ اس ملک کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر بندہ مجتہد ہے اور ہر شخص مفتی ہے۔۔
ہمارا روز ایسے مجتہدوں اور مفتیوں سے واسطہ پڑتا ہے ، اور جو دنیا کے ہر مسئلے اور موضوع پہ ایک حتمی رائے دیتے ہیں اور فتویٰ بھی جاری کرتے ہیں ۔ نیم ملاؤ ں کے تربیت یافتہ ان مجتہدین کرام اور مفتیانِ عظام کی تعداد بھی ماشاءاللہ کروڑوں میں ہے اور ان کے نیم ملا اساتذہ ضروری نہیں کہ مسجدوں کے مولوی ہوں یہ سکول کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی ہیں ، میڈیا پہ بیٹھے مبلغین و دانشوران بھی ہیں اور گھروں میں تربیت کرنے والے والدین بھی ہیں۔
کئی بار ایسا ہوا کہ کسی معزز وڈیرے یا بڑے افسر یا سیاست دان کا ستر اسی سال کی عمر میں انتقال ہوا ، کئی مجتہدین اور مفتیان آپ سے کہیں گے پہنچ گیا اپنے انجام کو ظالم آدمی ، کتنوں کا مال کھایا ، چوریاں کروائیں ، زمینوں پر قبضے کیے رشوت لی یتیموں کا مال کھایا اب آیا خدا کی پکڑ میں ، آپ اگر کہیں کہ جناب آدھی صدی سے یہ مظالم ڈھا رہا تھا اب تک کیوں نہ پکڑا خدا نے ، جواب ملتا ہے خدا ظالم کی رسی دراز کرتا ہے، مطلب یہ ہوا کہ خدا کو اسے روز آخرت جہنم میں ڈالنے کے لیے بہت سارے اور ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے خدا نے اسے اپنی مخلوق پر ظلم ڈھانے کی چھوٹ دیئے رکھی۔
ایک بس کا حادثہ ہوا ، بچوں عورتوں سمیت دس پندرہ لوگ لقمہ اجل بنے، کئی زخمی ہوئے کئی معذور ہوئے، ایک مفتی آئے گا کہے گا اس بس کا ڈرائیور بہت کمینہ آدمی تھا شیشے میں سے عورتوں کو تاڑتا تھا ہیلپر کے طور پہ لونڈے رکھتا تھا بیہودہ گانے چلاتا تھا ، یا یہ کہ مالک نے حرام کے پیسے سے خریدی تھی بس ، چلیں جی اس ایک شخص کو گناہ کی سزا دینے کے لیے نعوذباللہ خدا نے درجنوں گھر اجاڑ دیے۔
کشمیر میں زلزلہ آیا تو کئی مجتہدین اور مفتیان نے کہا گناہوں کی سزا ہے مارگلہ ٹاور سے ننگی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ حضرت صاحب چوبیس گھنٹے میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب آپ بھی ننگے ہوتے ہیں نہا رہے ہوتے ہیں لباس بدل رہے ہوتے ہیں وظیفہ شرعی میں مصروف ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اپنے بندے کے ساتھ ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرنے والے خدا نے مارگلہ ٹاور کے چند لوگوں کی برہنگی پر جلال میں آ کر ہزارہ جات اور کشمیر کو تہس نہس کر دیا ۔۔ سب سے زیادہ مرنے والے چھوٹے بچے تھے جو سرکار کے بددیانت افسروں اور ٹھیکیداروں کے تعمیر کردہ سکولوں میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ سینکڑوں خاندان تو ایسے اجڑے کہ آج تک نہ بس سکے اور مجتہدین و مفتیان کہتے ہیں کہ عریانی پر شہنشاہ معظم کائنات جلال میں آ گئے تھے۔
آج کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں بھی بیشمار مفتیان آپ سے کہیں گے کہ رب ذوالجلال والاکرام جلال میں آ گئے ہیں اور ایک ٹی وی چینل پر ہر تیس منٹ بعد چلنے والی دعا کے مطابق اللہم ان ھذا جند من جنودک۔۔ اے خدا یہ وبا تیرے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جو تو نے ہم پہ مسلط کیاہے۔۔ دیکھو شراب خانے بند ہیں سینما بند رقص گاہیں جوئے خانے بند۔۔ آپ ان سے کہیں بھائی مساجد گرجے کلیسا انبیاء اولیاء اور ائمہ کرام کے مزارات یہاں تک کہ بیت اللہ بھی بند ہیں تو وہ فوراً یہ اجتہاد پیش کرتے ہیں کہ یہ بھی سزا ہے اللہ نے ہمیں سجدوں اور عبادات سے محروم کر دیا ہے۔ ان مفتیان کو کوئی سمجھائے کہ یہ کوئی پہلی وبا نہیں اس سے کہیں بڑی اور خطرناک وبائیں ان ادوار میں بھی آتی رہی ہیں جب انسان آپ کے خیال میں نیک ہوا کرتے تھے ، زلزلے خشک سالی اور سیلاب بھی آیا کرتے تھے۔۔۔ اور کیا جب انسان اس وبا پہ قابو پا لے گا تو شراب خانے رقصگاہیں اور جوئے خانے دوبارہ نہیں کھل جائیں گے۔۔ چین میں تو کھلنا شروع بھی ہو گئے ہیں۔
خدا کے لئے علم کے بغیر ، چیزوں کی حقیقت جانے بغیر ان پہ رائے زنی نہ کیا کریں اور ایک،، مہربانی ،، خدائے بزرگ برتر پر بھی کریں کہ انسانی کوتاہیوں اور مظاہر فطرت کی تبدیلیوں کی ذمہ داری اس کی ذات پر عائد نہ کیا کریں۔ اس نے کائنات خلق کی اور اس کے چلنے کے لیے کچھ عقلی اور سائنسی ضابطے مقرر کر دیے ہیں جن کے مطابق وہ چلتی ہے او وہ ضابطے کسی ایک فرد یا گروہ کی بداعمالیوں سے نہیں بدلتے۔ اور خدا کو کسی سردار وڈیرے یا بادشاہ جیسا مزاج رکھنے والا نہ سمجھیں جو اپنے موڈ کے مطابق کام کرتا ہے ، یہ دینی عقیدہ توحید کے بھی خلاف ہے۔
ایک اور مہربانی بھی کریں کہ پکی روٹی نورنامہ تبلیغی نصاب اور تحفتہ العوام کے علاوہ بھی کچھ پڑھ لیا کریں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر