جناب وزیر اعلی ا صاحب ۔۔۔۔ایک فوری اور ھنگامی فیصلہ یہ بھی کر ڈالئیے۔ ۔پنجاب میں مجسٹریسی نظام فی الفور بحال کر دیا جائے یقین مانئیے موجودہ حالات میں ۔
ایک اسسٹنٹ کمشنر پوری تحصیل نہیں سنبھال سکتا ۔اور آپکو علم ھے کہ پنجاب بالخصوص سرائیکی وسیب کی تحصیلیں کتنا طول وعرض رکھتی ھیں ،تحصیل کونسلز ۔میونسپل کمیٹیز ۔مارکیٹ کمیٹیز ۔کی ایڈمنسٹریٹر شپ ۔جہاں عملہ کی کمی بدستور موجود ۔ھسپتالوں کی ھیلتھ کونسل کی سربراھی پھر اب گندم خریداری مراکز کی نگرانی ۔احساس کفالت پروگرام کے مراکز کے انتظامات و نگرانی۔شہروں کی صفائی اور پینے کے پانی کے مسائل ۔تجاوزات کاخاتمہ۔ ۔بازاروں میں پرائس کنٹرول ٹریفک کے معاملات ۔اتنی ذمہ واریوں کے باوجود کسی بھی سماج دشمن عنصر کو سزا نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔سرکار سوچئیے گا ضرورھماری دانست میں ۔۔میجسٹریسی نظام کی بحالی آپکو گڈ گورنینس میں مدد گار ثابت ھوگی
جناب وزیر اعلی ا صاحب ۔۔۔۔ایک فوری اور ھنگامی فیصلہ یہ بھی کر ڈالئیے۔ ۔پنجاب میں مجسٹریسی نظام فی الفور بحال کر دیا جائے یقین مانئیے موجودہ حالات میں ۔ایک اسسٹنٹ کمشنر پوری تحصیل نہیں سنبھال سکتا ۔اور آپکو علم ھے کہ پنجاب بالخصوص سرائیکی وسیب کی تحصیلیں کتنا طول وعرض رکھتی ھیں ،تحصیل کونسلز ۔میونسپل کمیٹیز ۔مارکیٹ کمیٹیز ۔کی ایڈمنسٹریٹر شپ ۔جہاں عملہ کی کمی بدستور موجود ۔ھسپتالوں کی ھیلتھ کونسل کی سربراھی پھر اب گندم خریداری مراکز کی نگرانی ۔احساس کفالت پروگرام کے مراکز کے انتظامات و نگرانی۔شہروں کی صفائی اور پینے کے پانی کے مسائل ۔تجاوزات کاخاتمہ۔ ۔بازاروں میں پرائس کنٹرول ٹریفک کے معاملات ۔اتنی ذمہ واریوں کے باوجود کسی بھی سماج دشمن عنصر کو سزا نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔سرکار سوچئیے گا ضرورھماری دانست میں ۔۔میجسٹریسی نظام کی بحالی آپکو گڈ گورنینس میں مدد گار ثابت ھوگی
تحریر : محمد اسد اللہ شہزاد۔۔۔ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر راجن پور
ٹڈی دَل اورمحکمہ زراعت توسیع و ضلعی انتظامیہ راجن پور کے اقدامات
ٹڈی دَل گراس ہاپر کی بڑی قسم کا سب سے زیادہ پایا جانے والا ایک کیڑاہے۔ جس کا سائنسی نام Schistocerca Gregariaہے۔ ٹڈیاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں بعض بڑی ہوتی ہیں اور بعض چھوٹی ، بعض سرخ رنگ کی ، بعض زرد رنگ کی اور بعض سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔انفرادی حالت میں ٹڈی دَل کے بچے ہلکے پیلے سبز اور پھر سیاہی مائل بھورے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جبکہ اجتماعی حالت میں مکمل کیڑے کا رنگ بھوسہ نما اور زرد ہوجاتا ہے۔ ٹڈی کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں دو سینے میں، دو بیچ میں اور دو آخر میں۔ٹڈی دل ایک ہجرت کرنے والا کیڑا ہے جس کے پوری دنیا میں 20 اسپیشیز پائے جاتے ہیں۔صرف 3 عدد ٹڈی دل مل کر چند ہفتوں میں لاکھوں کا جھنڈ بنا سکتے ہیں۔ ایک بالغ ٹڈی 8 سے 10 ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔مکمل نر کیڑا 40سے 50ملی میٹر لمبا اور مادہ 50سے 60ملی میٹر تک لمبائی کی ہوتی ہے۔اگر موسم اور ہوا موافق ہو تو ٹڈی 3000 کلومیٹر تک سفر کر سکتی ہیں۔یہ زمین اور سمندر دونوں راستوں سے گزر سکتی ہیں، یہ دن کو سفر اور رات کو آرام کرتی ہیںاور ٹڈی 2 کلومیٹر اونچائی تک اڑ سکتی ہیں۔ ایک جھنڈ میں کروڑوں کی تعداد میں ٹڈیاں ہو سکتی ہیں۔ایک جھنڈیا دَل کئی کلومیٹر تک پھیلا ہو سکتا ہے ۔
2003 سے 2005 کے درمیان افریقہ میں ٹڈی دل نے تباہی مچائی اور 100 فیصد فصلوں کو تباہ کر دیا، بالآ خر انتہائی سخت سردی اور خشک موسم میں 13 ملین ہیکٹرز پر زمینی اور فضائی کیمیکل اسپرے کرکے اس کو ختم کیا گیا جس پر تقریباً 500 ملین ڈالر خرچہ آیا۔ٹڈی دَل اس وقت پاکستان میں براستہ بلوچستان داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت صوبہ بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں اس کی موجودگی رپورٹ ہوئی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں 2019 میں مغربی ہوائیں معمول سے زیادہ چلیں جس کی وجہ سے بارشیں بھی زیادہ ہوئیں اور پاکستان کے جنوب مغرب میں موجود ایران و سعودی عرب و دیگر خلیجی ریاستوں میں پہلے سے موجود ٹڈی دَل کو پاکستان آنے کا موقع ملا۔
ٹڈی دَل کو قدرتی ، غیر کیمیائی اور کیمیائی طریقوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ قدرتی کنٹرول میں بہت ہی سخت اور خشک سردی کا موسم ان کو ختم کر سکتا ہے،میچور ہونے سے پہلے اگر خوب بارش ہو جائے تو تب بھی یہ ختم ہو سکتے ہیں اور پرندے ، رینگنے والے جانور اور بھڑوغیرہ ٹڈیاں کھاتے ہیں جس سے قدرتی کنٹرول میں مدد ملتی ہے۔ غیرکیمیائی طریقہءکنٹرول میں جہاں مکڑی کے دَل اکھٹے ہوں وہاں میکانکی طریقہ سے پودوں کی ٹہنیوں اور چھڑیوں سے ختم کیا جائے، رات کے وقت جھاڑیوں اور پودوں پر بیٹھی ہوئی مکڑی کو شعلہ بردار مشینوں سے آگ لگا کر تلف کردیا جائے اور جس زمین میں مکڑی کے انڈوں کی نشاندہی ہوجائے یعنی جہاں سوراخ ہوں اس رقبہ کے گرد 2فٹ گہری اور1.5تا2.5فٹ چوڑی کھائیاں کھود دی جائیں تاکہ ٹڈی کے نوزائیدہ بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد خوارک کی تلاش میں ان کھائیوں میں گرکر جمع ہوجائیں پھر وہاں ان کھائیوں میں مٹی سے انہیں دفن کرکے زہریلے دھوئیں سے انہیں ختم کیاسکے۔ جبکہ کیمیائی کنٹرول میں لیمبڈاسائی ہیلوتھرین (Lambda Cyhalothrin)اور کلورپائیریفاس (Chlorpyriphos)کا محلول استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ محکمہ زراعت کے مقامی عملہ کے مشورہ سے بھی زرعی زہروں کا انتخاب اور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ٹڈیوں کا جھنڈ جتنا بڑا ہوگا اسے کنٹرول کرنا اتناہی مشکل ہوگا، یہ بہت ہی ضروری ہے کہ ایک ہی وقت میں مکمل جھنڈ کو اسپرے کر کے ختم کیا جائے بصورت دیگر یہ ختم نہیں ہوگا
۔
حکومتِ پنجاب کی جانب سے صوبہ کی سطح پر پی ڈی ایم اے پنجاب، محکمہ زراعت پنجاب اور تمام متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ باہم رابطے میں ہیں۔ جنوبی پنجاب خاص طور پر ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور ڈویژن کے اضلاع میں ٹڈی دَل کے حوالے سے مسلسل مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے چوکس ہیں۔اسی طرح وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں خاص طور پر فیڈرل پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور دیگراداروں سے رابطہ اور کوآرڈینیشن بھی جاری ہے۔
اب اگر ضلع راجن پور کی بات کی جائے تو گذشتہ کئی دنوں سے یہاں ٹڈی دَل کے رینگنے والے جُھنڈتحصیل روجھان کے علاقوں عربی ٹبہ، شاہ والی، باڑہ ٹپہ، شیخ والا اور دیگر علاقوں میں پائے گئے ہیں جن کی پیدائش بلوچستان کے علاقوں میں ہوئی مگر انہوں نے کچھی کینال کو پار کرکے روجھان کے کچھ علاقوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ ضلعی انتظامیہ راجن پور ڈپٹی کمشنر ذوالفقار علی کی زیرِ قیادت اس ضمن میںمکمل طور پر متحرک اور الرٹ ہے۔ٹڈی دَل کے مکمل تدارک کے لیے 24/7انسداد ٹڈی دل آپریشن پوری قوت کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے بریفنگ دیتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پیسٹ وارننگ راجن پور /ضلعی فوکل پرسن انسداد ٹڈی دَل آپریشن راحت حسین راشد نے بتا یا کہ آپریشن کے نتیجہ میں ٹڈی دل کی بہت بڑی تعدادکا خاتمہ کردیا گیاہے ۔ صورتحال کی پیچیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیڈرل پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے فضائی و زمینی ٹیمیں ٹڈی دَل کے خلاف آپریشن میں متاثرہ علاقوں میں جاری آپریشن میں ہراول دستے کا کردار نبھا رہے ہیں۔ٹڈی دَل کے خلاف آپریشن میں ہیلی کاپٹر، سپرے طیارہ، مشینی سپرے انجن، جٹاو سپرے انجن ، ڈیفنڈر اور دیگر بھاری سپرے مشینری کو استعمال کیا جارہا ہے۔ کل سروے کیے گئے149679ایکڑ رقبہ میں سے اب تک کل 26916ایکڑ رقبہ پر کیڑے مارادویات کا اسپرے کیا گیا ہے جس میں 20934ایکڑ رقبہ پر زمینی آپریشن کے ذریعے جبکہ 5982ایکڑ رقبہ پر فضائی آپریشن کے ذریعے سپرے کیا گیا۔ ابھی مزید 30387ایکڑ رقبہ پر سپرے کرنا باقی ہے۔ راحت حسین راشد نے مزید بتا یا کہ آپریشن کو مزید موثر بنانے کے لیے مختلف مقامات پر خندقیں کھود کر رینگنے والی ٹڈیوں کو ان میں پھنسا کر ان پر سپرے کرکے انہیں تلف کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ ٹڈی دل کا انڈوں، بچوں اور ہاپرز (Hopers) کی حالتوں میں تدارک یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ آئندہ نسل پروان نہ چڑھ سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ضلع راجن پور،ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ اور ضلع رحیم یار خان کی محکمہ زراعت توسیع کی ٹیمیں ٹڈی دل کے خاتمہ کے لیے دن رات آپریشن میں مصروف ہیںجنہیں فیڈرل پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پاکستان، ضلعی انتظامیہ راجن پور، محکمہ پلانٹ پروٹیکشن، آن فارم واٹر مینجمنٹ، پولیس، بارڈر ملٹری پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقارعلی کے مطابق ضلع راجن پور میں انسداد ٹڈی دَل آپریشن ضلع بھر سے ٹڈی دَل کے مکمل خاتمہ تک پوری قوت سے جاری رہے گا اور اس ضمن میں کسی متعلقہ محکمہ کی غفلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔کسانوں کی فصلوں کو ہر قیمت پر ٹڈی دل سے محفوظ رکھا جائیگا اور اس ضمن میں تمام دستیاب وسائل کو استعمال میں لایا جائے گا۔مزید یہ کہ ٹڈی دَل کے ضلع بھر سے مکمل خاتمہ تک نہ خود چین سے بیٹھوں گا اور نہ ہی کسی متعلقہ افسر کو بیٹھنے دوں گا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف جہاں گزشتہ کئی دنوں سے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت توسیع راجن پور ٹڈی دَل کے تدارک کے لیے شب روز ایک کئے ہوئے ہیں اور کارونا وائرس کی وبائی صورتحال کے پیش نظر حفاظتی اقدامات اپناتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں کی مشترکہ کاوشوں سے ٹڈی دل کے کنٹرول کے سلسلہ میں حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو رہے ہیں، وہیں اب دوسری طرف لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ ضلع میں کسی بھی مقام پر ٹڈی دَل کی موجودگی کے شواہد ملنے پر ضلعی انتظامیہ کوقریبی اسسٹنٹ کمشنر آفس، محکمہ زراعت کے دفاتر، محکمہ بارڈر ملٹری پولیس کی چیک پوسٹ یا براہ راست ڈپٹی کمشنر آفس راجن پور کو اطلاع دیں اور کسانوں کی فصلات و سبزچارہ کو ٹڈی دَل سے محفوظ رکھنے میں ضلعی انتظامیہ و محکمہ زراعت توسیع راجن پور کا ساتھ دیں۔
جناب ڈی پی او صاحب راجن پور ۔۔۔۔گزارش ھے کہ گورنمنٹ کی جانب سے احساس کفالت پروگرام کے تحت ضلع بھر میں مراکز بنائے گئے پولیس فورس وھاں بھی ڈیوٹی دے رھی ھے ۔۔دفعہ 144″ لاک ڈاون گندم خریداری مراکز ۔۔ھر جگہ پنجاب پولیس جوان نہایت استقلا ل اور حوصلے کے ساتھ ڈیوٹی دے رھے ھیں ۔۔محمد پور پولیس شاباش کی مستحق ھے کہ ان حرامخوروں کو پکڑ لیا ۔۔اب اگر جناب خصوصی توجہ فرمائیں تو ان بے غیرتوں کی اس وقت تک ضمانت نہ ھونے دی جائے جب تک یہ امدادی رقم کی تقسیم کا عمل جاری ھے ۔۔۔۔مگر ضلع بھر میں یہ جو خواتین کی رقوم سے کٹوتی کرنے والا حرامخور اومنی مافیاء متحرک ھو گیا ھے اسکے پس پردہ محرکات کا باریک بینی سے جائزہ اور تفتیش بھی ضروری ھے۔۔۔پولیس تفتیش کا آغاز ھمیشہ شک کی بنیاد پر ھوتا ھے تو بطور پاکستانی شہری اپنے شکوک وشبہات بھی پیش کیئے دیتا ھوں ۔۔۔۔پہلا شک ۔۔۔اس اسکیم کا پاسورڈ تو صرف ان لوگوں کے پاس ھے جو سرکاری مراکز میں رقم تقسیم کر رھے ھیں اور ان کی مکمل نگرانی بھی ھو رھی ھے پھر یہ پاسورڈ باھر کیسے پہنچ جاتا ھے ۔۔۔۔کیا سابقہ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم اور موجودہ احساس کفالت پروگرام کا عملہ تو ملوث نہیں۔۔۔۔ان سرکاری مراکز پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین اور افسران کے علاہ باقی جو لوگ ڈیوٹی دے رھے ھیں یا یہی خود پرائیویٹ اومنی والے اندر ڈیوٹی دے رھے ھیں کیا ان کی تلاشی لی جاتی ھے ان میں سے کوئی خواتین کے کارڈز تو اندر نہیں لے جاتا ۔۔۔مبینہ طور پر یہ بھی معلوم ھوا ھے کہ سرکاری مراکز سے ھٹ کر خواتین سے شناختی کارڈ لے لیے جاتے ھیں ان سے انگوٹھے بھی لگوا لیے جاتے ھیں اور انہیں کہاجاتا ھے آپکو پیسے گھر مل جائیں گے یہ بات ھے تو باعث حیرت مگر پنجاب پولیس کے سیکیورٹی اھلکار اور سپیشل برانچ والے کھوج لگا سکتے ھیں ۔۔۔اور ایک مشاھدہ یہ بھی ھے کہ اومنی والوں کے دلال ان سرکاری مراکز کے باھر گھوم رھے ھوتے ھیں جو عورتوں کے ساتھ آنے والے مردوں سے مک مکا کر کے ان کے شناختی کارڈ لے جاتے ھیں ۔اگر صرف ایسے لوگ پکڑ لیے جائیں تو بھی اصل مجرموں تک پہنچنے میں آسانی ھو گی ۔۔سرکاری مراکز کوئی زیادہ نہیں کچھ مقامات پر دو ھیں باقی شہروں میں ایک ایک ھے ان کے باھر موجود مرد حضرات سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ھے جو کسی خاتون کے ساتھ نہیں آیا ھوا یقینی طور پر وہ ایجنٹ ھے ۔۔۔آج محمد پور دیوان میں جو پکڑے گئے ھءں سکونتی فاضل پور کے ھیں فاضل پور اور محمد پور کے مراکز میں موجود اومنی والوں میں سے ھی کسی سے ان کا تعلق ھو سکتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔امید ھے کہ جناب والا ان گزارشات پر ضرور غور فرمائیں گے شکریہ آفتاب نواز مستوئی آواز حقوق جامپو
ر
حاجی پورشریف
ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقار علی کھرل نے کہا ہے ضلع راجن پور کاشتکاروں سے گندم کا ایک ایک دانہ خرید کیا جائے گا۔ کسانوں کی آن لائن رجسٹریشن اور ان کو دیگرسہولیات کی فراہمی میں کسی قسم کی لاپرواہی نہیں ہونی چاہیئے ۔ باردانہ کی تقسیم میں شفافیت کو ہرصورت یقینی بنایا جائے۔ یہ باتیں انہوں نے گندم خریداری مرکز مٹ واہ تحصیل روجھان کے اچانک دورہ کے موقع پر کہیں ۔ انہوں نے گندم خریداری مرکز پرآنے والے کاشتکاروں کو فراہم کردہ سہولیات کا جائزہ لیا اور وہاں کاشتکاروں کے مرتب کیے گئے ریکارڈ کو بھی چیک کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی خصوصی ہدایات پر پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں158ارب روپے سے زائد مالیت کی گندم خرید کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ضلع راجن پور میں کوئی بھی فرد یا ادارہ بغیر فوڈ گرین لائسنس کے گندم خرید کرنے یا ذخیرہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ضلع راجن پور میں قائم کردہ 9مراکز گندم خریداری پر 18لاکھ سے زائد بوری خرید کی جائے گی اور کسانوں کے معاشی تحفظ کا ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
حاجی پورشریف
ڈپٹی کمشنر ذوالفقارعلی کھرل نے کہا ہے کہ تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں مصنوعی مہنگائی کرنے والے عناصر اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھر پور کاروائیاں کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی ہدایات پر عوام الناس کو سستے داموں اشیائے خوردونوش کی فراہمی اور مارکیٹ میں اشیائے خوردنی کے طلب و رسد کو یقینی بنانے کے لیے تمام اختیارات اور وسائل استعمال کیے جائیں۔یہ ہدایات انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر راجن پور میاں مراد حسین نیکوکارہ کے ہمراہ راجن پور شہر میں رمضان بازار کی مجوزہ جگہ کا دورہ کرتے ہوئے دیں۔
حاجی پورشریف
ڈپٹی کمشنر ذوالفقارعلی نے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے احساس کفالت پروگرام کے تحت ضلع راجن میں 10مراکز پر 1لاکھ 15ہزار سے زائد غریب رجسٹرڈ خواتین میں 12ہزارروپے فی کس کے حساب سے تقسیم کیے جارہے ہیں۔ اور ان مراکز پر آنے والی خواتین کو بیٹھنے کے سایہ دار جگہ کی فراہمی، پینے کا صاف پانی، ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور پانی کی فراہمی اور سماجی فاصلہ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کو امدادی رقوم فراہم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر10 مراکز گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر2راجن پور، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج سکھانی والا روڈ فاضل پور، گورنمنٹ کالج برائے خواتین جام پور، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر1جام پور، گورنمنٹ بوائز ہائیر سیکنڈری سکول داجل، گورنمنٹ بوائز ہائیر سیکنڈری سکول حاجی پورشریف،گورنمنٹ بوائز ہائیر سیکنڈری سکول محمد پوردیوان، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کوٹلہ مغلاں، گورنمنٹ شیخ زید ڈگری کالج روجھان اور اراضی ریکارڈ سنٹر روجھان میں بنائے گئے۔ مگرآنے والے لوگوں کو زیادہ آسانیاں فراہم کرنے کے لیے مزید 8مراکز بھی قائم کردیئے گئے ہیں۔ ان میں گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول عمرکوٹ، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول شاہ والی، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میراں پور، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بنگلہ اِچھا، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول سون میانی، گورنمنٹ بوائز مڈل سکول بستی مکوڑہ کچہ چوہان، گورنمنٹ گرلز مڈل سکول کوٹلہ حسن شاہ اور گورنمنٹ پرائمری سکول بستی پنجابی کچہ راضی شامل ہیں۔
ملک خلیل الرحمٰن واسنی حاجی پورشریف
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون