پاکستانی قوم کی معیشت کمزور ہے ۔ بے روزگاری بہت ہے ۔ صنعتیں بھی رینگ کے چل رہی ہیں لیکن ایک خوبی بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہے حالات سے مقابلہ کرنے کی بے پناہ قوت ۔۔ یہ قوت اللہ پر پکا یقین اور مشکل حالات سے گزر کر ملتی ہے۔ آج پاکستانی ڈاکٹرز ۔ ہیلتھ ورکرز ۔پولیس ۔فوج ۔صحافی اور عوام کرونا وائرس کے خلاف بے جگری اور بہادری سے جنگ لڑ رہے ہیں تو اس کی وجہ بیس سال سے ملک میں دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی ہمت ہے ۔اس جنگ میں خودکش دھماکوں۔ڈرون حملوں اور بڑوں اور معصوم بچوں کو قتل وغارت کر کے قوم کے مورال کو پاش پاش کرنے کی سر توڑ کوشش کی گئی مگر اللہ کی نصرت سے قوم نے یہ جنگ جیتی اور الٹا مورال بلند ہوا
۔دھشت گردی کی جنگ سے ہر پاکستانی متاثر ہوا مگر اس سے اس کی مقابلہ کرنے کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آج پوری دنیا میں خوف و ہراس کی فضا ہے مگر پاکستانی اس وبا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مقابلہ کر رہے ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ رسک نہیں تو کامیابی بھی نہیں۔ no risk no gain .
یہاں سوال یہ ہے کہ رسک اور خطرات آدمی کو کیوں کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رسک انسان کے اندر سوئی ہوئی قوتوں کو جگاتا ہے جس سے ایک معمولی انسان میں غیر معمولی صلاحتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر آدمی خطرات کا مقابلہ نہ کرے وہ رسک کی صورتوں سے دور رہے تو وہ ایک سست اور کاہل انسان بن جائے گا۔ اس کی فطری صلاحتیں خوابیدگی کی حالت میں پڑی رہینگی وہ ایسا بیج ہو گا جو پھٹا نہیں کہ درخت بنے وہ بحرالکاہل ہو گا وہ ایسا سمندر ہوگا جس کی موجوں میں طلاطم نہیں کہ طوفان بنیں۔ علامہ اقبال نے یہ کیوں کہا تھا؎ خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے…کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔۔۔۔ جب آدمی کو خطرات پیش آتے ہیں جیسا کہ پچھلے بیس سال سے ہم کو پہلے دھشت گردی اور اب وبا کی صورت میں پیش آ رہے ہیں تو اس کی چھپی ہوئی فطری صلاحتیں جاگ اٹھتی ہیں ۔حالات کا دباٶ اسے مجبور کر دیتا ہے کہ وہ متحرک ہو جائے اور اپنی ساری طاقت جمع کر کے کام پر لگا دے۔
زندگی میں ہم نے 85 سال کے بوڑھوں کے قصے پڑھے جو ہوائی جہاز بھی چلاتے تھے اور برف پر skiing کرتے تھے جب ان سے اچھی صحت اور کامیاب زندگی کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے مشترکہ پوانٹ بتائے کہ ہم جوان رہنے کے لیے خطرات میں جینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ زندگی کو کار آمد اور کامیاب بنانے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ آپ رسک لینے کے لیے تیار رہیں۔بزنس ۔کھیل ۔شادی ۔زندگی کے ہر شعبے میں رسک آپ کو آگے بڑھنے کا راستہ دیتا ہے۔ عیش و عشرت کی زندگی بظاہر بڑی پرسکون نظر آتی ہے مگر انسان کو کاہل اور بے عمل انسان بنا دیتی ہے۔ زندگی کے چیلنج آپ کو فضاوں میں پرواز کرنا سکھاتے ہیں ؎ ۔۔۔ جھپٹنا ۔پلٹنا ۔پلٹ کر جھپٹنا ۔۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ۔۔۔ آج وبا کے حالات نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا از سر نو جائیزہ لیں۔ ہم کرپشن ۔ملاوٹ ۔
رشوت ۔سفارش ۔بے ایمانی ۔ سستی کاہلی سے توبہ کر کے ایک نیے دور کا آغاز کریں۔ ہم ریاست مدینہ بنانے کے صرف دعوے نہ کریں بلکہ حقیقت میں ایسی ریاست قائم کر دیں۔ برائیاں۔لوٹ کھسوٹ ۔جھوٹ ۔جعل سازی سے پرہیز کریں۔ یار بہت سے غیر مسلموں کی ریاستیں کافی برائیوں سے پاک ہیں اگرچہ وہ دعوے نہیں کرتے ہم دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھامے کھڑے ہیں کیا ہم عدل و انصاف پر مبنی ریاست نہیں بنا سکتے ۔ کیا ہم نئی ایجادات کرنے کے اہل نہیں؟ دنیا کے آغاز سے ابن آدم وائیرس کا مقابلہ کرتا آیا ہے ۔ایسی جڑی بوٹیاں دریافت ہو چکی ہیں جو بڑی سے بڑی بیماری کو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہیں ۔ ہم اٹھیں اور اللہ کی اس عطا سے فاعدہ اٹھائیں۔جب سے ہم نے ہر کام کے لیے دوسروں کو دیکھنا شروع کیا ہماری سوچ غلامانہ ہو گئی۔ اللہ نے پاکستان کو سب کچھ دے رکھا ہے بس ذرہ اپنی ڈائیرکشن تبدیل کرنی ہے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہے ۔یہ باد مخالف ہمیں نیچے گرانے کے لیے نہیں چل رہی بلکہ اونچا اڑانے کے لیے چل رہی ہے۔ ان شاء اللہ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ