فقیر راحموں بتا رہے ہیں کہ
”جب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے صحافی کیلئے ایک لاکھ روپے امداد،وفات کی صورت میں خاندان کیلئے10لاکھ روپے اور بیوہ کیلئے تاحیات10ہزار روپے پنشن کا اعلان کیا ہے۔ ایک عرصہ سے گھروں پر بیٹھے بیروزگار صحافیوں کی بیگمات آتے جاتے ہوئے انہیں معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں“
کریم اللہ صحافیوں سمیت سارے انسانوں کو مصیبت وآفت اور محتاجی سے محفوظ رکھے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں کڑوا سچ یہ ہے کہ سب اچھا بالکل نہیں، پچھلے ایک ہفتے کے دوران لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ملک میں متاثرین کورونا کی تعداد4790ہے اور وفات پانے والوں کی تعداد75 جبکہ 727 افراد صحت یاب ہوئے۔
شہریوں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بے پناہ شکوے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ شہریوں کی اکثریت احساس ذمہ داری سے محروم ہے،
جمعہ کے روز نماز جمعہ کے اجتماعات کے حوالے سے اسلام آباد سے کراچی تک درجنوں مقامات پر ان قواعد وضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہوئی جن پر قبل ازیں حکومتوں اور علمائے کرام اتفاق کرچکے تھے۔
مانسہرہ میں جے یو آئی(ف)کے سابق رہنما مفتی کفایت اللہ نے تو اس موقع پر تندوتیز خطاب میں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا اعلان کیا،
کراچی میں فرنٹیر کالونی کی اصفہانی حقانیہ مسجد میں سینکڑوں نمازی نماز جمعہ کیلئے نہ صرف جمع ہوئے بلکہ شان وشوکت سے جمعہ ادا ہوا،قانون کی بالادستی کیلئے متعلقہ تھانہ کی خاتون ایس ایچ او جب عملہ لے کر مسجد پہنچیں تو ان پر پتھراؤہوا، ننگی گالیاں دی گئیں،حسن اتفاق سے خاتون ایس ایچ او بھی پشتون ہیں، انہوں نے جواباً پشتو میں کچھ تلخ جملے کہے۔
افسوس یہ ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا احساس کرنے اور شرمندہ ہونے کی بجائے اے این پی کراچی کے چند کامریڈ اس خاتون ایس ایچ او کیخلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم چلا رہے ہیں، اے این پی جیسی سیکولر قوم پرست جماعت کے کارکنان سے یہ توقع نہیں تھی مگر خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
سستی شہرت کے حصول کے اب دو ہی طریقے ہیں، مذہبی کارڈ کھیلو یا لسانی نفرت کو ہوا دو۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سمیت نجف اشرف اور کر بلا میں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کیلئے وضع کئے گئے اصولوں پر سختی سے عمل ہو رہا ہے تو ہمارے
”دیسی بدو“ اسلام خطرے میں ہے کے نعرے ماررہے ہیں۔
ان کو سمجھنا ہوگا کہ مذہب وعقیدے انسانوں سے ہی قائم ودائم اور آگے بڑھتے ہیں اور اگر بے احتیاطی سے وبا کو پھیلنے کا موقع ملا انسان ہی نارہے تو کیا ہوگا۔
ہم میں سے وہ سارے لوگ جن کی باسی کڑی میں اُبال آیا ہوا ہے یہ کیوں نہیں سوچتے موجودہ حالات میں انسانیت کا تحفظ، ماحول کو بہتر بنانا اور صحت عامہ کے اصولوں پر عمل زیادہ اہم ہے یا لاؤڈ سپیکر سے جذباتی اعلانات اور ردعمل؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا مخمصہ ابھی تک ختم نہیں ہوا، وہ ایک ہی سانس میں دو باتیں کرتے ہیں اولاً یہ کہ کورونا سے حالات بگڑیں گے، ثانیاً یکدم لاک ڈاؤن کیا تو غربت بڑھے گی۔
یہاں سادہ سا سوال ہے، وزیراعظم تکرار کیساتھ کہہ چکے کہ ہمیں 15جنوری سے صورتحال کے مخدوش ہونے کا علم تھا۔
صوبائی حکومتوں نے15مارچ کے بعد لاک ڈاؤن کی طرف جانے کا فیصلہ کیا پھر درمیانی دو ماہ کے دوران وفاقی حکومت نے صوبوں سے ملکر حکمت عملی کیوں نہ وضع کی اور صبح شام جن خطرات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ان سے نمٹنے کا پلان کیوں نہ وضع کیا۔
اخبار نویس کو زیب نہیں دیتا کہ منتخب وزیراعظم بارے یہ عرض کرے کہ ان میں فیصلہ سازی کی کمی ہے یا پھر یہ کہ وہ صرف سندھ حکومت کی نفرت میں حقیقت پسندی کے مظاہرے سے گریز کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق چیخ چیخ کر یہی بتا سمجھا رہے ہیں۔
وفاق سے ایک بھیانک غلطی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے وہ اب ”احساس پروگرام“ کا نام دے چکا کی امدادی رقم تقسیم کرنے میں ہوئی۔
آسان لفظوں میں عرض کروں تو یہ کہ احساس پروگرام کے تحت ماہانہ بنیادوں پر مستحق افراد کو دی جانے والی امداد پچھلے تین ماہ سے معطل تھی موجودہ حالات میں پچھلے تینوں مہینوں کی رقم یکجا کر کے ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کو 12ہزار روپے کی فی کس تقسیم 10 اپریل سے شروع ہوئی۔
پہلے یہ امدادی رقم اے ٹی ایم کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی اب مساجد سے اعلانات ہوئے کہ آپ کے شہر میں فلاں فلاں جگہ احساس پروگرام کی رقم دی جارہی ہے۔
رقم کی وصولی کیلئے ہر جگہ سینکڑوں مرد وزن اکٹھے ہوئے، لاک ڈاؤن کے اصول کو تو خود وفاقی حکومت نے روند کر رکھ دیا۔ ملک بھر میں دفعہ144 نافذ ہے، یہ بھی پامال ہوا، غورطلب امر یہ ہے کہ شہروں اور قصبوں میں مراکز قائم کرکے نقد رقم دینے کا فیصلہ کس ”اعلیٰ دماغ“ کا تھا۔
کیا یہ لوگوں کی مدد ہو رہی ہے یا انہیں 12ہزار روپے کے عوض موت کے منہ میں دکھیلا جارہا ہے۔
حکومت کے حامی ایک نشریاتی ادارے اور ایوان وزیراعظم کے ایک جعلی ترجمان نے سندھ میں احساس پروگرام کی رقم کی تقسیم کے حوالے سے آصف علی زرداری پر بھونڈہ الزام لگا دیا۔
کیا یہ رقم وفاقی ادارہ تقسیم کر رہا ہے یا پیپلزپارٹی؟
ملک ابتر صورتحال سے دوچار ہے، وفاق سپریم کورٹ میں کہہ چکا کہ25 اپریل تک مریضوں کی تعداد 70ہزار تک پہنچ جائے گی۔
وزیراعظم نے کل بھی بے احتیاطی کو تباہ کن قرار دیا، ان حالات میں اپنی کمزوریوں اورعاجلانہ فیصلوں کی پردہ پوشی کیلئے کراچی کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج سابق صدر مملکت پر بے ہودہ الزام تراشی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت سمیت ہر کس وناکس موجودہ حالات میں سندھ حکومت کی کارکردگی کو احسن ترین قرار دے رہا ہے؟
یہ عرض کرنے میں کوئی عار نہیں کہ غربت اور مسائل موجودہیں، عوام کو ان سے ریلیف دلانا حکومت کا کام ہے
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
جھوٹی تسلیوں اور بڑبولے پن کی ضرورت نہیں
یہ ملک ہم سب کا ہے، اسے آفت، امتحان اور جارحیت سے محفوظ رکھنے کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی محض سیاسی مخالفین کی نفرت میں مسائل سے چشم پوشی کی بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
اتوار 12 اپریل 2020 ء
روزنامہ مشرق پشاور
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ