آج مجھے قوم کے ان بیٹوں اور بیٹیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو فرنٹ لائین پر کرونا وائیرس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ کم از کم اس قسم کی جنگ میں نے پہلے پوری دنیا میں نہیں دیکھی۔ اس جنگ میں سب سے آگے ہراول دستہ ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کا ہے ۔
ہیلتھ سٹاف میں جو خواتین کا عملہ ہے وہ سب سے زیادہ ہمارے سلوٹ کا حقدار ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین اپنے بچوں کے بہت قریب ہوتی ہیں ۔ بچوں کو نہلانا دھلانا بہلانا سب ان کے ذمے ہوتا ہے ۔اب صورت حال اس طرح ہے کہ کرونا وائیرس کا علاج کرنے والی ڈاکٹر یا نرس مائیں اپنے معصوم بچوں کو نہ اٹھا سکتی ہیں نہ سینے سے لگا کے بہلا سکتی ہیں اس لیے جب وہ ڈیوٹی سے گھر آتی ہیں تو ایک اور امتحان شروع ہو جاتا ہے بچے ماں سے چمٹنا چاہتے ہیں وہ ان سے دور بھاگتی ہے ۔اس طرح جو مردانہ ڈاکٹرز اور سٹاف ہے وہ بھی گھر میں اجنبی بن کے رہتا ہے مبادا یہ بیماری ان کے خاندان میں نہ پہنچ جائے ۔
اسی کے علاوہ فور فرنٹ پر ہماری انتظامیہ ۔پولیس۔فوج اور سیکورٹی عملہ اور صحافی ہیں جو جان کی بازی لگا کر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ایسے ہی راشن مہیا کرنے والے رضاکار۔ دکاندار ۔ ٹرک ڈرائیور ۔سبزی فروٹ بیچنے والے ۔ صفائی کرنے والا عملہ دفتروں اور بینکوں کے اہلکار اس چیلنج سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
کسان اور سبزی منڈی کے کارندے ۔ایمبولینس کے ڈرائیور اور تمام لوگ جو اس وقت قوم کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں وہ خراج تحسین کے حقدار ہیں۔آج کرونا وائیرس کے خلاف جنگ لڑنے والے غازیوں کے حوصلے بلند اور اعصاب اتنے مضبوط ہو چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ ہمارے ان دوستوں نے کرونا کو چیلنج سمجھا اس طرح ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھیں اور ایک بالکل نیا حوصلہ پیدا ہوا۔
ان کا یہ حوصلہ قوم کے لیے جرات اور بہادری کی نئی داستانیں رقم کرے گا۔ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ جب جنگی مقابلہ جاری ہو تو فوجی حیرت انگیز طور پر اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ مشکلات اور خطرات سے بے پروا ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جنگ میں یہ عام فوجی نہیں ہوتے بلکہ غیر معمولی لوگ بن جاتے ہیں۔
In battle there are no ordinary soldiers..they are all extraordinary.
آج اس چیلنج سے مقابلہ کرنے والے ہمارے ڈاکٹرز اور دوسرے تمام متعلقہ لوگ ایکسٹرا آرڈینری انسانوں کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ انسان کے اندر اللہ نے پیدائیشی طور پر بے شمار صلاحتیں رکھی ہیں ۔عام حالات میں یہ صلاحتیں سوئی رہتی ہیں مگر جب کوئی خطرہ پیش آتا ہے جب چیلنج کی صورت حال سامنے آتی ہے تو اچانک انسان کی تمام سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں ۔
اس سے پہلے اگر ان کے پاور ہاوس کا ایک بلب جل رہا تھا تو اب تمام بلب بیک وقت جل اٹھتے ہیں۔ اب ان کی عقل زیادہ گہری سوچ کا ثبوت دیتی ہے ان کا جسم زیاہ طاقتوں کے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے ان کی پوری ہستی ایک ہیرو کے کردار کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔چیلنج بظاہر ایک رکاوٹ ہے مگر اپنے نتیجے کے اعتبار سے اعلی ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے۔چیلنج پیش آنے سے پہلے ہر انسان ایک معمولی انسان ہے مگر چیلنج قبول کرنے کے بعد ہر انسان ایک غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔ ہر راستہ اس وقت تک مشکل ہوتا ہے جب ہم اس کو مشکل سمجھتے ہیں لیکن جب مشکل راستے کو چیلنج سمجھ کر چلنا شروع کرتے ہیں تو مشکل دور اور منزل قریب ہونے لگتی ہے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈی پی او حافظ واحد محمود بہت مستعد نظر آ رہے ہیں اور روزانہ شھر کے مختلف ناکوں کا دورہ کر کے پولیس کے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ آج جی پی او کے ناکے پر روزنامہ اعتدال کے چیف ایڈیٹر جناب عرفان مغل کو انٹرویو دیتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ عوام نے لاک ڈاون کا لمبا عرصہ پرامن انداز میں کاٹ لیا ہے اور مزید پانچ روز گھروں میں رہیں تو اس کے دور رس مثبت اثرات برآمد ہونگے۔
انہوں نے عوام کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ عرفان مغل صاحب اور اس کے اخبار کا عملہ بھی خراج تحسین کا مستحق ہے کہ ان مشکل حالات میں باقاعدگی سے روزنامہ اعتدال شائع ہو رہا ہے اور عوام کو کرونا کی بیماری سے متعلق آگاہی اور دوسری معلومات فراہم کر رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر